نواز رضا اور روداد سیاست


محترم نواز رضا صاحب جن کا شمار ملک کے سینئر ترین اور اہم ترین صحافیوں میں ہوتا ہے انہوں نے فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے ) کی بنیاد رکھی اور انہیں اس کے پہلے جنرل سیکریٹری ہونے کے علاوہ مسلسل تین بار اس کا صدر منتخب ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں وہ پنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر بھی رہے صرف یہی نہیں وہ طویل مدت بلکہ اپنے مستعفی ہونے تک روز نامہ نوائے وقت کے چیف رپورٹر بھی رہے۔ آزاد صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لئے نواز رضا کی جد و جہد مثالی اور ہماری صحافتی تاریخ کا ایک زریں باب ہے

میرا زندگی بھر کا تعلق ایک ایسے سرکاری شعبے سے رہا ہے جس کا صحافت اور صحافیوں سے چولی دامن کا ساتھ ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ تین عشروں سے زائد مدت تک وزارتِ اطلاعات و نشریات میں ملازمت کے باوجود نواز رضا صاحب شاید وہ واحد بڑے صحافی ہیں جن سے بارہا آمنا سامنا ہونے کے باوجود بالمشافہ تفصیلی ملاقات چند روز قبل ہوئی لیکن اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیونکہ اپنی صحافتی اور تنظیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بلا تخصیص تمام سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ رابطوں کے علاوہ نواز رضا انہیں ادوار میں نوائے وقت کے لئے بلا ناغہ کالم بھی لکھتے رہے۔ ایک با اصول اور نظریاتی صحافی ہونے کی وجہ سے میں نے کبھی انہیں کسی سرکاری دفتر کے چکر لگاتے اور وزارتِ اطلاعات کی غلام گردشوں میں گھومتے نہیں دیکھا۔ میں نے وزارت اور اس کے تقریباً تمام شعبوں میں کام کیا ہے مگر میں قسمیہ کہہ سکتا ہوں کہ میری ان سے کہیں بھی مڈبھیڑ نہیں ہوئی، اگر انہیں دیکھا ہے تو صرف پارلیمنٹ کی پریس گیلری میں۔ وہاں بھی انہیں اپنے کام سے کام رکھنے والے ایک ہمہ وقت مصروف صحافی کے طور پر ہی دیکھا ہے صحافی حضرات کی عمومی عادت کے برعکس انہیں بہت کم گو پایا اور اکثر خاموش دیکھا ہے بھلا ایسی اپنے مقصد سے سچی لگن اور اپنے کام سے کام رکھنے والی متحرک شخصیت سے کہاں تفصیلی ملاقاتیں ہو سکتی تھیں؟ جب کہ ان کی بھاری بھر کم شخصیت کا فطری رعب اس پر مستزاد!

نواز رضا کو ہمیشہ اپنے خیالات میں گُم، اپنے کام میں مصروف، خُوش گپیوں اور غیر ضروری بحث و تمحیص سے دور دیکھا۔ یو نہی تو ایسے اہم کالم تخلیق نہیں ہوتے؟

رودادِ سیاست نواز رضا کے روزنامہ نوائے وقت میں 2013 سے لے کر 2020 تک۔ ”مارگلہ پہاڑوں کے دامن میں“ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالموں پر مشتمل ہے۔ ان کالموں کی اگر ایک نمائندہ خوبی کا ذکر کیا جائے تو وہ ان کالموں میں بیان کردہ غیر مشروط اور مکمل سچ ہے۔ وہ آدھے ادھورے سچ کے قائل نہیں۔ وہ سچ پر کسی سمجھوتے کے بھی قائل نہیں۔ کوئی موافقت یا مخالفت، سیاسی قربت یا دوری، ذاتی پسند و ناپسند انہیں سچ بولنے سے باز نہیں رکھ سکتی اور وہ کسی ’اگر‘ ’مگر‘ کے بغیر بلا کم و کاست سچ لکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ اس دور میں جب زرد صحافت ایک صحافتی قدر کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے اور صحافی ’اس‘ یا ’اُس‘ سیاسی جماعت کے کارکُن بنتے جا رہے ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ پرست اور شاہ کے وفا دار بننے میں تفاخر محسوس کرتے ہیں، نواز رضا جیسے صحافیوں نے

بے لاگ رپورٹنگ کو اک نئی جلا بخشی ہے نمونے کے طور پر کتاب میں شامل چند کالموں کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے

عمران خان کو ابھی تک یقین نہیں ہے کہ میاں نواز شریف کیسے وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے ہیں کیونکہ انہوں نے تو ملک کا وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھا تھا لہذا جب سے اُن کی آنکھ کھُلی ہے وہ دھاندلی کا ہی واویلا کر رہے ہیں۔ خود نواز شریف بھی پاکستان کے عوام کی جانب سے ووٹ دینے پر حیران و ششدر رہے (نواز شریف حکومت کا ایک سال) جب آصف علی زرداری نے سید یوسف رضا گیلانی سے جان چھُڑانے کے لئے وزیرِ اعظم نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا اور بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض کی وساطت سے میاں شہباز شریف یا محمد اسحاق ڈار کو بقیہ ڈیڑھ سال کے لئے مشترکہ وزیرِ اعظم بنانے کی پیش کش کی جسے نواز شریف نے مسترد کر دیا۔ (راولپنڈی سے مری میں نواز شریف کی رہائش گاہ تک ملک ریاض کو سرکاری پروٹو کول ) چوہدری نثار علی خان اور نواز شریف کے درمیان ناراضگی کا باعث بن گیا (مینڈھا سائیں! تہ کیا کیتا)

آگے چل کر اسی کالم میں رقم طراز ہیں

سید یوسف رضا گیلانی شاید پاکستان کے واحد وزیرِ اعظم ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ کو سب سے زیادہ وقت دیا۔ آنے والے وزرائے اعظم کے لئے وہ ایک ایسی مثال قائم کر گئے ہیں جسے قائم رکھنا بعد میں آنے والوں کے لئے (شاید) ممکن نہ ہو

مولانا فضل الرحمن کے بارے میں اپنے کالم بعنوان ’۔ پارلیمنٹ کی مسجد کے امام کا ”حجرہ“ میں لکھتے ہیں

وہ ایک بہادر اور جرات مند سیاست دان ہیں۔ ان پر کئی بار خود کُش حملے ہو چُکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے ’دینی اور سیاسی سفر‘ کو رکنے نہ دیا وہ تمام تر خطرات کو مول لے کر پورے پاکستان میں جلسے جلوسوں سے خطاب کرتے ہیں لیکن وہ اپنے آبائی حلقہٗ انتخاب شور کوٹ، ڈیرہ اسمعیل خان کی مسجد میں جس کے وہ خُود مہتمم بھی ہیں، تراویح نہیں پڑھ سکتے

آگے چل کر اسی کالم میں لکھتے ہیں

مولانا فضل الرحمن کی عالمی صورتِ حال بالخصوص دنیا کے معاشی نقشے پر اُبھرنے والے ملک چین کے کردار پر گہری نظر ہے وہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کے استحصالی معاشی نظام سے چینی معیشت ہی ایشیائی ممالک کو نجات دلا سکتی ہے۔ ایشیائی ممالک کو اپنا الگ مالیاتی نظام بنانا ہو گا اور ڈالر پر انحصار ختم کرنا ہو اسی کالم کا یہ جملہ دیکھیے

مولانا فضل الرحمن کا شمار اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو گھاٹے کا سودا کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے سیاسی مخالف کو سر اُٹھانے کا موقع دیتے ہیں

مجھے ’رودادِ سیاست‘ کے تجزیاتی کالموں میں ان کا عمران خان اور تحریکِ انصاف کے سیاسی سفر پر لکھا گیا سیاسی تجزیاتی کالم بہت بھایا کالم کا عنوان ہے ’تحریکِ انصاف + سیاسی بھگوڑے = پیپلز پارٹی 2‘ اس کالم میں عمران خان کے سیاسی سفر میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم پاسبان کی عمران خان کی شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم میں بھرپور معاونت کیوں کہ جماعت اسلامی عمران خان کی شہرت سے فائدہ اٹھانے کے لئے انہیں پاسبان کا سربراہ بنانا چاہتی تھی مگر عمران خان نے سولو فلائٹ لینے کو ترجیح دیتے ہوئے تحریکِ انصاف بنا لی

” بیس بائیس سال سے سیاست میں ناکامیوں سے کوئی بھی ذی شعور سبق سیکھ لیتا ہے لیکن خان صاحب تو مسلسل ناکام تجربات کیے جا رہے ہیں“

آگے لکھتے ہیں ”طویل جدوجہد کے بعد خیبر پختون خواہ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن مرکز میں کُچھ ہاتھ نہ آیا، حکومت ملی اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر بن سکے۔ ایک وقت تھا میاں نواز شریف عمران خان کی مقبولیت سے اس حد تک خوف زدہ تھے کہ انہوں نے ایک سے زائد حلقوں سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے۔ انہوں نے عمران خان کو 25، 30 نشستوں کی پیش کش بھی کی لیکن عمران خان جو کہ اس وقت“ ہوا کے گھوڑے ”پر سوار تھے انہوں نے نواز شریف کی یہ پیش کش اُن کی کمزوری سمجھ کر مسترد کردی“

” 1997 کے انتخابات میں عمران خان کی پارٹی بری طرح پٹ گئی۔ پرویز مشرف کی قربت نے ان کو قومی اسمبلی تک پہنچا تو دیا مگر وہ نواز شریف کی جلاوطنی سے پیدا ہونے والا سیاسی خلا پُر نہ کر سکے۔ نادیدہ قوتوں کی مہربانی سے ملنے والی ایک نشست سے وہ ملک کے وزیرِاعظم نہیں بن سکتے تھے۔ لہذا جلد ہی ان کے جنرل پرویز مشرف سے راستے جُدا ہو گئے“

اب ذرا تحریک انصاف کی بناوٹ، ساخت اور پرداخت کے بارے میں ان کا تجزیہ دیکھئے

” 2008 کے انتخاب کے بائیکاٹ نے عمران کو سیاسی لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا۔ ابتدا میں تحریکِ انصاف میں صاف سُتھرے کردار کے لوگوں نے شمولیت اختیار کی۔ کافی عرصہ تک وہ جماعتِ اسلامی کے ’باغیوں‘ کے نرغے میں رہی تو اس کا قبلہ بھی کافی حد تک درُست رہا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا سابقہ 5 سالہ اقتدار پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بد ترین دورِ حکومت تھا، یہ عمران کی شخصیت کا کمال نہیں پیپلز پارٹی کی ’بیڈ گورنس‘ نے میدانِ سیاست میں ایسی گنجائش پیدا کی کہ میاں نواز شریف کو بھی لالے پڑ گئے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے میاں نواز شریف کا راستہ روکنے کے لئے عمران خان کے سر پر ایساؔ؂ ’دشتِ شفقت رکھا‘ رکھا کہ وہ شفقت چھوڑنے کے لئے تیار ہی نظر نہیں آتے۔ 2013 کے انتخابات میں ہی اسٹیبلشمنٹ نے تحریکِ انصاف کی ہیئتِ ترکیبی تبدیل کر دی تھی“

دیکھئے اس کا نتیجہ کیا ہوا

” تحریکِ انصاف جو پہلے ہی سیاسی بھگوڑوں اور مختلف الخیال لوگوں کی“ لمیٹیڈ ”کمپنی بن چکی تھی پنجاب میں مسلم لیگ نون کے بعد دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت بن جانے سے“ سیاسی بھگوڑوں کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ 2013 کے انتخابات سے قبل تحریکِ انصاف میں مسلم لیگ ق، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور جماعت اسلامی کے ”بھگوڑوں“ کے درمیان کچھ توازن تھا لیکن اچانک پنجاب میں پیپلز پارٹی کے بھگوڑوں نے تحریکِ انصاف پر ”ہلہ“ بول دیا ”

نواز رضا کو ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں نہ صرف متعدد صحافتی تنظیموں نے ”لائف ایچیو منٹ ایوارڈ“ سے نوازا بلکہ حکومتِ پاکستان نے 2018 میں انہیں پرائیڈ اف پرفارمنس ایوارڈ بھی عطا کیا مگر میری نظر میں ان کا سب سے بڑا اعزاز ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جانب سے عنایت کیا جانے والا گولڈ میڈل اور اُن کے نواز رضا کے لئے فرمائے گئے یہ الفاظ ہیں

” وہ ایک نظریاتی اور نظریہٗ پاکستان پر صدقِ دل سے یقین رکھنے والے اخبار نویس ہین۔ پاکستانیت ان کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ وہ صحافت میں محنت کا استعارہ ہیں۔ انہوں نے صحافت کو ہمیشہ مشن سمجھا، انڈسٹری نہ بننے دیا۔ وہ اسلام پرست اور اسلام دوست ہیں“

کیا محسنِ پاکستان کے ان الفاظ سے بڑھ کر نواز رضا صاحب کے لئے کوئی اعجاز ہو سکتا ہے؟ جب محسنِ پاکستان کا ساتھ سب اپنے پرائے چھوڑ چکے تھے، نواز رضا اُن کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے جس کا اظہار ڈاکٹر قدیر خان نے یوں کیا

”جناب محمد نواز رضا صاحب ہمارے دیرینہ ساتھی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ابتلا کے دنوں میں اور مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے، اس لئے کہ وہ ہر طرح کی صورتِ حال میں ہمارے ساتھ ہی رہے، کہیں گئے نہیں وہ آج بھی ہمارے ساتھ ہیں“

” رودادِ سیاست“ کی متعدد خوبیوں جیسے صحافتی دیانت داری، تاریخ اور سماجیات کا گہرا شعور، سچائی اور خلوص کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ اس میں اپنے ممدوحین کی خامیوں اور کوتاہیوں اور اپنے نظریاتی مخالفین کی خوبیوں اور اچھائیوں سے کہیں صرفِ نظر نہیں کیا گیا اگر آپ کو یہ جانچنا ہے تو آپ کو ساری کتاب اور بالخصوص ’مارگلہ کے پہاڑوں میں زنداں‘ ، ’آصف علی زرداری کی پسپائی‘ ، ’کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے کے خالق سردار محمد عبدالقیوم خان ’، ‘ شاباش شہباز شریف شاباش ’، ‘ ذوالفقار علی بھٹو کا ’سوہنا مُنڈا‘ ، ’چوہدری نثار اور خواجہ آصف میں‘ ناراضی ’کا پس منظر‘ اور ’سلطان محمود قاضی کے نام‘ جیسے کالم بغور پڑھنے چاہئیں۔ موخر الذکر کالم میں لکھتے ہیں

”سلطان محمود قاضی نے 1970 میں پیپلز پارٹی جائن کی تھی پھر عمر بھر اسی جماعت کا ہو کر رہ گیا۔ 35 سال بعد اسی پارٹی کے پرچم میں لپٹ کر ہزاروں من مٹی تلے ابدی نیند سو گیا“

اس کے بعد اسی کالم میں وہ یہ کہنا بھی نہیں بھُولے

” پیپلز پارٹی کبھی بھی میری پسندیدہ جماعت نہیں رہی لیکن اس کے پسندیدہ لیڈروں میں سلطان محمود قاضی کا نام نمایاں تھا۔ اس کی ایک وجہ ان کی پارٹی سے وفا داری اور دوسری دیانت داری تھی۔ کالم کا اختتام اس جُملے پر کرتے ہیں

” سلطان محمود قاضی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دورِ حا ضر کے سیاسی کارکن ان کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے آپ کو سیاست کی آلودگیوں سے بچائے رکھیں“

یہ ہوتے ہیں بے لاگ تبصرے اور غیر جانب دارانہ رپورٹنگ۔ وہ نہیں جو ہم ہر روز شام سے رات گئے تک ٹی وی چینلوں پر جھاگ اُڑاتے ٹی وی اینکروں اور ایسے ہی خود ساختہ دانش وروں کے مُنہ سے سُنتے اور اپنی نیندیں حرام کرتے ہیں

اللہ ہمیشہ نواز رضا کو یوں ہی ہمیشہ حق بات کہنے، سُننے اور برداشت کرنے کی توفیق سے مالا مال رکھے آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments