امید کی شہزادی


گوادر جانے کی خواہش بہت دیر سے تھی۔ بالآخر اس ماہ موقع مل گیا اور ہم کراچی سے گوادر کے لیے روانہ ہوئے۔ حب چوکی سے گزرتے ہوئے ایک صد کلومیٹر کے بعد زیر و پوائنٹ پہنچے۔ جہاں سے کوئٹہ جانے والا راستہ اور گوادر جانے کے لیے کوسٹل ہائی وے علیحدہ ہوتی ہیں۔ ہم کوسٹل ہائی وے پر روانہ ہوئے۔ اس پوائنٹ سے گوادر تقریباً پانچ صد کلو میٹرز ہے۔ سڑک اچھی پختہ حالت میں ہے اور ٹریفک بلکہ آبادی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ تیز رفتاری سے سفر ہو سکتا ہے۔ مزید ایک سو کلومیٹر آگے کنڈ ملیر کا گاؤں ہے۔ مچھیرے رہتے ہیں اور صبح سویرے کیکڑے پکڑنے اپنی کشتیوں میں گہرے سمندر میں نکلتے ہیں، انہیں ماہی گیر کی بجائے کیکڑا گیر کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔

کنڈ ملیر سے کچھ پہلے ہی ایک پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ غالباً دنیا بھر کا انوکھا سلسلہ ہے۔ مٹی کے پہاڑ دیگر پہاڑی سلسلوں سے مختلف منظر پیش کرتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا چاند کی سطح پر قدم رکھ دیے ہوں۔

کنڈ ملیر سے کچھ پہلے سڑک سے کوئی چار کلومیٹر کے فاصلہ پر مڈ وولکینو ہیں۔ یہ ہندووں کا مقدس مقام ہے۔ یہ دو ٹیلے ہیں جن میں سے بڑے ٹیلے پر چڑھنے کے لیے ساڑھے چار سو سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ تقریباً تین سو فٹ بلند اس ٹیلے پر پہنچنے کے بعد ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے، ٹاپ پر ایک کریٹر ہے جس میں کیچڑ دباؤ کے ذریعہ نکل رہا ہے۔ اس کا اندازہ نیچے کھڑے ہوئے افراد کو نہیں ہو سکتا ۔ غالباً دنیا بھر میں یہ واحد ٹیلے ہیں جہاں زیر زمین ہونے والے مختلف قسم کے عجائبات میں سے ایک منفرد عجوبے کا انسانی آنکھ مشاہدہ کر سکتی ہے۔

اس انوکھے ”کیچڑ فشاں“ کو دیکھنے کے بعد آگے روانہ ہوئے تو دائیں بائیں پہاڑوں کا عجیب سلسلہ شروع ہو گیا۔ مٹی سے بنے ہوئے ان پہاڑوں کو پانی اور ہوا کے عوامل نے ایک عجیب تراش خراش بخشی ہے۔ ہر چوٹی لگتا ہے کسی کہانی کا کردار ہے۔ کہیں ستون نما سٹرکچر استادہ ہیں۔ کہیں پتھر کے بنے ہوئے بت نظر آتے ہیں۔ کہیں پیٹرا کے کھنڈرات کی طرح کی شکل و صورت ہے۔ غرض کوئی قصہ خوان ہزاروں کہانیاں بن سکتا ہے۔ ایک جگہ اہل دل نے ایک چوٹی کو ابوالہول کا نام دے دیا ہے۔ آگے چلو تو پرنسز آف ہوپ یا امید کی شہزادی استادہ ہے۔ غرض ایک کہانی کار کے لیے یہ نہایت زرخیز تصوراتی دنیا ہے۔ جس میں الف لیلہ کی ہزار داستانیں ہیں۔

میں بھی امید کی شہزادی کو دیکھ کر تصور میں ایک کہانی بننے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ مجسمہ در اصل ایک جیتی جاگتی شہزادی کا ہے جو سن سنتالیس میں حیات تھی اور جب بر صغیر میں ایک اقلیت نے اکثریت کے خوف سے اپنے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تو یہ شہزادی بہت خوش ہوئی ہوگی اور اس کا خیال ہو گا کہ اس آزاد ملک میں اب ہر اقلیت سر اٹھا کر جی سکے گی اور مظلوم کی آ ہیں رنگ لائیں گی اور یہ نیا وطن دنیا کے نقشہ پر ایک روشنی کا منار بنا کر ابھرے گا۔

مگر افسوس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی اس نے محسوس کیا ہو گا کہ اس ملک میں جسے ایک اقلیت نے اکثریت کے دباؤ سے آزاد ہو کر رہنے کے لیے حاصل کیا تھا اور یہاں وہ اقلیت اکثریت میں بدل گئی تھی اپنی اقلیتوں سے وہی سلوک کرنا شروع کر دیا جس کے خوف سے انہوں نے یہ وطن حاصل کیا تھا تو وہ اداس ہو گئی ہو گی۔ اقلیتوں پر مظالم بڑھتے گئے ہوں گے تو اس کی قوت سماعت نے کام چھوڑ دیا ہو گا۔ آہستہ آہستہ قوت گویائی سلب ہو گئی ہوگی۔ پھر آنکھوں کی روشنی بجھی ہوگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھوں نے کام چھوڑ دیا ہو گا۔ پھر ٹانگیں پتھرا گئی ہوں گی اور اب وہی خوش باش جیتی جاگتی شہزادی ایک بت کی طرح بے حس و حرکت کھڑی اس انتظار میں ہے کہ کب اس ملک میں پیار، محبت اور امن و سلامتی کا دور دورہ ہو گا۔

بچپن میں ہم کہانیوں میں پڑھتے تھے کہ ایک شہزادہ تھا۔کسی جادوگر نے اس کے بدن میں سوئیاں چبھو کر بے حس و حرکت بنا دیا تھا۔ بالآخر ایک شہزادی وہاں سے گزری تو اس نے اس شہزادے کی سوئیاں نکالنی شروع کر دیں اور آخری سوئی نکلنے پر وہ شہزادہ دوبارہ جیتا جاگتا ہو گیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔

پتھر کی یہ شہزادی شاید انتظار کر رہی ہو کہ اس کے ملک میں بھی کوئی شہزادہ آئے گا جو اس کی امن اور سلامتی کی امید دوبارہ روشن کردے گا۔ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی بارش، طوفان یا زلزلہ کے باعث یہ شہزادی دھڑام سے زمین بوس ہو کر چکنا چور ہو جائے۔

اپنے خیالات میں گم ہم سفر کرتے رہے اور غروب آفتاب کے وقت رینجرز کی بہت سی چیک پوسٹوں سے گزرتے ہوئے ہم گوادر پہنچے سورج ڈوبنے کا منظر دیدنی تھا۔ کاش ہمارا معاشرے کا رویہ بھی ایسا ہی خوبصورت ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).