سنہ 2022 کا سیلاب: کیا پنجاب مکمل طور پر نقصان سے بچ سکتا تھا؟


سیلاب
شمالی علاقوں میں پہاڑوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں اور وہ سارا پانی دریائے سندھ میں گیا۔ گلیشیئرز کے بھی جتنے سیلاب آئے ان کا تمام پانی بھی دریائے سندھ میں شامل ہو گیا۔ یہ پانی ایک وقت میں کئی لاکھ کیوسک تھا۔

اٹک کے مقام سے دریائے سندھ اس پانی کو لے کر پنجاب کے میدانی علاقوں کی طرف بڑھا۔ ڈر یہ تھا کہ یہ پانی پنجاب کے میدانی علاقوں میں دریا سے باہر نکل جائے گا اور بہت سے علاقے ڈبو دے گا۔

سیلاب کے اس پانی کا کچھ حصہ راستے میں دریا پر بنے ڈیموں اور بیراجوں کو بھرنے کے کام آیا۔ جو ان سے زیادہ ہوا، اس کو آگے چھوڑ دیا گیا۔ یہ پانی بھی لاکھوں کیوسک میں تھا۔ سیلاب کا یہ پانی پنجاب کے جنوبی اضلاع کے کئی شہروں میں نکلا۔

کئی دیہات زیرِ آب آ گئے لیکن خدشات کے برعکس دریائے سندھ کا پانی زیادہ تر علاقوں میں دریا کے کچے کے علاقے تک ہی محدود رہا۔

’کچا‘ عمومی طور پر اس علاقے کو کہا جاتا ہے جو بنیادی طور پر دریا ہی کی زمین تصور ہوتے ہیں۔

لیکن پنجاب کے کم از کم دو اضلاع ایسے ہیں جن کا 80 فیصد حصہ سیلاب کے پانی نے ڈبو دیا۔ اگر دریائے سندھ صرف کچے تک محدود رہا تو راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کو ڈبونے والا پانی کہاں سے آیا؟

اس تباہی کے ذمہ دار برساتی نالوں کو ان اضلاع کے لوگ کئی سال سے بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ یہ نالے کوہِ سلیمان کے پہاڑوں سے آتے ہیں اور ان دونوں اضلاع میں تباہی مچاتے نیچے دریائے سندھ میں جا گرتے ہیں اور یہ سلسلہ بغیر رکے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔

اگر آپ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہر مرتبہ یہ نالے کیوں پنجاب کے جنوب میں تباہی مچاتے ہیں تو آپ یہ ضرور سوچتے ہیں کہ اگر دریائے سندھ کے کئی گنا زیادہ پانی کو قابو کیا جا سکتا ہے تو کوہِ سلیمان کے نالوں کو کیوں نہیں؟

اسی سوال کے جواب کی تلاش مجھے ڈیرہ غازی خان کی طرف لے گئی۔ اس کا علاقہ تونسہ بری طرح برساتی نالوں کے سیلاب سے متاثر ہوا۔ تونسہ کو حال ہی میں ضلع کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ تونسہ کا ایک بڑا علاقہ کوہِ سلیمان کے پہاڑوں پر مشتمل ہے۔

اور میں اسی طرف جا رہا ہوں لیکن راستے میں تونسہ شہر سے قبل ہی مجھے ایک بستی میں رکنا پڑا۔ مجھے پتا چلا تھا کہ یہاں سیلاب نے ایک ہی گھر کے دس افراد کی جان لی تھی۔ یہ سیلاب بھی ایک نالے سے آیا تھا۔

مجھے اس کے قریب کوئی نالہ نظر نہیں آ رہا تھا اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نالہ یہاں سے دور تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ پھر لوگ کیسے مر گئے؟ کیا ان کو گھروں سے نکالنے کا بندوبست نہیں کیا جا سکا۔

اس سیریز کی پہلی دو اقساط

’سرجنگ گلیشیئر‘: گلگت بلتستان کی وہ خوبصورتی جو اب یہاں کے رہائشیوں کو ’خوفزدہ‘ کر رہی ہے

سوات کی خوبصورتی کا سیلاب کی تباہی سے کیا تعلق ہے؟

سیلاب

’وہ گھر سے نکلے ہی تھے، پانی سامنے آ گیا‘

یہاں مجھے خادم حسین سے ملنا ہے۔ ان کی بیوی، دو بچے اور خاندان کے سات دیگر افراد سیلاب میں ہلاک ہوئے۔ جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ مرنے والوں کے نام پر خیرات دلوا رہے تھے۔ خادم حسین مجھے اس مقام پر لے گئے، جہاں ان کے گھر تھے۔

ان کے کچے مکانوں کی جگہ اب حکومت کی امداد سے پکے مکان کھڑے ہیں لیکن خادم حسین اپنی اہلیہ اور دو بچے کھو چکے ہیں۔

’وہ گھر کے اندر تھے جب شور مچا کہ سیلاب آ گیا تو میری بیوی نے ہمارا آٹھ ماہ کا بچہ اٹھایا باہر بھاگی۔ میری چار سال کی بیٹی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا لیکن وہ زیادہ دور نہیں گئے تھے کے پانی سامنے سے آیا اور ان کو بہا لے گیا۔‘

میرے لیے یہ بات ذرا عجیب سی تھی کہ پانی سامنے سے آ گیا کیونکہ وہ نالہ جس سے پانی نکلا تھا وہ دوسری سمت میں ہے۔ بنیادی طور پر پانی کو ان لوگوں کے پیچھے کی سمت سے آنا چاہیے تھا۔

خادم حسین

خادم حسین کی بیوی، دو بچے اور خاندان کے سات دیگر افراد سیلاب میں ہلاک ہوئے

پانی ان کا پیچھا کیوں کر رہا تھا؟

خادم حسین نے مجھے سمجھایا کہ یہ کیسے ہوا اور اسی بات کا انھیں غصہ بھی ہے۔ خادم حسین نے مجھے بتایا کہ نالے کا پانی جب ایک ریلے کی صورت میں ان کے گاؤں کی طرف آیا تو پہلے اس نے باہر کے کچھ مکانات کو نقصان پہنچایا اور آگے جا رہا تھا۔

’یہاں سے آگے جو بڑی سڑک ہے اس کے نیچے پانی کی نکاسی کے لیے پل بنے ہوئے ہیں لیکن پانی کا ریلہ ان پلوں کی طرف جا ہی نہیں سکا کیونکہ ان کے سامنے کسی نے مٹی کے اونچے اونچے بند بنا رکھے تھے۔‘

خادم حسین انہی پلوں کے سامنے کھڑے ہو کر مجھے دکھا رہے تھے کہ جب پانی ان مٹی کی دیواروں سے ٹکرایا تو وہ واپس پلٹ کر ایک مرتبہ پھر ان کے گاؤں کی طرف چلا گیا ’اور اس وقت اس پانی نے میرے خاندان کے لوگوں کی جان لی۔ پانی گول گول گھومتا رہا یہاں پر۔‘

بالآخر پانی کے مسلسل ٹکرانے کی وجہ سے مٹی کی یہ دیواریں ٹوٹ گئیں اور سیلاب کا پانی پلوں کے ذریعے اس علاقے سے باہر نکل گیا۔

’اگر یہ دیواریں نہ کھڑی کی گئی ہوتیں تو میرے بیوی بچے بھی زندہ ہوتے اور دوسرے لوگ بھی بچ جاتے۔ یہاں نقصان بھی بہت کم ہوتا۔‘

خادم حسین نے مجھے بتایا کہ یہ دیواریں کافی عرصہ پہلے بنی تھیں۔ جو شخص یہ دیواریں کھڑی کر رہا تھا کسی حکومتی ادارے نے نہ تو اس کو روکا اور نہ ہی بعد میں ان کو گرایا گیا۔ وہ کہتے ہیں یہ دیواریں قریب کی آبادی کے ایک امام مسجد نے بنوائی تھیں۔

سیلاب

پانی اتنی جلدی کیسے پہنچا؟

تاہم سوال یہ بھی تھا کہ اگر یہ آبادی برساتی نالے کے کنارے پر نہیں تھی اور نالہ اس طرف آ بھی نہیں رہا تھا تو نالے کا پانی اس طرف کیوں آ گیا۔ خادم حسین نے بتایا کہ یہاں سے چند کلومیٹر آگے وہ بند ہے جسے پانی نے توڑ دیا تھا۔

میں جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ بستی کھڑدک کے قریب ایک بہت پرانا بند ہے۔ اس مقام سے اوپر پہاڑوں سے آنے والا برساتی نالہ موڑ کھا کر مشرق کی سمت چلا جاتا ہے لیکن اس مرتبہ سیلاب کا پابی اس نالے کو توڑ کر سیدھا نکل گیا۔ اسی سمت میں خادم حسین کی بستی بھی ہے۔

بستی کھڑدک کے رہائشی محمد بخش نے مجھے بتایا کہ اس سے قبل کبھی یہ نالہ کسی بھی سالاب میں اس بند سے نہیں ٹوٹا تھا۔

’اس سال سیلاب سے بہت پہلے ہم نے تین سے چار مرتبہ حکومت کو درخواستیں دیں کہ یہ بند بہت کمزور اور خطرناک ہو گیا ہے۔ یہاں سے جانی اور مالی نقصان ہو سکتا ہے‘ لیکن محمد بخش کہتے ہیں کہ حکومت نے ان کی درخواست پر کوئی عمل نہیں کیا۔

’اس بند کی مرمت نہیں کی گئی۔ اگر یہ مرمت ہو کر مضبوط ہو جاتا تو یہ سارا نقصان بچایا جا سکتا تھا جو اس کے ٹوٹنے سے ہوا۔‘

محمد بخش سمجھتے ہیں کہ حکومت وہ تجاوزات ختم کرنے میں بھی ناکام رہی ہے جن کی وجہ سے نالے کا راستہ سکڑ گیا اور پانی کا دباؤ بند پر زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ تجاوزات نالے کی زمین پر لوگوں نے فصلیں کاشت کر کے اور گھروں کی صورت میں کر رکھے ہیں۔

’اگر یہاں نالا اپنے راستے پر چلتا رہے اور یہ بند مضبوط ہو تو اس کا پانی کئی دیہات کو سیراب کرتا ہے، نقصان نہیں کرتا۔‘

وہ کہتے ہیں سیلاب کے بعد بھی یہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس بند پر دوبارہ مٹی چڑھائی لیکن موجودہ حالت میں یہ سیلاب کو نہیں روک سکتا۔

سیلاب متاثرین

نالوں نے راستے کاٹے یا راستے تھے ہی نہیں؟

تونسہ کے ان میدانی علاقوں میں تباہی مچانے والے یہ نالے کوہِ سلیمان سے آتے ہیں۔ میں اسی طرف ایک علاقے فاضلہ کچھ کی طرف جا رہا ہوں۔ یہ علاقہ بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ سیلاب کے دنوں میں یہ علاقہ کئی دن تک نیچے کے علاقوں سے کٹ گیا تھا۔

فاضلہ کچھ کی طرف جاتے ہوئے راستے ہی میں مجھے یہ اندازہ ہو گیا کہ یہ علاقہ کیوں باقی علاقوں سے کٹ گیا ہو گا۔ ایک تو پہاڑوں میں کئی مقامات پر بارشوں کے بعد لینڈ سلائیڈنگ ہوئی اور اس نے پوری پوری سڑکیں ختم کر دیں۔

لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب میں ڈونکیالی ندی پر پہنچا۔ یہ ندی بلوچستان سے آتی ہے اور فاضلہ کچھ کے پاس سے گزرتی ہوئی نیچے چلی جاتی ہے۔ اس کا پاٹ بہت چوڑا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ فاضلہ کچھ کی طرف جانے کے لیے اس ندی کو پار کرنے کے لیے کوئی پل ہی موجود نہیں۔

ندی میں پل کے لیے کچھ ستون بنائے گئے تھے مگر وہ تنہا ہی کھڑے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کچھ عرصہ قبل ہی بنائے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ گرمیوں میں جب بھی اس ندی میں پانی زیادہ ہو گا اس کو عبور کرنا نا ممکن ہو جاتا ہو گا۔ اس وقت اس ندی میں پانی بہت کم ہے۔

سیلاب

کیا اس تباہی سے بچا جا سکتا تھا؟

فاضلہ کچھ میں میری ملاقات محمد اقبال سے ہوئی۔ وہ کاشتکاری کرتے ہیں اور ڈونکیالی ندی میں آنے والا سیلاب ان کی زمین کا ایک حصہ ساتھ لے گیا تھا۔ محمد اقبال نے مجھے بتایا کہ ندی میں پانی بھر گیا تھا، ان کے گاؤں میں لوگ 17 دن تک نیچے کے علاقوں سے مکمل طور پر کٹ گئے تھے۔

’نیچے لوگوں کو کچھ نہیں پتا تھا کہ ہم کس حال میں ہیں۔ ہمارے موبائل کارڈ بھی ختم ہو گئے۔ راشن ختم ہو گیا۔ ہم گندم کے دانے پانی میں بھگو کر وہ کھا کر گزارا کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ادویات بھی ختم ہو گئی تھیں، عام سر درد کی گولی تک دستیاب نہیں تھی۔‘

محمد اقبال نے بتایا کہ ندی کے اوپر پل بنانے کے لیے سیلاب سے چند ماہ قبل پلر کھڑے کیے گئے تھے لیکن پل مکمل نہیں ہو پایا تھا۔ ’سارا سامان بھی موجود تھا اور یہاں پر لایا جا چکا تھا لیکن پھر بھی پل کو مکمل نہیں کیا جا سکا۔‘ اس سے پہلے کبھی یہاں پل نہیں بنا تھا۔

محمد اقبال کہتے ہیں کہ اس پورے علاقے میں کبھی بھی برساتی نالوں پر چھوٹے ڈیم نہیں بنائے گئے جو ان کے گاؤں جیسی آبادیوں کو سیلاب سے بھی بچا سکتے ہیں اور کھیتی باڑی کے لیے پانی بھی مہیا کر سکتے ہیں۔

’چھوٹے ڈیم ہوں تو پانی کی رفتار بھی کم ہو جائی گی اور طاقت بھی اور پھر چینلز بنا کر زراعت کے لیے پانی بھی دستیاب کیا جا سکتا ہے۔‘

سیلاب

کیا سابق وزیرِاعلیٰ کے پاس موقع تھا؟

پنجاب کے سابق وزیرِاعلی عثمان بزدار بھی تونسہ میں کوہ سلیمان کے رہنے والے ہیں۔ ان کا علاقہ بارتھی، فاضلہ کچھ سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔ وہ لگ بھگ چار سال پنجاب کے وزیرِاعلیٰ رہے لیکن کوہ سلیمان کے علاقے میں برساتی نالوں پر ڈیم نہیں بنوا سکے۔

انھوں نے منصوبے ضرور بنائے۔ محمد احمد بزدار بھی کوہ سلیمان کے اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ سردار عثمان بزدار نے اس علاقے میں کم از کم تین ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان پر کچھ کام بھی شروع ہوا تھا۔

وہ ڈیم جس پر کام کا آغاز ہوا تھا وہ کوہِ سفید کے علاقے میں بننا تھا۔ وہاں سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے نام کی تختی لگی ہوئی ہے لیکن ڈیم موجود نہیں۔ یہاں بنیادی طور پر ایک درے کے اندر پانی کو روک کر چھوٹا سا ڈیم بنانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔

اس سے چند کلومیٹر اوپر سوڑا ڈیم بنانے کا بھی منصوبہ تھا جہاں زیادہ پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا لیکن جب میں وہاں پہنچا تو اس مقام پر کچھ بھی نہیں۔

مقامی افراد نے ایک چھوٹا سا چینل بنا کر اپنی مدد آپ کے تحت یہاں نالے کے پانی کو پائپ لائن کے ذریعے اوپر آبادی تک پہنچایا ہوا ہے۔ اس کو وہ پینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آبپاشی کے لیے بھی۔

سیلاب

’اب تاخیر کی گنجائش نہیں‘

فیڈرل فلڈ کمیشن کے چیئرمین احمد کمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں ڈیم بنانے کے منصوبوں میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں۔

’اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں جہاں بھی ضرورت ہے وہاں چھوٹے ڈیم بنائے جانے چاہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان کی مدد سے نیچے جب دریائی سسٹم میں طغیانی ہو تو ان ڈیموں میں پانی کو روکا جا سکتا ہے جب تک سیلاب نیچے دریاؤں میں سے گزر نہ جائے۔‘

احمد کمال بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جن علاقوں میں یہ ڈیم بنیں گے جب تک وہاں پانی رہے گا، ان علاقوں میں خوشحالی لائے گا۔

احمد کمال نے بتایا کہ اس مرتبہ پنجاب کے ان دونوں اضلاع میں صرف انہی نالوں نے نقصان کیا۔ اس کی ایک وجہ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں اس مرتبہ بارشیں معمول سے بہت زیادہ ہوئیں تھیں اور وہ پانی بھی کوہِ سلیمان کے نالوں کے ذریعے پنجاب میں داخل ہو گیا۔

سیلاب

فیڈرل فلڈ کمیشن کے چیئرمین احمد کمال نے بتایا کہ کوہ سلیمان کے پہاڑوں میں ڈیم بنانے کے منصوبوں میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں

ناوکاسٹنگ کیسے مددگار ہو سکتی ہے؟

ایف ایف سی کے چیئرمین احمد کمال کہتے ہیں انھوں نے موسمیاتی ادارے کو یہ تجویز دی ہے کہ کوہ سلیمان کے ان پہاڑی علاقوں کے لیے فورکاسٹنگ کے ساتھ ساٹھ ناو کاسٹنگ کا بھی استعمال کیا جائے۔

’یہ گاڑیوں پر رکھے ریڈار ہوں گے جو ان علاقوں میں جا کر ہر ایک گھنٹے کے حساب سے بتا سکیں گے کہ کتنی بارش ہونے کے امکانات ہیں۔‘

یوں نیچے کے علاقے کے لوگوں کو وقت پر خبردار کیا جا سکتا ہے یا پھر ان کو نکالا جا سکتا ہے تاکہ وہ پھنس نہ جائیں۔

دریائے سندھ میں سیلاب کا پانی اپنی جگہ اور ساتھ ان نالوں سے جانے والا لاکھوں کیوسک پانی بھی شامل ہو گیا۔ یہ تمام پانی صوبہ سندھ کی طرف چلا گیا۔ سندھ میں بارشیں پہلے ہی کافی زیادہ ہو رہی تھیں۔ سندھ نے اس پانی کو کیسے سنبھالا یہ ہم اگلی کہانی میں دیکھنے جا رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments