شب برات کے فضائل


شعبان المعظم ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔  شعبان کا لفظ ”شعب” سے ہے، جس کے معنی شاخ در شاخ کے ہیں، اس مہینے میں چونکہ خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں، اور روزہ دار کی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کو شعبان کہا جاتا ہے۔ شعبان کا مہینہ رمضان کا مقدمہ ہے، جیسا کہ شوال کا مہینہ رمضان کا تتمہ ہے، اسی وجہ سے اس مہینے کو خاص فضیلت حاصل ہے۔
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا کہ:
”شعبان کے چاند کا شمار رمضان کے لیےرکھو، ”
یعنی جب ماہِ شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تورمضان میں غلطی نہیں ہوگی، چنانچہ :
”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  شعبان کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ کسی ماہ (کے چاند) کا اتنا خیال نہ فرماتے تھے۔”
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ:” میں نے ایک رات رسول اللہ کو نہ پایا تو وہ جنت البقیع میں تھے تب آپ نے فرمایا کہ: اے عائشہ! کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ اور اس کا رسول تم سے ناانصافی کریں گے؟ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول میں نے خیال کیا کہ شاید آپ ازواجِ مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے، اس وقت رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتے ہیں۔”
 قبیلہ کلب کے پاس تقریباً بیس ہزار بکریاں تھیں۔
حضرت عائشہ صدّیقہ سے روایت ہے کہ:  اس رات میں بے شمار گناہ گاروں کی بخشش کی جاتی ہے،اس لیے اس کا نام شبِ براءت ہے، احادیث میں ‘لیلۃ النصف من شعبان” کہہ کراس کی فضیلت بیان کی گئی، (ایک سال کی) زندگی، موت، رزق کے فیصلے اسی رات میں ہو تے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓؓفرماتی ہیں میں  نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں داخل ہو، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: کوئی بھی ایسا نہیں کہ جو اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں جا سکے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ کلمہ تین دفعہ ارشاد فرمایا، تو میں نے کہا کہ آپ بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جاسکیں گے؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا ہاتھ مبارک سر پر رکھ کر فرمایا: اور میں بھی نہیں جا سکوں گا، مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ (بیہقی)
آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  پندرہ شعبان کی رات کو  زندگی میں صرف ایک بار قبرستان تشریف لے گئے، ہر سال آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول نہ تھا.
حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے منقول ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جب نصف شعبان کی رات ہو، تواس میں قیام کرو، اوردن میں روزہ رکھو، اس لیے کہ اس رات اللہ تعالیٰ کی تجلی آفتاب کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوتی ہے، پس فرماتا ہے: کیا ہےکوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اس کو بخش دوں؟ کیا!کوئی رزق لینے والا ہے کہ اس کو رزق دوں؟ کیاکوئی مصیبت زدہ ہے کہ(وہ عافیت کی دعا مانگے، اور میں) اس کو چھڑادوں؟یہ سلسلہ طلوعِ صبح صادق تک جاری رہتا ہے ۔
اشبِ براءت کی برکات سے یہ لوگ محروم رہتے ہیں۔
 کینہ پرور ،کسی کو نا حق قتل کرنے والا،   مشرک، ظلم سےبھتہ لینےوالا، جادو کرنے والا،غیب کی خبریں بتانے والا،موسیقی کے آلات رکھنے والا، قطع رحمی کرنےوالا، شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، والدین کا نافرمان اور شراب پینے والا۔
شبِ براءت میں یہ امور غیر شرعی ہیں۔
1:-آتش بازی مجوسیوں کی نقل ہے، اہلِ اسلام کا شیوہ نہیں،حدیث میں ہے:
ترجمہ: ”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہی میں سے ہوگا۔”
  آتش بازی کے ساتھ بم، پھلجھڑی اورپٹاخے پھوڑنا ان گناہوں کا مجموعہ ہے،عبادت میں خلل اندازی، اہلِ محلہ اور مریضوں کو بلا وجہ ایذا پہنچانااوراپنی جان کو بلاوجہ خطرے میں ڈالنا وغیرہ۔
2-مساجد، بازار، گھراور خاص خاص مقامات پر چراغاں کرنا،مکانوں کی چھتوں پر موم بتیاں جلانا  اسلامی شعار نہیں، یہ سب بے جا خرچ کرنا ہے۔
چراغاں کی بدعت برامکہ سے شروع ہوئی جو آتش پرست تھے، وہ مسلمان ہو گئے، لیکن آتش پرستی کے اثرات ان کی زندگی میں نمایاں تھے، یہ لوگ اس موقع پر خاص طورسے روشنی کا اہتمام کرتے تھے، عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کے دورِخلافت میں  برامکہ کو عروج حاصل تھا، جس کی وجہ سے یہ منکرات اہلِ اسلام میں رواج پا گئیں۔
3:-بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کےدندان مبارک  شہید ہوئےتھےتو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حلوہ نوش فرمایا تھا، اس کی کوئی اصل نہیں،کیونکہ دندان مبارک کی شہادت کا واقعہ شوّال کا ہے، شعبان کا نہیں۔
4: مردوں اور عورتوں کا صلوٰۃالتسبیح کی جماعت کرانا علماء کے نزدیک نوافل کی جماعت نہیں۔
5-حضرت امیرحمزہ ؓکی فاتحہ بوجہ شہادت یہ بھی غلط ہے، کیونکہ آپ ؓکی شہادت کا واقعہ شوال کا ہے، شعبان کا نہیں۔
6: بعض لوگ اعتقادرکھتے ہیں کہ شبِ براءت میں مُردوں کی روحیں گھروں میں آتی ہیں یہ بھی بے اصل  ہے۔
7:کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ شبِ براءت سے پہلے مرنے والے مُردوں میں شامل نہیں ہوتے،اس لیے ان کے لیے فاتحہ نہیں کی جاتی جب کہ حدیث پاک میں ہے کہ جب مردہ مرتا ہے تو مرتے ہی اپنے جیسے لوگوں میں جاپہنچتا ہے ۔
8: کئی لوگ شب براءت میں مسور کی دال ضرورپکاتے ہیں، اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے۔
9:-گھر لیپنا بھی کفّار کی نقل ہے۔
10:بعض لوگ شبِ برأت میں قبرستان رات گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں اس کا بھی شرعاً کوئی ثبوت نہیں۔
رحمت خدا وندی بہانہ تلاش کرتی ہے اس لئے گناہ گار انسانوں کو وقتاً فوقتاً ایسے مواقع عطاکئے جاتے ہیں جن میں اعمال اور عبادات کا ثواب عام اوقات کی نسبت زیادہ رکھا گیا ہے۔انہی میں یہ خاص رات بھی شامل ہے جس میں رب العالمین کی جانب سے نوازش کثیر و الطاف کبیرہ کی بارش ہوتی ہے ۔یہ ایک ایسی مبارک رات ہے جس میں اللہ کے حضور سجدہ ریز ہونے سے سکون قلب اور بالیدگئی روح کی ابدی دولت حاصل ہوتی ہے ۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں ،کوئی سائل ہی نہیں
 راہ دکھلائیں کسے،رہروِ منزل ہی نہیں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments