قاضی عابد صاحب کی یاد میں


 

قاضی صاحب سے میرا پہلا تعارف ایم اے کی کلاس میں ہوا۔ وہ ان دنوں صدر شعبہ تھے اور ہر دم متحرک رہا کرتے تھے۔ انھوں نے ہمیں تیسرے میقات میں جدید اردو شاعری پڑھائی تھی۔ مجھے ابھی تک یاد ہے، ایک دن وہ کلاس میں آئے اور میرے سامنے منیر نیازی کا کوئی شعر پڑھا۔ اور مجھ سے پوچھنے لگے، ملک صاحب! ذرا بتائیں گے یہ کس کا شعر ہے اور اپنے اندر کیا تعلیم رکھتا ہے۔ تعلیم کجا شاعر کا نام بھی نہیں بتا سکا۔ اور حیرانی سے دوبارہ مجھ سے کہنے لگے۔

بھائی واقعی تمھیں نہیں پتا یہ کس کا شعر ہے۔ میں نے نہایت فروتنی سے جواب دیا، ”سر مینوں نہیں پتا“ پھر کہنے لگے منیر نیازی کا نام تو سنا ہو گا؟ ، سر! نام سے تو لگتا ہے کوئی شاعر ہیں، پر کبھی ان کو پڑھا نہیں۔ (میں نے جواب دیا ) میرا یہ جواب دینا تھا کہ شدید غصہ ہو گئے۔ اور مجھے نالائق کہنے لگے۔ ”بھائی کمال ہے! میں نے جب گزشتہ میقات کے نتائج دیکھے تو بھائی صاحب کا نام بہ حیثیت امتیازی نمبرز کے، میرے سامنے مترشح ہوا۔

میں نے سوچا کوئی ارسطو یا افلاطون صفت طالب علم ہمارے شعبے کا حصہ ہے، کیوں نہ درس و تدریس کا فرض نہایت محتاط طریقے سے ادا کیا جائے اور براہ راست فیض حاصل کیا جائے۔ مگر یہاں تو۔ خیر، بچے میری بات سنو! آپ دل میں کوئی زعم نہ پالیں، آپ ان نمبروں کے اہل نہیں ہیں۔ مجھے ان کی یہ باتیں نہایت بری لگیں اور زیر لب میں کچھ پنجابی میں بڑبڑیا بھی۔ انھوں نے آگے بڑھ کر پوچھنا بھی چاہا۔ ملک صاحب نے کچھ فرمایا، مجھے آواز نہیں آئی۔ میں نے نہایت بے دلی سے جواب دیا، کچھ نہیں سر، میری اتنی جرات! تھوڑا سا مسکرائے

پھر کہنے لگے یار تمھیں ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ میری یہاں کرسی نہیں ہے۔ اگر تم میری جان کی امان کی تصدیق کرو تو ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر سنانا چاہوں گا۔ ”آپ محفوظ ہیں قاضی صاحب، آپ کو کوئی کچھ بھی کیسے کہہ سکتا ہے۔ کرنی تو آپ نے میری بے عزتی ہے تو یہاں بیٹھیے اور آسانی سے کیجیے۔“ زور سے قہقہہ لگایا اور ساتھ والی کرسی بر بیٹھ گئے۔ بھائی ایسا ہے، ایک دفعہ منیر نیازی صاحب اور دوسرے کچھ شعرا کسی مشاعرے میں جا رہے تھے۔

اور ان سب کو گاڑیوں پر لے جایا جا رہا تھا۔ ہر شاعر کے لئے الگ سے ایک گاڑی تھی۔ اور طلبہ حضرات ان سب سے آٹو گراف لے رہے تھے۔ تو ایک نہایت نحیف سی کمزور سی لڑکی منیر نیازی صاحب کے پاس آئی۔ بھاگ کر آئی تھی ہانپ کانپ بھی رہی تھی تو آتے ہی بولی، ”سر آپ بھی شاعر ہیں“ ، منیر نیازی صاحب سگریٹ پیا کرتے تھے تو ایک کش لگایا اور نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ ”نہیں! میں قتیل شفائی ہوں۔“ اس پر پوری کلاس ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئی مگر میں چونکہ قاضی صاحب کے پہلو میں ہی بیٹھا تھا تو ہنسنے کے اس عمل میں بھی محتاط رہا۔ تو پھر اچانک میری طرف دیکھا اور بولے ارے ارے آپ نہیں ہنسے، اوہ! کیسے لطیفے سے لطف اندوز ہوتے، آپ کو تو یہ بھی نہیں پتا ہو گا کہ بھائی یہ قتیل شفائی بھی ایک اعلیٰ پائے کے شاعر تھے۔ ! کلاس میں ایک اور زور دار قہقہہ پڑا۔

قاضی صاحب روزانہ کلاس میں آتے اور مذاق کا موضوع مجھے ہی بناتے۔ پہلے پہل تو برا لگتا تھا اور ہمدردی کرنے والے دوستوں کے سامنے کبھی کبھی گالیاں بھی بک دیتا اور ان کو بذات خود دانشور کہتا۔ یہ سلسلہ طویل چلا۔ میں ان کی کلاس کے لئے خود کو تیار کرتا اور نت نئے سوالات ترتیب دے کر اپنی نیک نامی کو بحال کرنے کی پوری کوشش کرتا۔ عموماً میں جس سوال کو نہایت پیچیدہ اور مشکل گردانتا قاضی صاحب اس کا جواب پہلے ہاں ناں میں دے کر تھوڑا بہت اس پر بات کرتے اور سوال کو غیر اہم قرار دے کر ٹال ہی دیتے۔

مجھے ان کے اس رویے پر بہت غصہ آتا۔ ایک دن میں نے جان بوجھ کر کلاس نہیں لی تو قاضی صاحب نے آتے ہی پوچھا، ملک صاحب نظر نہیں آ رہے۔ دوستوں نے بتایا پہلے پیریڈز میں تو موجود تھا، اب کے خدا جانے کہاں گیا۔ کلاس کے اختتام پر میں جیسے ہی کلاس میں آیا تو ایک دوست نے بتایا، قاضی صاحب پو چھ رہے تھے۔ اور آفس میں ملنے کو کہا۔ میں دفتر پہنچا تو پہلا سوال یہی تھا، کلاس میں کیوں نہیں تھے، اس دفعہ ان کا انداز تحکمانہ تھا۔

سر، تنگ آ گیا ہوں آپ کی روزانہ کی اس تذلیل سے اور تھک گیا ہوں، سچ تو یہ ہے صرف میں ہی آپ کے کسی معیار پر پورا نہیں اتر سکتا، مجھے بخش دیں۔ میری یہ بات سنی تو ہنسنے لگے اور اشارہ کیا کہ بیٹھو۔ اور اپنی ڈائری کو میری طرف بڑھا دیا۔ دیکھو، تمھارا ایک ایک سوال یہاں درج ہے۔ میں نے دیکھا واقعی درج تھے، اور ہر سوال کے آگے چھوٹا سا شاہد عزیز لکھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا یہ سب کیا ہے سر! بھائی دیکھو تمھارے سوالات تھوڑے کمزور تھے، ہر دن ان میں قوت آ رہی تھی۔

مگر تم کم کوش اور کم ہمت نکلے، پہلے ہی ہار مان گئے۔ میں نے سوچا جن کتابوں کو یہ پڑھ رہا ہے کچھ نہ کچھ دن تک کچھ نتائج نکال لے گا اور شاید مجھ سے تصدیق کرے۔ مگر تم تو بھاگ نکلے۔ مرے قاضی صاحب کیا گلے پڑے گیا، ہاں؟ نہیں سر ایسا نہیں۔ ایسا ہی ہے، میاں ایسا ہی ہے۔ خیر آج میں نے تمھارے سب سوالات کے جواب دینے تھے مگر تم نے موقع ضائع کر دیا۔ اب ایک ہی حل ہے۔ وہ کیا سر؟ تم یہ تین کتابیں لے جاؤ۔ تمھیں جوابات بھی مل جائیں گے اور شرط یہ ہے کہ وہ جوابات مجھے بھی بتاؤ گے۔

اور ایک چھوٹی سی بیس صفحات کی اسائنمنٹ بناؤ گے اور بتاؤ گے کہ ان کتابوں میں آخر کیا تھا۔ ( یہ تینوں کتابیں سبط حسن کی تھیں ) میں واپس گیا اور ایک ہی ہفتے میں دن رات کر کے پڑھ ڈالیں اور آسائنمنٹ جمع کروائی۔ اور پر امید تھا کہ اب سب ٹھیک ہے۔ واقعی سب ٹھیک ہو گیا تھا مگر کتابوں کا سلسلہ رکا نہیں۔ میرے ہر سوال پہ کوئی نہ کوئی کتاب مل جاتی اور ڈگری کے اختتام تک میں کوئی پچاس سے زائد قاضی صاحب کی دی گئی کتابیں پڑھ چکا تھا اور بارہ کتابیں اب بھی میرے پاس موجود ہیں۔جو میں  نے قاضی صاحب کو واپس بھی کرنی ہیں اور ان پر تبصرہ لکھ کر بھی دینا ہے۔ مگر اب میرے پاس قاضی صاحب نہیں ہیں۔

میں اب بھی سوال کرتا ہوں۔ میں اب بھی کتابیں پڑھتا ہوں۔ میں اب بھی کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے اب بھی لوگ نا اہل ہی سمجھتے ہیں۔ مگر میرے پاس اب وہ استاد نہیں جو مجھے نا اہل تو کہتا تھا مگر مجھے اہل بھی بناتا تھا۔ جو کسی کو کتابیں نہیں دیتا تھا مگر مجھے ہفتے کی دو کتابیں دے دیتا۔ مجھے ادب پڑھنے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ نصابی ضرورتوں کے تحت نوٹس رٹ لیتا اور لکھ دیتا، اول پوزیشن لے کر سب کو حیران کر دیتا۔ میں اب اول تو نہیں آتا مگر خود اعتماد اتنا ہوں کہ مطمئن ہوں، اب مجھے ادب پڑھنا آتا ہے۔ مجھے کتابوں سے عشق ہے۔ قاضی صاحب کی دی ہوئیں کتابیں میرے لئے ان کی یادگار تو ہیں ہی مگر کسی بڑے ایوارڈز سے کم نہیں۔

آخری دنوں میں کافی پریشان رہنے لگے تھے۔ میرے بہت اصرار پر بھی وہ ہماری کلاس میں نہ آئے تھے۔ میں نے پاؤں پکڑ کر کہا استاد جی صرف ایک مضمون تو پڑھا دیں۔ بولے، ”بچے میری بات سنو! آپ آکسفورڈ کے استادوں سے پڑھتے ہو، مجھ سے کیا پڑھنا، جو پڑھنا تھا پڑھ لیا، اب میں کیا ہیر سناؤں گا تم لوگوں کو۔“ مجھ سے شکایت کی کہ میرا یہاں تو کوئی دفتر نہیں، کبھی سرائیکی شعبہ بھی نہیں آئے تم۔ کبھی وہاں آؤ باتیں کریں گے۔ تم ایک اچھے طالب علم ہو تمھارے ہر عمل میں سچائی ہے۔ آپ کے شعبہ میں آتا ہوں، مجھ سے احترام سے بات کرلیتے ہو، کیا یہ میرے لئے بہت کچھ نہیں؟

روزانہ آتے تھے، اور چلے جاتے تھے۔ ان کی ناقدری میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا۔ کبھی کبھی اداکاری کرتا اور گلے سے لپٹ جاتا، چھوڑنے کا نام نہ لیتا، تو کبھی فلمی ہیرو کی طرح پھول دیتا، کبھی کہتا استاد جی میری ہیروئن کا تو انتظام کر دیں، بڑی اداس ہے زندگی کوئی تو ساتھی چاہیے۔

ہنستے مسکراتے رہتے اور خدا جانے کیا کیا نام دیتے۔ اور آنکھیں صاف کر کے ہاتھ ہلا ہلا کر کہتے تو نہیں سدھر پائے گا۔ اور ایک دن جب میں نے انھیں چودہ فروری کو پھول دیا تو کہنے لگے یہ اداکاری کسی لڑکی کو دکھاؤ، ضرور مان جائے گی، بچے، مجھ سے تمھیں کیا ملے گا۔ او ر کافی دیر تک ہنستے مسکراتے رہے اور آخر میں مجھ سے کہا، تمھارے خلوص اور تمھاری محبت کا مجھے علم ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ جس عتاب کے زیر اثر میں معتوب ہوں، کہیں تم بھی نہ ہو جاؤ، جاؤ میرے بچے، اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔ او ر اچھے بنو۔ اور چلے گئے۔

مجھے معلوم نہیں تھا۔ ایک بڑا عالم رخصت ہو رہا تھا۔ روز بروز قدر کھوتی ہوئی کتابوں کا قدر دان، علم کا متلاشی اور علم بانٹنے والا۔ مہد سے لحد تک حصول علم والی کہاوت کی چلتی پھرتی تصویر۔ وہ جس کے بے شمار شاگردوں میں ہر ایک کو یہی فخر کہ استاد سب سے زیادہ توجہ اسے ہی دیتے تھے۔

یہ لباس زیست اتار پھینکنے کے دن تو نہ تھے قاضی صاحب۔ اچھا، جو اس کی مشیت کو منظور۔ پروفیسر ڈاکٹر قاضی عابد جیسا عالم نہیں رہا تو بالشتیے کیا ہمیشگی لکھوا کر آئے ہیں؟ سب کو جانا ہے ایک دن۔ جامعہ کی داخلی سیاست نے قاضی صاحب جیسے استاد کو ہم سے چھین لیا۔ سوچیں تنگ کرتی ہیں تو شعبے میں چلا جاتا ہوں اور ان کے کمرے کے سامنے جا کر کھڑا ہو جاتا ہوں کہ شاید ابھی وہاں سے نکلیں گے اور اپنا پسندیدہ باقی صدیقی کا شعر سناتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کمرے میں لے جائیں گے۔

تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments