بھنگ کی کاشت کے لیے مشہور وادی تیراہ کے عوام سکیورٹی چوکیوں کی تعمیر کے لیے درکار زمینیں دینے کو کیوں تیار نہیں؟


tirah
موسم سرما کی شدت کم ہونے کے ساتھ ہی وادی تیراہ کی دیگر کئی خواتین کی طرح 50 سالہ نیاز بی بی بھی اپنی زرعی زمین سے پرانی فصل کی باقیات اکھٹی کرنے اور نئی فصل کاشت کرنے سے قبل زمین میں گوبر ڈالنے کے عمل میں مصروف ہیں۔

کئی روز تک وہ یہ کام کے لیے گھر سے نہیں نکلیں کیونکہ قریب پہاڑی چوٹی پر سکیورٹی فورسز کی تعیناتی کی وجہ سے ان کے لیے باہر نکل کر کام کرنا ممکن نہیں تھا۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دن وہ معمول کے مطابق صبح گھر کے قریب کھیتوں میں کام کر رہی تھیں جب انھوں نے قریبی سڑک پر کافی زیادہ سکیورٹی فورسز کی گاڑیاں چوٹی کے طرف جاتی دیکھیں۔

’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ مسئلہ کیا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد بیٹا آیا اور کہا جلدی سے گھر جاؤ، گھر سے ہم دیکھ رہے تھے کہ پچاس سے زیادہ سکیورٹی اہلکار وہاں چوٹی پر تعمیراتی کام میں مصروف ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’پہاڑ بالکل قریب ہونے کی وجہ سے ہم بے پردگی کے باعث صحن میں بھی نہیں بیٹھ سکتے تھے۔‘

وادی تیراہ کے مرکز لرباغ سے جنوب میں چار کلومیٹر کے فاصلے پر آفریدی قبیلے شلوبر قمبر خیل کے علاقے میں مقامی لوگوں کی ملکیتی زمین پر آٹھ فروری کو امن و امان برقرار رکھنے کی غرض سے پہاڑی پر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے۔

اس اقدام سے ایک دن پہلے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں پانچ مسلح افراد شلوبر قمبرخیل کے ہی علاقے میں گشت کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ زیر گردش ویڈیو میں یہ لوگ خود کو ’مجاہدین‘ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ رہے تھے کہ ’ایک دفعہ پھر ہم وادی میں پہنچ چکے ہیں۔‘

یہ ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سکیورٹی حکام نے اس علاقے میں جگہ جگہ سرچ آپریشن بھی کیے۔

اس واقعے کے بعد سکیورٹی حکام نے پہاڑ کی چوٹی پر چیک پوسٹ کی تعمیر شروع کر دی جس کے خلاف شلوبر قمبر خیل، ذخہ خیل اور ملک دین خیل قبیلوں کے افراد نے احتجاجی مظاہرے کیے تاہم یہ پہلی بار نہیں کہ وادی میں سکیورٹی فورسز کے طرف سے چوکی یا کیمپ کی تعمیرکے سلسلے میں مقامی سطح پر مخالفت کی جا رہی ہے بلکہ پچھلے دو سال میں یہ تیسرا واقعہ تھا۔

وادی تیراہ میں سکیورٹی چیک پوسٹوں کی تعمیر پر پیدا ہونے والے مسائل پر پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا مؤقف جاننے کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ادارے کے طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔

اس سلسلے میں ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر سے بھی بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان سے رابطہ نہیں ہو سکا اور نہ ہی انھوں نے ہمارے پیغامات کا جواب دیا۔

tirah

یاد رہے کہ تیراہ کے مقامی افراد کا ذریعہ معاش بھنگ کی فصل سے جڑا ہے۔ فصل کی کاشت سے لے کر کٹائی تک زیادہ تر کام خواتین ہی کرتی ہیں۔

آج کل 30 سالہ ایران گل اپنی زرعی زمین کو فصل کے لیے تیار کر رہی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ’علاقے کے تمام مردوں کے لیے خواتین کی مدد کے بغیر زرعی زمینوں کو سنبھالنا ممکن نہیں لیکن اس کے ساتھ یہاں پر پردے کی سخت روایات موجود ہیں۔‘

ان کے بقول ’پہاڑی کی چوٹی کے چاروں طرف زرعی زمین اور گھر واقع ہیں جس کے باعث لوگوں نے احتجاج شروع کر کے سکیورٹی حکام کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔‘

باڑہ سیاسی اتحاد کے جنرل سیکریٹری زاہد اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں حکومت اور قبائلی عوام کے درمیان ہر مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جاتا تھا تاہم جب سے علاقے میں بدامنی کے خلاف فوجی کارروائی ہوئی ہے اور بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں تو یہ عمل کمزور ہو چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’حال ہی میں ناکے کے مسئلے پر تیراہ اور باڑہ میں تمام مکاتب فکر کے لوگوں کے طرف سے ردعمل آیا اور یہی وجہ تھی کہ 15 فروری کوسکیورٹی حکام نے ناکے کو بغیر کسی شرط کے خالی کر دیا۔‘

اُن کے بقول تجارتی مرکز لرباغ کے جامع مسجد و مدرسہ اور بر قمبر خیل کے علاقے تکیہ کے مقام پر بھی مدرسے کو بھی خالی کرنا چاہیے۔

tirah

چند مقامی افراد، جو اس معاملے پر سکیورٹی حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شریک رہے، بتاتے ہیں کہ سکیورٹی حکام نے انھیں آگاہ کیا کہ کچھ اطلاعات ایسی موصول ہوئی تھیں کہ علاقے میں امن کے لیے خطر ہ پیدا ہو سکتا ہے تو اس وجہ سے عارضی بنیادوں پر پہاڑ کی چوٹی پر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے تھے تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔

مقامی افراد کے مطابق انھیں بتایا گیا کہ عوام کے تحفظ کے لیے چھوٹی عید تک اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تاہم مقامی لوگوں کے مطالبے پر چند جگہیں خالی کی جا چکی ہیں۔

tirah

مقامی قبائلی سربراہ حاجی صاحب خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ناکے پہاڑ پر پہلی بار پانچ اکتوبر2021 کو چوکی کی تعمیر کی کوشش کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اُس دن قبیلے کے مشران کے طرف سے سکیورٹی حکام کے لیے چائے دعوت کا بندوست کروایا گیا تھا تاہم جیسے ہی اہلکار گاڑیوں میں قریب پہنچے تو رکنے کے بجائے سیدھا چوٹی کے طرف روانہ ہوئے، کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’لوگوں کے بڑی تعداد جلدی سے پیدل ایک ساتھ سکیورٹی فورسز کے ساتھ چوٹی تک پہنچ گئی۔ اُن کے بقول حکام نے بتایا کہ وہ ’عارضی طور پر یہاں چیک پوسٹ قائم کرنا چاہتے ہیں مگر کافی بحث کے بعد وہ واپس روانہ ہو گئے۔‘

ان کے مطابق 26 جون 2022 کو لر باغ سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع قبیلہ برقمبر خیل کے سیاحتی مقام بھوٹان ٹاپ پر چوکی تعمیر کے لیے سکیورٹی اہلکار آئے تھے تاہم چند دنوں کے احتجاجی مظاہروں کے بعد 30 جون کو انھیں یہی مقام خالی کرنا پڑا۔

اس مقام سے علاقے کے دونوں جانب تین سو سے زیادہ خاندانوں کے گھر اور زرعی زمین واقع ہے۔ ٹاپ پر ستر سالہ نصراللہ بھی ڈیڑھ ایکڑ زرعی زمین پر چھوٹے گھر کی تعمیر کر رہے تھے جب اُنھیں پتا چلا کہ وہاں پر سکیورٹی چیک پوسٹ بن رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’کسی نے نہیں پوچھا کہ ہم آپ کی زمین کو استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ میں خود کرائے کے گھر میں رہ رہا ہوں۔‘

سکیورٹی کے سوال پر اُنھوں نے کہا کہ ’امن کون نہیں چاہتا لیکن نہ تو یہ سرحد ہے اور نہ کوئی ایسا مقام کہ جہاں سے دہشت گردوں کے آمد کا خطرہ ہو بلکہ یہ تو گاؤں کی بیچ ایک جگہ ہے، یہاں پر آنے کا کیا مقصد ہے۔‘

اُنھوں نے بتایا کہ بہتر بات یہ ہے کہ سکیورٹی حکام وادی کے اندر کی بجائے افغانستان کے ساتھ سرحد پر نگرانی سخت کر دیں۔

لوگ سکیورٹی حکام کو زمین دینے کو کیوں تیار نہیں؟

سکیورٹی چیک پوسٹوں یا کیمپ کے لیے زمین کے حصول میں کئی مسائل درپیش ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ زمین کے کم ریٹ اور مقامی قبائل کی جانب سے زمین فروخت نہ کرنا ہے۔

خواتین کے پردے کی سخت روایات بھی علاقے میں سکیورٹی چیک پوسٹوں کی تعمیر کے لیے بڑی رکاوٹ ہیں۔

لیاقت علی نے کہا کہ کیمپ کے لیے زمین بیچنے کے لیے علاقے کے بااثر افراد نے رابطے کیا تھا۔

’میں نے ان کو بتایا کہ یہ میرے باپ دادا کی نشانی ہے جس کو کسی بھی قیمت پر دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ زیر قبضہ زمین سے اُن کے تمام معاشی معاملات چل رہے تھے لیکن موجودہ وقت میں انھیں دوسروں سے زکوۃ لے کر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔

50 سالہ نصیب گل اپنے قبیلے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ناکے چوٹی کی مثال یہاں کی آبادی کے لیے صحن کی طرح ہے تو کیسے آپ دوسرے بندے کو ایسی جگہ بیٹھنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔‘

انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شلوبر قمبر خیل کے علاوہ باقی تمام قبیلوں میں سکیورٹی کے چھوٹے بڑے مراکز ہیں تاہم اُن کے بقول ’سکیورٹی حکام کے مطالبے پر ایک مقام کی نشاندہی کی گئی تھی لیکن اس کے ریٹ اور مقام حکام کی مرضی کے مطابق نہیں تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’قبیلے کے مشورے سے ہم زمین دینے کے لیے تو تیار ہیں لیکن ایسا نہ ہو کہ بعد میں مقررہ حد سے زیادہ زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا جائے۔‘

لرباغ مرکز سے کیمپ کے منتقلی کے لیے سکیورٹی حکام کو مقامی لوگوں نے تین مقامات پر زمین فروخت کرنے کے لیے بات کی ہے تاہم ان میں سے صرف ایک قبیلہ ملک دین خیل کے علاقے لاکہ تگہ پر بات چیت جاری ہے۔

ایک مقامی شحص نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ دو سال سے لاکہ تگہ میں چالیس کنال زمین کے خریداری کے لیے سکیورٹی حکام اور مقامی لوگوں کے درمیان بات چل رہی ہے جبکہ دو مہینے پہلے بھی ایک حکومتی وفد نے اس مقام کا معائنہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’زمین کے مالکان کے طرف ستر ہزار روپے مرلہ فروخت کرنے کی بات ہوئی تاہم حکومت کے طرف سے پچاس ہزار روپے مرلہ ریٹ مقرر کیا گیا جس پر بعد میں دونوں فریقین راضی ہوئے لیکن اب تک اس میں کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔‘

انھوں نے بتایا کہ سکیورٹی حکام کی ایک یہ بھی شرط ہے کہ پوری زمین کا مالک ایک بندہ ہو جو کہ ممکن ہی نہیں ہے۔‘

tirah

وادی تیراہ میں سکیورٹی صورتحال

تیراہ کو ایک راستہ پشاور براستہ باڑہ، دوسرا اورکزئی جبکہ تیسرا کرم سے جاتا ہے۔ عموماً یہاں آمدورفت کے لیے باڑہ ہی کا راستہ استعمال ہوتا ہے جس پر 20 سے زیادہ مقامات پر سکیورٹی کی چھوٹی بڑی چوکیاں قائم ہیں جن میں صرف ایک ہی پر پولیس اہلکار تعینات ہیں۔

سفر کے دوران سکیورٹی حکام ہر ایک گاڑی کی جگہ جگہ تلاشی لیتے ہیں جبکہ سفر کے لیے راہداری کا حصول لازمی ہے۔

حال ہی میں مسلح افراد کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی افراد امن وامان کے حوالے سے سولات اُٹھا رہے ہیں۔

قاری سرفراز بھوٹان شریف سے بلدیاتی نمائندے ہیں، اُن کے مطابق ’امن کی خاطر لوگوں نے بڑا نقصان اٹھایا اور اس کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری سکیورٹی فورسز کی ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں پر امن کی ذمہ داری بھی عوام پر ڈالنے کی کوشش میں مقامی آبادی کو زمینوں سے محروم کرنے کے کوشش کی جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ملک کی سرحدوں کی کڑی نگرانی اور سرحد پر باڑ کے ثمرات لوگوں تک پہنچنے چاہییں۔‘

سرکار کس قانون کے تحت زمین استعمال میں لا سکتی ہے؟

مئی 2018 میں قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام سے پہلے انگریز دور سے نافذ العمل فرنٹیئرکرائم ریگولیشن ایکٹ (ایف سی آر) 1901 کے تحت سرکار کو ضرورت کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زمین کو زیرِ استعمال لانے کے لیے ایک طریقہ کار موجود تھا۔

مذکورہ نظام کے تحت زمین کے مالک، علاقہ عمائدین اور مقامی انتظامیہ مشترکہ طور پر زمین کی نشاندہی کر لیتی اور باقاعدہ اُن کا کرایہ یا ریٹ طے ہوتا تھا۔

اُس وقت کی حکومت نے لوگوں کے ساتھ سو سال کی لیز کے معاہدے بھی کیے تھے جن کی مدت 1992 میں ختم ہوئی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل فرہاد اللہ آفریدی نے بتایا کہ ’سنہ 2011 میں ایف سی آر میں کچھ ترامیم کے ساتھ دفعہ 54 کا اضافہ کیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ سرکار مفاد عامہ کے لیے انفرادی اور اجتماعی زمین کو لینڈ ریکوزیشن ایکٹ کے تحت استعمال کرسکتی ہے لیکن زمین کے مالک کو ہر قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’انضمام کے ساتھ قبائلی علاقوں میں 1973 کے آئین اور قانون کی مکمل توسیع ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود بھی دہشت گردی کی لہر میں قبائلی علاقوں میں بغیر کسی صلاح مشورے کے لوگوں کی املاک کو سکیورٹی ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا رہا تاہم مالی فائدہ نہ ملنے کے کئی کیسسز عدالتوں میں آ چکے ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’عدالتوں نے متعلقہ محکموں سے نہ صرف وضاحت طلب کی ہے بلکہ معاوضوں کی ادائیگی کے بارے میں بھی احکامات جاری کیے ہیں۔‘

لیاقت علی نے بتایا کہ وہ ’زمین کے کرائے کے حصول کے لیے پچھلے کئی سال سے کبھی ضلعی تو کبھی سکیورٹی اداروں کے دفاتر کے چکر کاٹ رہا ہوں جبکہ مالی حالات اتنے خراب ہیں کہ پشاور میں اپنا گھر بیچ چکا ہوں۔‘

tirah

وادی تیراہ کی جفرافیائی حیثیت

پشاور سے تقریباً 135 کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب ضلع خیبر میں وادی تیراہ واقع ہے جو کہ قدرتی حسن اور چرس کی پیدوار کے لیے جانی جاتی ہے۔

پورا علاقہ تین سو کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ وادی کے مشرق میں اورکزئی، جنوب مغرب میں کرم جبکہ شمال میں افغانستان کے ساتھ طویل 65 کلومیٹر سرحد واقع ہے۔

یہی علاقہ پشتون قبیلے آفریدی کا مرکز تھا۔ سخت روایات کے لیے مشہور علاقے میں ماضی میں مقامی افراد قبائلی سڑک سمیت کسی دوسرے سرکاری منصوبے کے شدید مخالف تھے تاہم 9/11 کے بعد بدلتی صورتحال کے پیش نظر پہلی بار پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کی رسائی ان علاقوں تک ہوئی جس کے بعد وادی میں ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments