اٹلی کشتی حادثہ: ’شاہدہ رضا نے اپنے معذور بیٹے کے علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کی‘


’جسمانی طور پر معذور بیٹا شاہدہ رضا کی سب بڑی مجبوری تھی۔ یہ ان کا ارمان تھا کہ ان کا بیٹا اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے اور دوسرے بچوں کی طرح کھیلے کودے‘۔

یہ کہنا تھا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی سعدیہ رضا کا جن کی بہن اور فٹ بال اور ہاکی کی معروف کھلاڑی شاہدہ رضا چند روز قبل اٹلی میں کشتی کے حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سعدیہ رضا نے کہا کہ شاہدہ انتہائی خوش مزاج تھیں، وہ سب کو ہنساتی تھیں لیکن اپنے معذور بیٹے کے لیے روتی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ بس اس کا علاج ہوجائے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی بہن اب دنیا میں نہیں رہی۔ ’اب ہماری سب سے درخواست ہے کہ ان کی لاش کو واپس لانے میں ہماری مدد کی جائے۔‘

شاہدہ رضا کے ساتھ کھیلنے والی بلوچستان کے فٹ بال کی کھلاڑی اقصیٰ نے کہا کہ ’آپ نے دنیا میں بہت کم کھلاڑی دیکھے ہوں گے جو کہ بیک وقت دو کھیلوں میں نام پیدا کرنے والے ہوں۔ لیکن شاہدہ نے یہ کرکے دکھایا۔‘

شاہدہ رضا

شاہدہ رضا کون تھی؟

اٹلی میں کشتی کے حادثے میں زندگی کی بازی ہارنے والی شاہدہ رضا کا تعلق کوئٹہ کے علاقے مری آباد سے تھا اور وہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی تھیں۔

ان کی دوست اور قریبی رشتہ دار سمعیہ مشتاق کہتی ہیں کہ ان کا ایک تین سالہ بیٹا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ معذور ہے اور وہ حادثے کے وقت ان کے ساتھ نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے 2003 سے سپورٹس میں حصہ لینا شروع کیا اور سپورٹس سے جنون کی حد تک محبت کے باعث انھوں نے اسے اپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنا دیا۔

اقصیٰ نے بتایا کہ وہ اور شاہدہ دونوں پاکستان آرمی کی جانب سے فٹ بال کھیلتی تھیں۔ ان کا شمار بلوچستان کے فٹ بال کے سب سے سینیئر کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔

بلوچستان ہاکی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری سید امین نے بتایا کہ شاہدہ رضا نے سکول کے زمانے سے ہاکی کھیلنا شروع کیا۔ جب وہ کالج میں تھیں تو انھوں نے بلوچستان سے ہاکی ٹیم کی نمائندگی کی۔

سید امین بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ محنت کرنے والی کھلاڑی تھی اس لیے انھوں نے فٹ بال کے میدان میں بھی نام پیدا کردیا۔

انھوں نے ہاکی اور فٹ بال دونوں میدانوں میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بلوچستان کی نمائندگی کی۔

شاہدہ کے ساتھ کھیلنے والی ایک اور کھلاڑی صغریٰ رجب نے بتایا کہ شاہدہ آفیشلی طور پر ہزارہ یونائیٹڈ فٹ بال اکیڈمی کی کھلاڑی تھیں لیکن ملکی سطح پر وہ فٹ بال پاکستان آرمی کے لیے کھیلتی تھیں۔

سمیعہ مشتاق کا کہنا تھا کہ ’شاہدہ ان لوگوں میں سے تھیں جن کو حقیقی معنوں میں سیلف میڈ انسان کہا جا سکتا ہے۔‘

’شاہدہ اکثر یہ کہا کرتی تھیں کہ میں جو بھی کروں گی تو اپنے بل بوتے پر کروں گی اور انھوں نے کرکے دکھایا، انھوں نے نہ صرف اپنا نام روشن کیا بلکہ بلوچستان اور ملک کا نام بھی روشن کیا‘۔

انھوں نے بتایا کہ شاہدہ نے ایران، بھارت، بھوٹان، بنگلہ دیش سمیت بعض دیگر ممالک میں بلوچستان اور ملک کی نمائندگی کی ۔

انھوں نے کہا کہ شاہدہ خاندان کی باہمت فرد تھی اور ان سے ہمیں بہت توقعات وابستہ تھیں لیکن ان کی ناگہانی موت نے پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیا۔

شاہدہ رضا

’معذور بچے کے لیے اپنی زندگی کی بازی ہار گئی‘

بہن کے بارے بات چیت کے دوران سعدیہ رضا کئی مرتبہ آبدیدہ ہوئیں۔

انھوں نے بتایا کہ شاہدہ رضا کا تین سالہ بیٹا ہے انھیں پیروں پر کھڑا دیکھنا بس ان کا سب سے بڑا مقصد اور مشن تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب بچہ چالیس دن کا تھا تو اسے بخارہوا اور بخار کے دوران ایک جھٹکے کے ساتھ وہ بے ہوش ہوگیا۔ وہ بچے کو کراچی علاج کے لیے لے گئیں۔ علاج کے باعث بچہ ہوش میں تو آگیا لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی معذوری کا علاج پاکستان میں نہیں ہوسکتا لیکن اسے بیرون ملک لے جایا جائے تو ان کا علاج ممکن ہے۔‘

سمعیہ مشتاق نے بتایا کہ ’ڈاکٹروں کے مطابق بچے کا دماغ پچاس فیصد تک کمزور ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے لیے چلنا پھرنا مشکل ہے۔ ایک کھلاڑی ہونے کے ناطے شاہدہ رضا چاہتی تھی کہ ان کا بچہ کھیلے کودے لیکن مفلوج ہونے کے باعث بچے کے لیے چلنا مشکل تھا جس کے باعث وہ کُڑھتی تھیں اور ان کی ساری کوشش اور خواہش یہی تھی کہ ان کا بچہ کسی طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے۔‘

سمیعہ کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے اپنے بچے کے علاج کے لیے کسی سے مدد نہیں مانگی بلکہ کھلاڑی ہونے کے ناطے ان کی جو ملازمت تھی وہ وہاں سے ملنے والا پیسہ اپنے بچے کے علا ج پر خرچ کرتی رہی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ امر افسوسناک ہے کہ 2022ء میں ان کی ملازمت ختم ہوگئی تو بچے کے حوالے سے ان کی پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا اور اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔‘

وہ کہا کرتی تھیں کہ ’میں چاہتی ہوں کہ میرا بچہ ایک جگہ پر نہیں پڑا رہے بلکہ وہ دوسرے بچوں کی طرح خوش ہو اور کھیلے کودے۔‘

سمعیہ مشتاق کے مطابق بچے کے علاج کے لیے کہیں سے سہارا نظر نہ آنے کے باعث انھوں نے بیرون ملک جانے کی کوشش کی لیکن وہ اس کوشش میں زندگی کی بازی ہار گئیں۔

ان کی بہن سعدیہ رضا نے کہا کہ شاہدہ کے بعد ہم تین بہنیں ہیں اور ہمارا ایک بھائی ہے جس کی عمر 13سال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہدہ ان سے چار سال بڑی تھیں اور ’وہ ہماری بہن نہیں بلکہ دوست تھیں اور ایک باہمت انسان ہونے کے ناطے وہ ہمیشہ ہمیں خوش رکھنے کے لیے ہنساتی تھیں۔‘

’لیکن خود اپنے بچے کے لیے غمگین رہتی تھیں۔ ان کے بیرون ملک جانے کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں تھا کہ وہ وہاں جاکر کچھ پیسے کمائیں اور کسی طرح اپنے بچے کو وہاں بلاکر اس کا علاج کروا سکیں۔‘

شاہدہ رضا

’شاہدہ کی موت قیامت سے کم نہیں‘

سعدیہ رضا نے بتایا کہ ترکی وہ قانونی طور پر گئی تھی اور ہماری وہاں ان کے ساتھ بات بھی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ بالکل اکیلی تھیں اور وہ ترکی سے آگے کِن لوگوں کے ساتھ گئیں ان کے بارے میں ہمیں کوئی پتہ نہیں ہے تاہم کشتی میں سفر کے دوران ان کی کال آئی تھی۔‘

’سفر کے چوتھے روز وہ بہت خوش تھیں اور یہ کہہ رہی تھیں کہ بس وہ تھوڑی دیر میں پہنچنے والی ہیں۔ وہ اس پر بار بار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہی تھیں اور اس کال کے بعد ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہدہ کی موت کی خبر انھیں انٹرنیٹ کے ذریعے ملی اور ان کے بقول ’یہ ایک ایسی خبر تھی کہ جو ہمارے لیے قیامت سے کم نہیں تھی۔‘

’چنٹو تو بلوچستان کی فخر تھی ‘

اقصی اورصغریٰ رجب کا شمار بلوچستان کی ان خواتین فٹبالرز میں ہوتا جو کہ شاہدہ رضا کے ساتھ کئی سال تک ساتھ فٹ بال کھیلتی رہی ہیں۔

کوئٹہ میں نہ ہونے کے باعث میں نے ان سے لاہور میں فون پر رابطہ کیا تو وہ شاہدہ کی ناگہانی موت پر اداس تھیں اور ان کا کہنا تھا کہ شاہدہ کی، جنھیں پیار سے چنٹو کہا جاتا تھا، ناگہانی موت نے سب کھلاڑیوں اور دوستوں کو سوگوار کرکے رکھ دیا ہے۔

ایک سوال پر اقصیٰ کا کہنا تھا کہ ’آپ کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں سپورٹس کے لیے خواتین کا گھروں سے نکلنا کتنا مشکل ہے۔‘

’جب شاہدہ نے کھیلوں کے میدان میں قدم رکھا تو شروع کے دنوں میں انھوں نے اپنا حلیہ لڑکوں جیسا بنایا تھا جس کی وجہ سے دوستوں اور ساتھی کھلاڑیوں نے ان کو چنٹو کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ لیکن شاہدہ جب کامیابی کے منازل طے کرنے لگیں تو پھر انھوں نے واپس لڑکیوں والا حلیہ اپنا لیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اتنی محنت کرتی تھیں کہ بیک وقت ہاکی اور فٹ بال دونوں کی بہترین کھلاڑی تھیں۔ شاید دنیا میں اس طرح کی مثالیں کم ملیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’وہ ہمیشہ پیار اور حوصلہ افزائی کرنے والی کھلاڑی تھی اور اکثر یہ کہا کرتی تھی جو محنت کرے تو کوئی بھی اس کا راستہ نہیں روک سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ 2022 میں ملک کی ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے کوئٹہ میں جو تقریبات منعقد ہوئی تھیں تو ’شاہدہ کے ساتھ ہم نے فٹبال کھیلی تھی اور ان کی زندگی میں یہ ہمارا آخری کھیل تھا۔‘

اقصیٰ نے کہا کہ ’چنٹو نے جس طرح ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بلوچستان کا نام روشن کیا اس لحاظ سے تو وہ فخر بلوچستان تھی۔‘

صغریٰ رجب نے بتایا کہ شاہدہ سے وہ اتنی قریب تھیں کہ وہ ان کی ساتھی کھلاڑی نہیں بلکہ ان کی باجی اور آپی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہدہ نے سپورٹس کی دنیا کا مشکل سفر مری آباد سے شروع کیا اور بہت کم وقت میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا لوہا منوایا۔

انھوں نے کہا کہ شاہدہ کہا کرتی تھیں کہ ان کے دور میں بلوچستان میں خواتین کے لیے کھیلوں کے لیے گھروں سے نکلنا بہت مشکل تھا لیکن آپ لوگ تو خوش قسمت ہیں کہ اب اتنی سختیاں نہیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments