اسلام کا معاشی نظام: دولت کی تقسیم


اپنے مہربان کے نظریے کہ ”اسلام کا کوئی معاشی نظام نہیں“ کے جواب میں اگرچہ یہ سوال ہی کافی تھا کہ اگر اسلام کا کوئی معاشی نظام نہیں ہے تو ریاست مدینہ اور مختلف اوقات میں دنیا کے مختلف علاقوں میں قائم مسلم حکومتیں کس نظام سے استفادہ کرتی رہی تھیں اور کیا وجہ تھی کہ آپ کے آج کے معاشی ممدوح برصغیر کو سونے کی چڑیا کہتے تھے جبکہ یہاں ایک اسلامی حکومت قائم تھی، لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ آج کی جدید معیشت کے اہم مبادی ریاست مدینہ میں تلاش تلاش کر کے چند ایک اہم بنیادی باتیں بیان کر دی جائیں تاکہ کسی بھی محقق کے لیے ایک راہ متعین ہو سکے۔ اسی لیے میں نے جدید معیشت کے مندرجہ ذیل دو اہم اصول بیان پہلے دو کالموں میں بیان کیے۔

1. Allocation of Resources
2. Determination of Priorities

آج ایک تیسرے اہم اصول سے متعلق چند ایک بنیادی باتیں قلم بند کرتا ہوں جسے جدید دنیا Distribution of Wealthکے نام سے جانتی ہے۔ یہ بھی کوئی نئی دریافت نہیں ہے بلکہ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے وہ اس اصول کو برت رہا ہے لیکن اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے اس اصول کو زیادہ کارآمد بنایا اور جب نبی کریم نے ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو اس اصول کو نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک لاگو کیا۔ دولت کی تقسیم سے کیا مراد ہے؟ جدید معیشت میں اس تعریف یوں کی گئی ہے ؛

distribution of wealth and income, the way in which the wealth and income of a nation are divided among its population, or the way in which the wealth and income of the world are divided among nations.

اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دولت کسی ایک جگہ مرتکز ہونے کی بجائے گردش میں رہے تاکہ امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر نہ ہو بلکہ ہر کسی کو حصہ با قدرے جثہ اور محنت ملتا رہے اور یہی مقصد اسلام نے بیان کیا ہے۔ سورت الحشر میں جہاں ریاست کو حاصل ہونے والے میں آمدنی کے مصارف بیان کیے وہاں یہ الفاظ بطور خاص اہمیت کے حامل بھی ہیں اور جدید معیشت کے ماتھے کا جھومر بھی ہیں کہ ”دولت صرف امیروں کے درمیان گردش نہ کرتی رہ جائے“ ۔

آپ دولت کی تقسیم کے ضمن میں لکھی گئی تمام کتابوں کا نچوڑ نکالیں اور پھر بتائیں کہ کیا وہ اسلام کے دیے ہوئے اسی اصول کی تشریحات نہیں ہیں؟ اگر کوئی اس نظام کو ریاست میں نافذ نہ کرے تو اس میں قصور اسلام کا نہیں بلکہ ذمہ داران کا ہے۔ چونکہ نبی کریم دولت کے ارتکاز کے نقصانات اور دولت کی گردش کے فوائد سے آگاہ تھے لہذا آپ نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو دولت کی گردش یا تقسیم کار کو انفرادی، ادارہ جاتی اور ریاستی سطح تک متعارف کرایا۔

اگر انفرادی سطح کی بات کی جائے تو نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ کسی انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی دولت ان لوگوں تک پہنچنے سے روک لے جن تک اسے وہ دولت پہنچانا ضروری تھا۔ دولت کی تقسیم کے ضمن میں آپ کا یہ فرمان مبارک ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ تمھاری دولت پر سب سے پہلے تمھارا حق ہے، پھر تمھارے اہل و عیال کا، پھر رشتہ داروں کا اور اس کے بعد معاشرے کے دوسرے نادار اور مستحق لوگوں کا۔

یعنی ڈسٹریبیوشن آف ویلتھ کا عمل انسان کی اپنی ذات سے شروع ہو کر معاشرے کے تمام افراد تک پھیلا ہوا ہو۔ اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو جا بجا والدین، اولاد، رشتہ داروں، مسافروں، یتیموں، مسکینوں اور دیگر طبقات تک دولت کی فراہمی اور تقسیم کی ہدایات اور اصول و ضوابط سے متعلق تعلیمات موجود ہیں۔ بلکہ اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے دولت کی تقسیم کے عمل کو صرف انسان کی زندگی کے ساتھ ہی خاص نہیں کیا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی وراثت اور دولت کی تقسیم کا طریقہ کار بتایا۔

اگر ادارہ جاتی سطح کی بات کی جائے تو سورت النجم کی آیت نمبر انتالیس کے ضمن میں فرمایا کہ انسان کے لیے اتنا ہی ہے جتنی وہ کوشش کرے۔ یعنی کسی انسان کی مزدوری کو اس کی کوشش کے ساتھ خاص کر دیا کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق معاوضہ ادا کیا جائے۔ اس آیت کے شارۃ النص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی ریاستی ادارہ ہے تو اس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ کسی بھی فرد کو دولت تقسیم کرتے ہوئے اس کی محنت کو مدنظر رکھے اور اسی طرح ریاست کا یہ فریضہ ہے وہ مختلف نجی داروں میں بھی اس بات کو یقینی بنائے، یعنی اگر کسی فرد کو اس کی محنت کے کم یا زائد معاوضہ مل گیا تو دولت کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے اور اس سے دولت کے ارتکاز کو تقویت جبکہ دولت کے گردشی عمل کو نقصان پہنچے گا۔

بلکہ سورت الذاریات کی آیت نمبر انیس میں اس امر کو بھی واضح کیا کہ ریاست اور لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دولت کو سائل اور محروم تک پہنچائے۔ سائل وہی ہوتا ہے جو سوال کرے اور جو سوال کرے گا وہ تو سب کے نوٹس میں آ جائے گا لیکن کچھ لوگ شرم و حیا کی وجہ سے سوال نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو اسلام نے ”محروم“ کا نام دیا ہے اور کہا ہے کہ ان تک بھی دولت کی گردش کا عمل جانا چاہیے اور اگر کوئی فرد اس عمل میں کوتاہی کرتا ہے تو ریاست اسے یقینی بنائے گی جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے منکرین زکٰوۃ کو مجبور کیا اور ان سے جنگ کی تاکہ ریاست کا بنیادی اصول ”ڈسٹریبیوشن آف ویلتھ“ کسی صورت متاثر نہ ہو تاکہ معاشرے میں غربت کی وجہ کسی بھی ممکنہ جرم کے پنپنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments