حریم شاہ اور ہمارے سیاستدان و مفتیان



عزیزانِ من ایک اور ویڈیو لیک ہو چکی ہے اور سوشل میڈیا چسکے دار پوسٹس اور کمنٹس سے لبالب بھر چکا ہے۔ کوئی کھلم کھلا حریم شاہ کے کارنامے گنوا رہا ہے تو کوئی دبے لفظوں میں جملے چست کر رہا ہے۔ کسی کو ویڈیو چاہیے تو کوئی حریم شاہ کو گالیاں دیتے ہوئے اپنا دامن پاک کر رہا ہے۔

پاکستان جیسے اسلامی جمہوری ملک میں غیراخلاقی ویڈیوز کا بنایا جانا اور لیک ہونا بالکل غریب کی عزت کی طرح معمولی ہے۔ بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹس، مذہبی رہنماوٴں اور اداکاروں نے ویڈیو لیکس کے دشت میں بھرپور سیاحی فرمائی ہوئی ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں بڑے بڑے نام بدنام ہوئے، بڑی بڑی دستاریں داغ دار ہوئیں اور بڑے بڑے بُت منہ کے بل گرے۔ ایٹمی اسلامی ملک میں کسی کو زیر کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار غیر اخلاقی ویڈیوز ہی ہیں۔

مجھے آج بھی ویڈیوز کے متعلق بات نہیں کرنی بلکہ میرا موضوع گفتگو دو رُخا عوامی رویہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل لگاتار سیاستدانوں کی ویڈیوز لیک ہو رہی تھیں۔ ہر بندہ اپنی پسندیدہ پارٹی کے لیڈر کی ویڈیوز لیک ہونے کے بعد سراپا احتجاج نظر آیا۔ تحریک انصاف کے کسی لیڈر کی ویڈیوز لیک ہوئیں تو تحریک انصاف کے کارکن اخلاقیات اور مذہبیات کا لیکچر سنانے لگے، نون لیگ کے کسی قائد کی ویڈیو لیک ہوئی تو نون لیگ کے ورکرز وعظ شریف فرمانے لگے۔

کسی مخصوص فرقے کے مولوی صاحب کی ویڈیو لیک ہوئی تو متعلقہ فرقے کے لوگ مجاہد بن گئے اور اپنے ایمان پہ کھیل کے اپنے فرقے کے مولوی صاحب کا دفاع کرنے لگے۔ کسی خاص مکتب کی ویڈیو وائرل ہوئی تو سوشل میڈیا پہ تاویلات پیش کی جانے لگیں۔ طلبا کے جنسی استحصال کو ظاہر کرتی ویڈیوز پہ مجرموں کے حق میں افلاطونی دلائل پیش کیے جانے لگے۔

بہت اچھی بات ہے۔ اخلاقیات پہ گفتگو کرنے کا حق ہر کسی کے پاس ہے اور اپنی پسندیدہ شخصیات کے دفاع کا حق بھی سب کو حاصل ہے۔ لیکن درسِ اخلاق فقط اپنے پسندیدہ لوگوں کے لیے ہی کیوں؟ صرف اپنے مطلب کے لوگوں کی عزت اور پرائیویسی کا خیال ہی کیوں؟

پچھلے ماہ چند اداکاراوٴں کے متعلق نازیبا ویڈیوز لیک ہونے کا انکشاف ہوا، چاہے وہ خبر درست تھی یا غلط لیکن ہم سب نے سیاسی وابستگی اور مذہبی وابستگی کو سائیڈ پہ رکھ کے تفرقے بازی اور سیاسی رجحانات کی تفریق کے بغیر بھرپور طریقے سے تصاویر وائرل کیں، میمز بنائے، جملے کسے، واہیات تحریریں لکھیں۔

اور اب اک مشہور زمانہ ٹک ٹاکر کی ویڈیو ہمارے ہتھے چڑھ گئی۔ اب کوئی انصافی رہا ہے نہ ہی نون لیگی اور جیالا، اب کوئی دیوبندی، شیعہ سُنی بریلوی رہا ہے نہ ہی سندھی بلوچی پٹھان۔ بلکہ سب باجماعت ایک ہی معیار پہ آ کے اندر کی دبی ہوئی خباثت کو سوشل میڈیا فورمز پہ انڈیلنے میں مشغول ہیں۔

اخلاقیات بھی دو قسمی ہیں؟ ایک اخلاقیات آپ کے پسندیدہ قائدین کے لیے اک دوسروں کے لیے؟

اک قسم کی اخلاقیات کی رو سے ایسی ویڈیوز بنانا اور پھیلانا گھٹیا پن ہے اور دوسری اخلاقیات میں ویڈیوز لنک مانگنا عین واجب ہے؟

کیا فقط اس لیے کہ ان عورتوں کا تعلق میڈیا سے ہے تو ان کی ویڈیوز کو پھیلانا اور ان کے متعلق گھٹیا گفتگو کرنا جائز ہے؟ ان کے مقابلے میں جنہیں آپ حاجی قدرت اللہ سمجھ کے ان کا دفاع کرتے ہیں وہ بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ یہاں سب اپنے اپنے انداز کے اور اپنے اپنے معیار کے گھٹیا ہیں سو ان کے دفاع یا مخالفت کا پیمانہ بھی ایک ہونا چاہیے اور اخلاقیات تو ہیں ہی ایک قسم کے، جو معاشرے کے ہر ہر فرد کے لیے واجب ہوں گی۔

حیرت کی بات ہے نا کہ مفتی قوی کی ٹوپی اترے تو گویا علماء کی توہین ہو رہی ہوتی ہے البتہ قندیل بلوچ کی جان چلی جائے تو ہمارے میمز کا سامان؟ سیاسی قائدین کے ویڈیوز آئیں تو ہم کہتے ہیں کہ انسان کا پردہ رکھنا واجب ہے، برائی کو زیادہ پھیلانا نہیں چاہیے اور دوسری طرف چند اداکاراوٴں پہ دن رات لگاتار واہیات فحش جملے بازی؟

اپنی پسندیدہ شخصیات کے دفاع کے لیے جماعتوں اور فرقوں میں بٹ کے جہاد کرنے والے دوسروں کے معاملے میں محمود و ایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ یعنی مفتی قوی اور شیخ رشید کی عزت اور امیج کا دفاع کرنا ہے اور ان سب کا مُنہ کالا کرنے والی حریم شاہ کو ننگا کرتے کرتے خود بھی ننگا ہونا ہے؟
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments