قربتوں میں فاصلے


کیا کبھی آپ نے وہ بے توجہی محسوس کی ہے جب کوئی آپ کو دبائے۔ ہاتھ تو آپ کے کندھوں پر حرکت کریں لیکن جو تسلی، دباو اور آرام ملنا چاہئیے۔ وہ نہ ملے۔ بے چینی ہو؟

کیا آپ نے کبھی دو ایسے انسان دیکھے ہیں جو کسی بہت قریبی تعلق میں بندھے ہوں، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے بیٹھے ہوں۔ سر سے سر جڑے ہوں۔ ایک ساتھ لیٹے ہوں لیکن صدیوں کے فاصلے پر ہوں۔ بے توجہی کا شکار ہوں۔ چپ کی بکل مارے ترستے ہوں؟

کیا آپ نے کبھی وہ تکلیف سہی ہے جب آپ اپنا وقت، توجہ کسی دوسرے سے بات کرنے کے لئے دان کریں۔ لیکن اگلا بندہ آپ کی طرف آنکھ بھر کے بھی نہ دیکھے۔ آپ کو سنے جانے کا احساس نہ ہو؟

کیا آپ نے کبھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو ایک کمرے، ایک گاڑی، ایک صوفے، ایک بنچ پر بیٹھے ہوں۔ خون یا انسانیت کے رشتے میں جڑے ہوں لیکن ایک دوسرے سے بیگانہ ہوں؟

اگر آپ ان کیفیات سے نہیں گزرے، تو آئیں آپ کو ان کی کچھ جھلکیاں دکھائیں:

یہ ایک ماں اور بیٹے کی آپ بیتی ہے۔ ماں پچاس سے اوپر کی ہے۔ سارا دن گھریلو ذمہ داریوں کو نمٹاتے نمٹاتے جب رات کو بستر پر لیٹتی ہے تو پیر اور ٹانگیں درد سے دہائیاں دیتے ہیں۔ اور اس کا چھوٹا بیٹا اگر گھر پر ہو تو بلا مبالغہ اسے ایک گھنٹہ دباتا ہے۔ لیکن اب کچھ عرصے سے جب وہ یہ خدمت کر رہا ہوتا ہے تو مسلسل ایسی آوازیں کانوں میں پڑتی ہیں۔
صحیح طرح سے وزن ڈالو۔
پوری توجہ ہاتھوں میں لگ ہی نہیں رہی۔
پیچھے ہٹ جاو، نہ دباو۔ بے ترتیب سے ہاتھ چل رہے ہیں۔
آرام سے زیادہ الجھن ہو رہی ہے۔
دھیان کدھر ہے؟
اور بیٹے کی طرف دیکھو تو ایک ہاتھ الٹا سیدھا ماں کی ٹانگیں دبا رہا ہے۔ اور دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے۔ اور بصارت اور سماعت بھی ادھر ہی مصروف ہیں۔ جس پر واٹس ایپ پر آنے والی ویڈیوز، یوٹیوب،  یا فیس بک چل رہے ہوتے ہیں۔

مجھے اس سے نفرت ہے۔ میں تو اس کو تب ہی ہاتھ لگاتی ہوں جب ضرورت ہو۔ میں تو ہر وقت نئی مصروفیات کی تلاش میں ہوں۔ بلکہ ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہوں۔ شوہر ایک تو مصروف بہت رہتے ہیں۔ اور اگر گھر پر ہوں بھی تو ہر لمحے موبائل کان سے لگا ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر خبر پر نظر رکھتے ہیں۔ بس میں ہی نظر نہیں آتی۔ پاس بیٹھی ہوتی ہوں لیکن جیسے دیکھنے والا اندھا ہو۔ ہفتوں بعد بھی ملیں تو گھر میں فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے ہی داخل ہوں گے۔ کھانے کی میز پر کھانا بھلے ٹھنڈا ہو جائے۔ وہ نہ اس محنت و محبت کو محسوس کرتے ہیں جس سے میں کھانا بناتی اور لگاتی ہوں اور نہ رغبت سے کھاتے ہیں۔ ایک ہاتھ فون پر اور دوسرا کھانے کی طرف۔  اور تو اور اگر ہم کوئی بات کر رہے ہوں، اور فون کی گھنٹی بج اٹھے، تو بھلے کیسی ہی ضروری گفتگو ہو، وہ ایک لمحہ نہیں لگاتے اور فون اٹھا لیتے ہیں۔  تب بڑی بے وقعتی لگتی ہے۔ اور اب تو بچے بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور آواز سنائی دیتی ہے، باجی میں بھی بڑی پریشان ہوں۔ شوہر بہت موبائل استعمال کرنے لگے ہیں۔ ساری ساری رات مصروف رہتے ہیں۔ یہ بھی خیال نہیں رکھتے۔ کہ میں دفتر، بچوں اور گھر داری، مہمان نوازی میں کتنی جسمانی تھکن کا شکار ہوتی ہوں۔ وہ تو ہیڈ فون بھی نہیں لگاتے۔ جو دیکھتے، سنتے ہیں۔ مجھے، اور تین سالہ بیٹی کو اس کی آواز اور روشنی مسلسل تنگ کرتی ہیں۔ بہت بے آرامی ہوتی ہے۔

رات کا وقت ہے۔ ماں بچوں کو سلانے کے لئے ان کے ساتھ لیٹی ہے۔ ماں درمیان میں ہے۔ ایک طرف ڈیڑھ سالہ بیٹی ہے اور دوسری طرف پانچ سالہ بیٹا۔ بائیں ہاتھ سے بیٹی کو تھپک رہی ہے۔ ماں کے پاس ہونے کے باوجود بچی بے چین ہے۔ بار بار اس سے لپٹ رہی ہے۔ کبھی بلانے کی کوشش کرتی ہے تو ماں مزید چڑتی ہے۔ تھپکنے والے ہاتھ میں مزید تیزی آجاتی ہے۔ اور کچھ لمحوں کے بعد وہ پھر سست ہو جاتا ہے۔ بیٹے کے توتلے شکوے تو ہمیشہ ہی رہتے ہیں کہ آپ توجہ نہیں دیتیں۔ جب میں بات کرتا ہوں تو آپ میری طرف دیکھتی ہی نہیں۔ جواب نہیں دیتیں۔ مصروف رہتی ہیں۔ بیڈ ٹائم کہانی نہیں سناتیں۔ سونے سے پہلے ہم کچھ مل کے پڑھتے نہیں۔ بس ساتھ لیٹتی ہیں۔ مجھ پر تو بہن جتنا ہاتھ بھی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اس کی جانب والے دوسرے ہاتھ میں موبائل ہوتا ہے۔ جس کے چسکے ماں کی ساری توانائی اپنی طرف مبذول رکھتے ہیں۔ ماں جسمانی طور پر بچوں کے پاس لیکن ذہنی طور پر کسی اور دنیا کی باسی ہوتی ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں ایک بہت بڑا چیلنج نئی ٹیکنالوجیز کا سمجھداری سے استعمال ہے۔ لیکن حکومتی، معاشرتی اور بدرجے خاندانی حساسیت اس معاملے میں زوال کا شکار ہے۔ المیہ ہے کہ ستر سال پاکستان کو بنے ہوئے ہو گئے ہیں۔ آبادی بائیس کروڑ سے اوپر ہو گئی ہے۔ لٹریسی ریٹ تقریبا تریسٹھ فیصد ہے۔ جس کا مطلب تریسٹھ ملین آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔ جبکہ موبائل کنکشنز کی تعداد ایک سو تراسی ملین ہیں۔ مطلب سستے، غیر ضابطہ، بے قاعدہ ہتھیاروں کی عوام کو بے دریغ فراہمی ہے۔ انٹرنیٹ کے پیکجز کوڑیوں کے داموں بکتے ہیں۔ جس کی جتنی گنجائش ہے وہ خریدے۔ دس، بیس روپے فی دن سے سینکڑوں روپوں تک میں۔

تعلیم کی کمی، تربیت کا فقدان، گھٹن زدہ ماحول، بنیادی ضروریات کے نہ ہونے کی مایوسی، تفریحی مواقع کا غائب ہونا، ترجیحات کی غلط ترتیب، مقاصد سے لاعلمی وغیرہ وغیرہ جیسی ان گنت وجوہات ہیں جو ٹیکنالوجی کے طوفان کو ہضم نہیں کرنے دیتیں۔ زیادہ، بے جا، بلا ضرورت اور بلا مقصد استعمال بد ہضمی میں مبتلا کر رہا ہے۔ جذباتی ہیجان کا باعث بن رہا ہے۔ اور یہ گھر گھر کی کہانی ہے۔ جس میں بسنے والوں کا رابطہ آپس میں بھی انھی رکاوٹوں کے باعث کمزور ہو رہا ہے۔ بلکہ ایک ہی کمرے میں بیٹھے، ایک ہی کنبے کے افراد واٹس ایپ گروپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔

کب، کہاں، کتنا اور کیوں ہمیں اس ایجاد کو استعمال کرنا ہے، آٹے میں نمک برابر تعداد اس سے آگاہ ہے۔ جن کو سننے کے خواہاں ناپید ہو رہے ہیں۔ جنہیں یہ سمجھانے والا کوئی نہیں کہ پی-ٹی-سی-ایل سے نوکیا، اس سے ٹچ اسکرین، پھر سمارٹ فونز کا تکنیکی ارتقا بھلے ہوتا رہے گا۔ ایک سے بڑھ کے دوسری چیز بنتی رہے گی۔ بدلتی رہے گی۔ لیکن جو نہیں بدلنا، وہ انسان کا انسان سے تعلق ہے۔ رشتہ ہے۔ اسے بچائیے۔ آدھی ادھوری محبت ہو، یا بٹی ہوئی توجہ، لمس اور خیال کے سارے گرم فلسفوں کو ٹھنڈا کر دیتی ہیں۔ سبھی تعلقات میں زہر بھرتی جاتی ہیں۔ جس کا کہیں تریاق بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments