ملک دشمن سے دوستی تک


نئی اسٹبلشمنٹ بشمول جنرل عاصم منیر اور جنرل ندیم انجم تاحال پروفیشنل انداز میں اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ 26 نومبر سے آج کے دن تک کوئی سیاستدان یہ الزام نہیں لگا سکا کہ اسٹبلشمنٹ سیاست میں کوئی نرم یا گرم مداخلت کر رہی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے آرمی چیف بنتے ہی پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کا کیا جہاں نے انہوں نے پہلے عمرہ کی سعادت حاصل کی پھر محمد بن سلمان سے ملاقات کی، اس کے بعد وہ یو اے ای گئے وہاں کے حکمران سے ملے۔

پھر وہ برطانیہ میں ایک پانچ روزہ ورکشاپ کے سلسلے میں گئے۔ اپنے تعیناتی کے دن سے تاحال انہوں نے چار سے پانچ مرتبہ وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ وہ بھی صرف ملک میں حالیہ دہشتگردی کی لہر اور معاشی حالات کے پیش نظر فوجی اخراجات کم کرنے سے متعلق ملاقاتیں ہوئی۔ جبکہ تحریک انصاف، ان کے سوشل میڈیا سیل اور ان کے حامی وی لاگرز کی جانب سے جنرل عاصم منیر اور جنرل ندیم انجم کے خلاف بیہودہ قسم کی مہم چلائی جا رہی ہے۔

گزشتہ ساتھ دہائیوں سے بلوچستان، کے پی، سندھ اور پنجاب کے سیاستدانوں کا ایک ہی مطالبہ رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہیے ان کا جو کام ہے وہی کرنا چاہیے۔ اگر اب اسٹبلشمنٹ علانیہ طور پر سیاست سے دور ہو گئی ہے تو عمران خان اور ان کی ٹیم بار بار اسٹبلشمنٹ کو مداخلت کرنے کا کہہ رہی ہے۔ عمران خان کے متعلق ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کی سیاست فوج کی مرہون منت ہے جب تک وہ ساتھ تھی ان کی حکومت تھی جیسے الگ ہوئے حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا۔

عمران خان وزیراعظم تھے تو مرحوم سابق فوجی ڈکٹیٹر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف 17 دسمبر 2020 کو خصوصی عدالت کا فیصلہ آیا، اس خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار تھے جبکہ بینچ میں جسٹس شاہد کریم اور جسٹس نذیر اکبر شامل تھے۔ تو اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے اس فیصلے پر فوری سخت ردعمل دیا کہا اس فیصلے سے پوری فوج میں سخت غصہ پایا جا رہا ہے۔ سرحدوں پر کھڑے فوجی جوانوں کو ہماری عدلیہ نے کیا پیغام دیا ہے کہ ان کا آرمی چیف غدار ہے؟ اس کو ڈی چوک میں پھانسی دی جائے گی؟

اس فیصلے کے ٹھیک 20 دن بعد 3 جنوری 2021 کو جسٹس مظاہر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مشرف کو سزا دینے والی خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور ساتھ ہی اس عدالت کو ہی غیر آئینی قرار دے دیتی ہے۔ اس بینچ میں جسٹس مظاہر نقوی کے ساتھ جسٹس امیر بھٹی اور جسٹس مسعود جہانگیر شامل تھے۔ آج جسٹس مظاہر علی نقوی سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں جن کی گزشتہ دنوں مبینہ طور پر پرویز الہی کے ساتھ ایک آڈیو کال بھی منظر عام پر آئی تھی جبکہ جسٹس امیر بھٹی لاہور ہائیکورٹ کے آج چیف جسٹس ہیں۔

سب سے اہم بات پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار فیصلے کے کچھ دنوں بعد اچانک کورونا سے انتقال کر گئے کیونکہ ان دنوں پاکستان میں کورونا وبا بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ ایسے ہی جج ارشد ملک کا بھی اچانک انتقال ہوا تھا۔ پرویز مشرف کو خصوصی عدالت نے وہی سزا دی جو آئین پاکستان میں آرٹیکل چھ کے تحت بنتی تھی لیکن جنرل آصف غفور نے سخت ردعمل دیا۔ پھر کچھ عرصے بعد عمران خان نے جنرل باجوہ کو ملک دشمن قراردیا اور کہا میری پیٹھ میں چھرا جنرل باجوہ نے گھونپا ہے۔

جب تک جنرل باجوہ آرمی چیف رہے عمران خان نے تب تک ان کے خلاف یہ لفظ استعمال نہیں کیے۔ عمران خان کے اس بیان پر موجودہ ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف کی جانب سے عمران خان کے سابق آرمی چیف کو ملک دشمن قرار دینے پر کوئی سخت ردعمل نہیں آیا۔ جنرل پرویز مشرف بھی سابق آرمی چیف اور جنرل باجوہ بھی سابق آرمی چیف جنرل آصف غفور نے تب ردعمل دیا جب فوج نے نیوٹرل ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا جبکہ جنرل احمد شریف نے عمران خان کے بیان پر اس لیے ردعمل نہیں دیا تھا کہ فوج نیوٹرل ہونے کا اعلان کرچکی تھی۔

سب سے اہم بات پرویز الہی جو اپنے ایک انٹرویو میں واضح کہہ چکے تھے اگر کسی نے جنرل باجوہ کے خلاف بیان دیا تو سب سے میں اور میری پارٹی اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہو گئی۔ لیکن آج پرویز الہی عمران خان کے جنرل باجوہ کے خلاف مسلسل آنے والے بیانات پر ردعمل دینے کی بجائے خود اپنے ساتھیوں سمیت عمران خان کی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ ایک وقت تھا عمران خان جنرل باجوہ کو جمہوریت پسند اور بہترین آرمی چیف کے خطابات دیتے تھکتے نہیں تھے پھر وقت بدلا اسی جنرل باجوہ کو ملک دشمن قرار دے دیا۔

آج عمران خان موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے دوستی کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ اگر موجودہ اسٹبلشمنٹ نے خود کو سیاست سے دور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ان کو دور ہی رہنے دیں۔ عمران خان نے اگر ملاقات کرنی ہے تو شہباز شریف سے کریں کیونکہ موجودہ ملکی حالات سیاسی قیادت کو ایک ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کے پاس یہ بہترین چانس ہے اگر عمران خان نے اب بھی دیر کردی تو پھر ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا یہ صرف تقریریں اور ٹویٹس کرتے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments