عورت کے کن حقوق کی بات کی جائے؟


آٹھ مارچ کے آتے ہی عورت کے نام پر ہر کوئی اپنی دکان چمکانا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی عورت کو مظلوم، مجبور اور ملازمہ بنا کر پیش کر رہا ہوتا ہے، تو کوئی راوی بس چین ہی چین لکھ رہا ہوتا ہے۔ عورتوں کے جن حقوق کا مطالبہ کیا جا رہا ہوتا ہے، ان کی ہمارے معاشرے کی عورتوں کو ضرورت نہیں ہوتی اور جن حقوق کو بتا کر عورتوں پر احسان جتلایا جا رہا ہوتا ہے، اس کا کوئی عورت انکار نہیں کرتی۔

اسی کشمکش میں جو اصل اور بنیادی پہلو ہوتا ہے، وہ کہیں دور کھو چکا ہوتا ہے یا اس پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔ پھر چند دن کے شور شرابے کے بعد ہمیشہ کی طرح اگلے سال کے آٹھ مارچ تک تمام آوازیں بند ہو جاتی ہیں۔

اصل پہلو جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے یا جس شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، وہ ان بے ہودہ نعروں اور سلوگنز کی نذر ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو فریقین سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ حقوق کا مطالبہ کس سے کیا جا رہا، کس سے حقوق مانگنے کے لیے جلسے جلوس کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ عورت کے حقوق تو مارتی ہی عورت ہے۔ تو پھر مطالبہ مردوں سے کیوں؟ اسی طرح جو اسلام کے نام پر عورت کی بات کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا آپ اپنے گھروں میں عورتوں کو اسلام کے مطابق حقوق دے رہے ہیں؟ اگر نہیں تو کس اسلام کی بات کر رہے ہیں؟

اس کے باوجود اگر ہم فریقین کے نعروں اور ان کے مطالبات پر کچھ نظر کریں تو دونوں کی کچھ کچھ باتیں حقائق سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ جیسا کہ عورتوں کو وراثت سے محروم کرنا جو کہ ہمارے ہاں عام ہے، بہت کم لوگ بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں سے حصہ دیتے ہیں مگر اس کا جواب فریق مخالف کے پاس نہیں ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے موقع پر عورت کی رضا مندی کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اگرچہ اب ایسا کم ہوتا ہے۔ اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں۔ مگر عورتوں کے حقوق کے نام پر چلنے والی این جی اوز چند ایسی محقق باتوں کے پیچھے اپنے مذموم مقاصد کے لیے کوشاں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اصل مسائل وہیں دب کر رہ جاتے ہیں۔

اگر فریق مخالف کی باتوں کو دیکھا جائے تو وہ عورتوں کی آزادی اور برابری کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں، اور اسلام کی طرف سے دیے گئے اعزازات کو اپنے موٹو بناتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا عورت کو وہ حقوق مل رہے ہیں، جو اسلام خود دے رہا ہے، تو چند ایک کے سوا جواب نفی میں ملے گا۔

ان سب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر مسائل کو دیکھا جائے تو اصل مسائل وہ ہوں گے جو عورت کو روانہ کی بنیاد پر برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ نہ اسے وراثت سے کوئی خاص دلچسپی ہوتی ہے اور نہ پسند کی شادی کا مسئلہ ہوتا ہے، (کیوں کہ وقت کے ساتھ سب سنبھل جاتا ہے ) نہ تو عموماً ہماری عورتیں فحاشی کی طالب ہوتی ہیں اور نہ ہی ملکہ بننا چاہتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ اپنی عزت چاہتی ہے، وہ ذہنی ٹارچر سے نجات چاہتی ہے۔

حق تلفی اس طرح ہوتی ہے کہ اگر بہن بیٹی کوئی اچھا کام کرے تو سارا گھر تعریفوں کے پل باندھ رہا ہوتا ہے، مگر بہو کرے تو سب چپ ہوتے ہیں، ساس صاحبہ یہ کہہ کر کے سب کو مطمئن کر دیتی ہیں کہ یہ تو عورت کے ہی کام ہوتے ہیں، ہم بھی تو کرتے ہی رہے ہیں، داماد بیٹی کا خیال رکھتا ہو، اسے گھمانے لے جاتا ہو، اس کی مرضی کے کپڑے لے کے دیتا ہو تو فخر سے بتایا جائے گا کہ ہمارے داماد نے تو ہماری بیٹی کو ملکہ بنا کے رکھا ہے۔

مگر یہی کام بیٹا کرے تو اسے رن مریدی کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ بیٹی اچھی چیز بنائے تو سب تعریف کریں گے، بہو بنائے تو کوئی شکریہ کا لفظ تک نہیں کہتا کیوں کہ یہی تو عورت کا کام ہے۔ بیٹی سے کوئی غلطی ہو جائے تو ماں چھپاتی پھرے گی، یا خود اس کی وکیل بنتی نظر آئے گی، وہی کام بہو سے ہو جائے تو پہلے خود اس کی خاطر مدارت کرے گی، پھر سسر کو بتایا جائے گا کہ اس عورت نے تو میرا گھر اجاڑ کے رکھ دیا، پھر بیٹوں اور بیٹیوں کو بتایا جائے گا، پھر ہر آنے والے سہیلی کو بتایا جائے گا۔

بیٹی کام کرے تو ماں ساتھ ہاتھ بٹائے گی، کبھی کام والی کو بلائے گی، بہو کرے تو کہے گی انہی کا گھر ہے، یہ نہیں سنبھالیں گی تو کون سنبھالے گا۔ بیٹی مرضی کی شاپنگ کرے تو ماں تھکتی تک نہیں اور بہو کے وقت وقت کا حساب رکھا جاتا ہے، کب گئی تھی؟ کتنے کی شاپنگ کی؟ کون کون سی چیز لی؟ بیٹی سال میں چاہے جتنے بھی چکر لگائے یا ہفتہ ہفتہ آ کے رہے، ماں بہت خوش ہوتی ہے، ہر دفعہ خوب خاطر مدارت کرتی ہے، جاتے وقت چھپا کے کچھ نہ کچھ دیتی بھی ہے، مگر بہو نے جانا ہو تو اسے سمجھایا جاتا ہے کہ اس کا اصل گھر سسرال ہے، وہاں تو کبھی کبھار چند دن کے لیے جاتے ہیں، زیادہ جانے سے لوگ کیا کہیں گے؟

کبھی اس کے جانے پر ناراضی تو کبھی آنے پر۔ بیٹی پڑھ رہی ہو تو بڑا فخر کیا جائے گا بہو کو بس ہر بات میں ایک چیز سمجھائی جائے گی کہ اس نے گھر سنبھالنا ہے اور شاید قیامت کے دن اسی کا حساب ہونا۔ بڑے بڑا پن دکھانے کو تیار نہیں اور چھوٹوں کو ہر کوئی آداب سکھا رہا ہوتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے بیسیوں معاملات جو صدیوں سے ہمارے معاشرے اور گھروں میں ہوتے ہیں، یہ ہیں عورتوں کے حقوق جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے، جن کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جو ہمارے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں، ہمیں نفسیاتی اور ذہنی مرض میں مبتلا کرتے ہیں، ان پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مگر کون آواز اٹھائے اور کس کے خلاف اٹھائے؟ عورت کی ہر حق تلفی کے پیچھے عموماً عورت کا ہی ہاتھ نظر آئے گا۔ مگر حقوق پھر بھی مردوں سے مانگے جاتے ہیں۔ عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے برتاؤ میں بے صبری اور ناشکری سے اجتناب کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی عورتوں کو تربیت کی جائے، انہیں دین سمجھایا جائے، اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس دلایا جائے۔ آج کی بہو، بیٹی کی اچھی تربیت کی جائے تاکہ کل اچھی ساس بن سکے۔ اس کے لیے ہمارے ہر فرد کو سیرت طیبہ کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ برتاؤ اور انہیں دیا جانے والا مقام معلوم ہو سکے۔ تاکہ ہم حقوق حاصل کرنے کی بجائے حقوق ادا کرنے والے بنیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments