خواتین کا عالمی دن اور چند حقائق


خاندان معاشرے کی وہ بنیادی اکائی ہے جو اس کے تمام افراد خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کی نشوونما اور فلاح و بہبود کے لیے فطری ماحول فراہم کرتا ہے۔ اس لیے خاندان کے ادارے کی بقا اور حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس بنیادی مقدمے اور حق کی توثیق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1969 میں ترقی کے عالمی اعلامیے میں کی۔ اس اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ یہ صرف والدین کا خصوصی حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعداد اور وقفے کا آزادانہ اور ذمہ دارانہ فیصلہ کریں (ریاست کو اس معاملے میں جبر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ) ۔

1994 میں قاہرہ میں ہونے والی آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس میں زور دے کر کہا گیا تھا کہ ”حکومتوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ آبادی کے اہداف کی بجائے لوگوں کی تولیدی ضروریات کو پورا کریں“ ۔ تولیدی صحت کے حقوق دوران زچگی ماں اور بچے کی اموات اور بیماریوں کو ختم کرنے میں مدد دیتے ہیں کیونکہ یہ اموات اور بیماریاں قابل بچاؤ ہیں۔ اس کانفرنس میں 179 ممالک کے گیارہ ہزار حکومتی و غیر حکومتی اداروں اور بین الاقوامی ایجنسیوں کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔

حاملہ خواتین کی 99 فیصد وفات ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔ جن میں سے 13 فیصد اموات غیر محفوظ اسقاط حمل کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال اڑھائی کروڑ غیر محفوظ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔ ان میں سے 97 فیصد ترقی پذیر ممالک میں ہوتے ہیں جن میں افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا کی ریاستیں شامل ہیں۔

خواتین کے خلاف تشدد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیوں میں سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر تیسری عورت اپنی زندگی میں تشدد کا شکار ہوتی ہے۔ خواتین کے خلاف زیادہ تر ہونے والا تشدد ان کے شوہروں اور قریبی ساتھیوں سے ہوتا ہے۔ 58 فیصد خواتین اور لڑکیوں کا قتل خاندان کا کوئی فرد یا قریبی ساتھی کرتا ہے۔ جنگ اور امن دونوں حالتوں میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد عام معاملہ ہے۔ بلکہ جنگوں میں تو جنسی تشدد کو ایک منظم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ تشدد کا شکار خواتین اس ظلم کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتیں۔ بہت کم خواتین پولیس اور سماجی و معاشی مدد کے حکومتی اداروں کی طرف رجوع کرتی ہیں۔ خواتین کو انصاف کی فوری فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے والے عوامل میں انصاف کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے عملے کے درمیان قوانین کی کم فہمی، شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا عدم استعمال، پدرانہ ذہنیت اور علاقائی رسم و رواج شامل ہیں۔

انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی رسائی، موبائل فون کا تیزی سے پھیلاؤ اور سوشل میڈیا کے وسیع پیمانے پر استعمال نے سائبر ہراسانی کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف موجود تشدد میں اضافہ کر دیا ہے۔ اس میں آن لائن خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، تصاویر اور ویڈیوز کا بغیر رضامندی کے استعمال کرنا شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں 40 فیصد خواتین ڈیجیٹل تشدد کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ تشدد نہ صرف خواتین کی بہبود کے احساس کو نقصان پہنچاتا ہے، ان کو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار کرتا ہے بلکہ ان کے ذریعہ معاش اور پیشہ ورانہ صلاحیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔

کم عمری کی شادی، بچپن کی شادی یا زبردستی کی شادی ایشیا اور افریقہ کے کچھ حصوں میں اب بھی رائج ہے۔ یہ شادیاں لڑکیوں کی نشوونما اور تعلیم پر منفی اثرات ڈالنے کے علاوہ ان کے لیے سماجی تنہائی اور بدسلوکی کا بھی باعث بنتی ہیں۔ ان شادیوں کو اقوام متحدہ کی قرارداد 2013 ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں مگر ترقی پذیر ممالک میں ہر تین میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی جاتی ہے۔

بہت سے بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود جو خواتین کے انسانی حقوق کی توثیق کرتے ہیں، اب بھی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ ناخواندہ اور غربت کا شکار ہیں۔ انہیں جائیداد کی ملکیت اور روزگار کے حقوق اور اسی طرح سے سیاسی فعالیت کے مواقع مردوں کے مقابلے میں کم حاصل ہیں۔ دنیا میں ناخواندہ افراد میں سے دو تہائی خواتین ہیں۔ تعلیم کی کمی خواتین کے لیے زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقعوں کو مسدود کر دیتی ہے۔ اس کے برعکس لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم خاندان اور آنے والی نسلوں دونوں کو فائدہ دیتی ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد کا خاتمہ عالمی بحرانوں سے نمٹنے اور خوشحالی کے حصول کی کلید ہے۔ ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 155 ممالک نے گھریلو تشدد کے خلاف قوانین منظور کر رکھے ہیں۔ اسی طرح سے 140 ممالک نے کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف قانون سازی کی ہے۔ تاہم ان قوانین کے نفاظ کا چیلنج ابھی باقی ہے۔

پاکستان نے سیاسی، معاشی اور انتہاپسندی کے مسائل کے باوجود انسانی حقوق کے بیشتر عالمی معاہدات کی توثیق کی ہے اور خواتین کے تحفظ کے لیے قابل قدر قانون سازی کی ہے۔ ان میں قومی صنفی پالیسی 2022، زنا بالجبر آرڈیننس 2020، اور خواتین کے خلاف گھریلو تشدد ایکٹ 2020 خاص طور قابل ذکر ہیں۔ تاہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی آئے روز ابتر ہوتی صورتحال ان قوانین کے عملی نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب قدرتی آفات کے لحاظ سے پاکستان گزشتہ 20 سالوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 2050 تک تقریباً 20 لاکھ موسمیاتی آفات کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے ہوں گے۔ ان آفات میں خواتین خاص طور پر زیادہ متاثر ہوں گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے اندر آفات کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جائیں ان میں اور ریلیف سے متعلق پالیسیز میں خواتین کی ضروریات اور مسائل کا خیال رکھا جائے۔

۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments