معاشرتی ارتقاء کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں


ملک کی معاشی و انتظامی ترقی اور معاشرتی ارتقاء کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک حقیقی ترقی پذیر ملک ایک ارتقاء پذیر معاشرے کا منتج ہوتا ہے یعنی کوئی بھی ملک ایک حد سے آگے نہیں جاسکتا تاوقتیکہ اس کا معاشرہ بھی وہ اقدار نہ اپنائے جن سے نمو پذیر اثرات مرتب ہوں۔

معاشرے میں پائی جانے والی ہر طرز اس معاشرے کی اجتماعی ترجیحات کا مظہر ہوتی ہے جو اس کا مستقبل متعین کرتی ہے۔ جن معاشروں میں قائدانہ طرز فکر عام ہو وہاں وقت کو شکست دینے کی دوڑ ہوتی ہے، جہاں مسابقت کی طرز غالب ہو وہاں وقت کے ہم آہنگ رہنے کی تگ و دو پائی جاتی ہے جبکہ وقت کی پیچھے پیچھے بھاگنے والے معاشروں میں سوائے احساس کمتری اور اس کے نتیجہ میں محکوم ذہنیت پیداء ہونے کے کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے معاشرے میں اس قدر شکست خوردہ ذہنیت پنپتی ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں کی برائیوں کی نقالی بھی فخریہ کی جاتی ہے جبکہ بھیڑ چال ایک عام طرز بن جاتی ہے جو صرف زوال در زوال کی طرف لے جاتی ہے۔

زوال ایک دن میں رونماء نہیں ہوتا بلکہ یہ وقت کے ساتھ آہستہ آہستہ معاشرے کے رگ و پے میں زہر کی مانند سرایت کرتا ہے اور اکثریت کو بے مقصد ترجیحات کا شکار کر کے کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے۔ تعمیری سوچ بے مقصد اور خود نمائی اہم ہو جاتی ہے جس کے باعث ترقی پسندی اور قائدانہ فکر نہ صرف نظرانداز کی جاتی ہے بلکہ اسے تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں بے عملی اور بے حسی وبائی امراض کی طرح عام ہوتی ہیں۔

ان معاشروں میں اجتماعی مفادات پر انفرادی مفادات غالب آنے لگتے ہیں۔ ہر چیز مادیت کا شکار ہونے لگتی ہے جس وجہ سے نمود و نمائش ترجیح پا لیتی ہے تب اس کی دست برد سے عقیدہ اور مذہب بھی محفوظ نہیں رہتے، ایسے میں مذہب بھی ٹکے پیدا ء کرنے کا سہل اور بہترین ذریعہ بن جاتا ہے یوں بدعقیدگی اور توہم پرستی کا عمومی رجحان بلا تفریق ہوتا ہے۔ علم و منطق کا مزاج ندارد جبکہ افواہوں کے لیے سازگار ماحول دستیاب ہوتا ہے۔ علم علمیت کے بجائے ٹکوں میں تولا جاتا ہے اور قابلیت کوڑیوں کے بھاؤ بکتی ہے۔ عزت کا واحد ذریعہ مال بن جاتا ہے اور مال نہ بنانے والے عمومی بے حسی کے کارن رل جاتے ہیں۔

یہ صورت حال خرابی در خرابی پیداء کرتی ہے جس وجہ سے اصول صرف تحریر اور تقریر تک رہ جاتے ہیں۔ جلد اور زیادہ مال بنانے کے لیے صحیح اور غلط کا تصور معدوم ہوجاتا ہے سو لگن اور محنت احمقانہ صفات تصور کی جانے لگتی ہیں جس کے باعث اجتماعی ترقی کے مزاج کی روح نکل جاتی ہے۔ ایسے میں حقیقی اقدار اور معاشرتی کلید یعنی سچ، دیانتداری اور انصاف گم گشتہ ہو جاتے ہیں تب ہر روز محض ”آج کا دن گزارنے“ کی نظر ہوجاتا ہے اور ملک و معاشرہ تباہی کے اندھے کنویں میں جا گرتا ہے۔ ان حالات میں ترقی کرنے کا تصور ہی نہیں رہتا بلکہ غیر محسوس انداز میں تنزلی کو ”حقیقت“ سمجھ کر قبول کرنا عام ہوجاتا ہے۔

ارتقاء کی طرح زوال بھی ہمیشہ مجموعی ہی ہوا کرتا ہے یعنی اس کا اثر ہر جگہ اور ہر سطح پر کم و بیش لازمی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشرے پر مشتمل ملک بھی سیاسی، انتظامی، معاشی، تعلیمی، ثقافتی، سماجی الغرض ہر لحاظ سے ہر شعبہ میں زوال پذیر ہوجاتا ہے جس کی زندہ مثال ”ملک خداداد“ پاکستان بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں دین دار تو بہت ہیں مگر دین داری ڈھونڈے سے مل جائے تو غنیمت۔ خالص اور ناقص کا جھمیلا یہاں اب اشیاء سے نکل کر افراد اور عقائد تک کو نگل چکا ہے۔ حکومت کی ایوانوں سے لے کر گلی کوچوں تک میں ”خالص“ کی تلاش عام ہے۔

ہماری بے عملی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ہم بلاوجہ اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ ”کچھ نہیں ہوتا، سب چلتا ہے“ لیکن حقیقت میں ایسا ”کچھ نہیں ہوتا“ ۔ سب چلنے کی بھی ایک حد ہے جس کے بعد وہ ہوتا ہے جس کے بعد کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ ہم سب غیر حقیقی طور پر اچھے دنوں کی امید لیے اپنے تئیں بھی کچھ کرنے کو تیار نہیں اور افق پار سے کسی نجات دہندہ کے منتظر ہیں جو بہ یک جنبش ہمارے دلدر دور کرے گا۔ یہ روش جہاں ہمیں ورثے میں ملی ہے وہیں اس شکست خوردہ ذہنیت نے ہماری سوچ کو عمل کے لحاظ سے اس قدر زنگ آلود کر دیا ہے کہ اب اپنے حق کے لیے بھی اٹھ کھڑے ہونا حماقت تصور کیا جاتا ہے۔

ہم جرمنی، جاپان، ایشین ٹائیگرز اور چین کی مثالیں دیتے دیتے اب بھارت اور بنگلہ دیش تک آ گئے مگر آج بھی اوپر سے نیچے تک ہم میں سے کوئی بھی سفر شروع کرنے کو تیار نہیں۔ آج بھی ہم سیاست اور مذہب کے جغادریوں کی ڈفلی پر رقصاں دولے شاہ کے چوہے بنے ہوئے ہیں یا کسی سرکاری ادارے کو نجات دہندہ سمجھنے والے احمق۔ ہم آج بھی نام نہاد ”اسلامی معاشرہ“ ہونے پر نازاں، زرعی ملک ہونے کے وہم میں مبتلا اور پانچ بڑی صنعت میں دنیاء میں اپنا لوہا منوانے کے دہائیوں پرانے سپنے میں غرق ہیں جبکہ پلوں کے نیچے سے پانی بہتے بہتے اب ختم ہونے کو ہے۔ وقت کا دھارا کہیں کا کہیں نکل چکا ہے جبکہ ہم اب احساس زیاں سے بھی یکسر محروم ہوتے جا رہے ہیں۔

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم اگر حقیقت میں اس گرداب سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں مدد کے لیے دوسروں کے طرف دیکھنے سے اجتناب کرنا ہو گا کہ پریشانی میں مبتلا شخص محض دوسروں کے آسرے پر نہیں رہتا۔ ان تمام کھوکھلے بتوں کو زمیں بوس کرنا ہو گا جن کا ”غرور“ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ مسلمانوں کی ماضی کی کامیابیوں کا ہم سے صرف اتنا تعلق ہے کہ ہم بھی ان کی طرح کلمہ گو تھے ورنہ حقیقت میں ہمارا ان سے سماجی یا مزاجی کوئی تعلق نہیں۔ ہم کسی نام نہاد ”نظریاتی ریاست“ میں نہیں بلکہ ایک عام سے ملک میں رہتے ہیں جس کے باشندوں کو اس نظریاتی ریاست کے دیمک نے اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کبھی حقیقی تعمیری اوصاف اپنانے کا سوچیں۔

یہ احمقانہ فخر کہ ہم ایک ”ایٹمی طاقت“ ہیں ہمارے کسی کام کا نہیں، شمالی کوریا بھی اسی خمار میں رینگ رہا ہے جبکہ اگر چین اور امریکہ کا بحیرہ چین کا تنازع کسی پار لگے یا وہ کوریا کے باہمی معاملات سے لاتعلق ہوجائیں تو جنوبی کوریا بغیر کسی فوجی طاقت ہونے کے جب چاہے شمالی کوریا کو روند ڈالے۔ آج جنوبی کوریا ایشین ٹائیگر کے لیبل سے بہت آگے نکل کر دنیاء کا ایک قابل ذکر اور ایشاء کی سربراہی کرنے والے چند میں سے ایک ملک بن چکا ہے جبکہ شمالی کوریا جس کے بیلسٹک مزائل ’نوڈونگ‘ کو مشرف بہ اسلام کر کے پاکستان نے ”غوری“ کا نام دے کے بھارت کو آنکھیں دکھانی شروع کیں وہ آج دنیاء تو کیا ایشیاء میں بھی سوائے چین اور پاکستان کے کسی کے لیے اہمیت نہیں رکھتا۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں بھی اب اس غلط فہمی سے نکل کر سوچنا شروع کرنا چاہیے۔ نوے کی دہائی تک ہر معاملہ میں پاکستان کی طرف دیکھنے والا بنگلہ دیش آج وہاں ہے کہ اب ہم اس کی طرف دیکھ رہے ہے ہیں باوجود یہ کہ اس کے پاس نہ ہماری جتنی بڑی فوج ہے نہ ہی وہ ہماری طرح ایٹمی طاقت ہے۔

ہمیں انفرادی، اجتماعی اور ادارہ جاتی سطح پر اصول پسندی کی کڑوی گولی کو نگلنا ہو گا ورنہ ہم جس سرطان کا شکار ہیں وہ جلد یا بدیر ہمیں فنا کردے گا۔ آفاقی اقدار سچ، دیانتداری اور انصاف کا دوسروں کو درس دینے کے بجائے خود اپنانا ہو گا۔ بے حسی کا خاتمہ کرنا ہو گا کہ یہ اخلاقی تباہی کا نکتہ آغاز ہے۔ اگر ہم نے اس کا آج فیصلہ نہ کیا تو شاید ہم سیاسی و معاشی ہی نہیں خاکم بہ دہن جغرافیائی طور پر بھی نابود ہوجائیں گے تب یہ فوج کے لشکر، اسلحہ کے انبار اور ایٹمی قوت بھی ہمارے کسی کام نہ آئے گی۔ یہ محض خیال یا امکان نہیں دو اور دو چار جیسی اٹل حقیقت ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments