انتظار


ہم انسان اپنے اوپر آنے والی تکلیفوں کا ذمہ دار اکثر ان انسانوں کو ٹھہراتے ہیں جن کے بغیر شاید ہماری سوچ اور روح ہی کیا بلکہ آواز، لہجے اور حرف تک خالی پن محسوس کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے بعد دل کی کھڑکیوں سے احساس کا ماہتاب جھانکنا ہی بھول جاتا ہے۔ ان انسانوں سے شکوے شکایت ہی کیا؟ کہ وہ گئے تو ہر ہر آشنائی و دلربائی گئی۔ ہر آرزو، شام بے کیف میں جیسے ڈھل سی جاتی ہے۔ ہر سہل لگنے والی منزل ہمیشہ کے لیے کھو سی جاتی ہے کہ ان کا ہمیں یوں بھول جانا دنیا سے جڑا کوئی بھی منظر شادماں دل کو لبھا ہی نہیں پاتا۔

شاید ہم میں سے ہر انسان اس انسان کے لیے بے قرار ہے کہ جن کے بارے میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے اندر کے خالی پن کو معنی خیز بنانا جانتا ہے اور ان کی بے پرواہی زندگی کو یوں انتظار کا مسکن بنا دیتی ہے کہ کبھی اس کے چل پڑنے کا انتظار، کبھی اس کے رک جانے کا انتظار اور کبھی شاید اس کے گزر جانے کا انتظار۔ دعا کے دامن کو اگر تھامے رکھا ہو تو رب العالمین سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ ”اے میرے بندے کوئی چیز تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، نا غمگین کر سکتی لیکن جب تک کہ اللہ نہ چاہے“ ۔

کتنا مہربان ہے وہ رب جو بھولتا نہیں، جس نے تسلی دی بھی تو ایسی کہ اس کے بعد تسلی کا کوئی بھی لمس روح میں سرسرائے بھی تو کیوں؟ ایک ایسی تسلی جو بتاتی ہے کہ اتنا خالی پن محسوس بھی اس لیے ہوا کہ شاید غلط شخص کو بہت زیادہ دے دیا اور شاید اسی لیے ہمارے کہے گئے ہر ہر لفظ دوسرے کی خاموشی اور بے نیازی پر ایک غیر ضروری داغ بن کے رہ گیا۔ زندگی شاید مصلحت کو سمجھنے کا نام ہے۔ بس ان مصلحتوں کو وقت پر سمجھنا یا اس کے ظہور پذیری کے وقت کا انتظار کرنا ہی آزمائش کہلاتی ہے۔

انسان ایک وسیلہ ہی تو ہے۔ کبھی ہماری خوشیوں کا تو کبھی ہمارے تکلیفوں کا لیکن اگر مرکز وجود کی بجائے رب بن گیا تو وقت کے ساتھ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ خالی پن کوئی بڑا نقصان نہیں تھا، یہ اپنے آپ کو بار بار بڑی اور سچی ذات کی محبت سے بھرنے کا بہترین موقع تھا۔ ہر انسان اپنی اپنی زندگی میں مختلف قسم کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کوئی جیت رہا ہے تو کوئی ہار رہا ہے۔ وقت سب کا ہی امتحان لیتی ہے لیکن اپنی جنگ صبر کی آزمائش پر پورا اتر کر اختتام پذیر ہو تو یقین ہوا جاتا ہے کہ ( ان اللہ مع الصابرین) ۔

پھر معلوم پڑ جاتا ہے کہ یہ صبر آسان نہیں تھا پر ناممکن بھی نہیں۔ یہ ایک سیڑھی ہے، دعا کی، کوشش کی، رب کے بیان پر عمل کی، اس کے کہے پر یقین کی اور سب سے بڑھ کر اس استقامت کی کہ جو آپ کو کبھی کبھی درخت سے گرے ہوئے اس پتے کی طرح بنا دیتی ہے جسے ہوائیں وقت کے دوش پر زمین اور آسمان کے بیچ معلق کر کے رکھ دیتی ہے کہ نہ زمین سے تعلق محسوس ہوتا ہے اور نہ ہی آسمان اپنا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس وقت میں تسلیم کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو شاید وہ وجود رب کی رضا پر خوش ہونے کا فن جان جاتی ہے۔

پھر رویوں میں بہتری بھی ممکن لگتی ہے اور بلا ضرورت کی سوچوں سے چھٹکارا بھی ناممکن نہیں لگتا۔ وہ رب آزماتا ضرور ہے مگر جیت ہمیشہ صابرین اور مستحقین کا ساتھ دے کر ہی رہتی ہے۔ کہ جب رب صبر دیتا ہے تو کسی کے کھونے کا ڈر اس دل میں رہ ہی نہیں پاتا۔ آپ اپنے اندر جتنی زیادہ جگہ اور خالی پن پیدا کر سکتے ہیں تب ہی آپ رب سچے کی محبت کو اندر آنے دے سکتے ہیں اور وہی آپ کو اس طرح سے بھر سکتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور پیاس اپنا احساس ہی کھو دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments