میرا جسم، میری مرضی


صوفیہ جیسے ہی جوس کا گلاس لے کر کمرہ میں داخل ہوئی ٹینا بی بی کو تیار ہوتا دیکھ کر اپنی جگہ رک گئی۔ ان کے قدموں کے قریب رکھا چھوٹا سا سفری بیگ اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا وہ شہر سے باہر جا رہی ہیں اس احساس کے ساتھ ہی صوفیہ کا جسم ہلکا سا لرز گیا اور وہ اپنی لرزش پر قابو پاتے ہوئے دھیرے سے بولی

باجی آپ کہیں جا رہی ہیں؟
ساتھ ہی اس نے ایک نظر ان کے بیڈ کی جانب دیکھا جس پر گتے کے کچھ کارڈز بکھرے پڑے تھے

ہاں سکھر جا رہی ہیں وہاں عورت مارچ کی ایک تقریب ہے تم ذرا یہ سارے پلے کارڈز اٹھا کر اس بیگ میں ڈال دو

بات کرتے کرتے ٹینا نے اپنے پاس رکھا کپڑے کا بیگ صوفیہ کی جانب اچھال دیا جسے تھام کر وہ اپنی جگہ کھڑی کچھ سوچتی رہی۔ جب ٹینا نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پوچھا

کیا بات ہے کیا سوچ رہی ہوں؟ جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے

”جی“
یہ کہہ کر صوفیہ نے بیڈ پر رکھے تمام پلے کارڈز سمیٹے اور ایک بار پھر ٹینا کی جانب دیکھا اور بولی
آپ چلی جائیں گی تو میں گھر پر بالکل تنہا ہو جاؤں گی آج اماں نوری نے بھی نہیں آنا
تنہا؟
اپنے ہونٹوں پر لگی سرخی کو مزید گہرا کرتی ٹینا نے حیرت سے اسے دیکھا اور بھنویں اچکاتے ہوئے بولی

پورا گھر بھرا پڑا ہے مالی، ڈرائیور، خانساماں سب ہی ہیں یہاں تک کہ صاحب بھی گھر ہی ہیں تو بھلا تم کیسے تنہا ہوئیں

صاحب کا نام سنتے ہی جیسے صوفیہ کے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی اور اس نے قابل رحم انداز میں اپنے سامنے کھڑی مالکن کو دیکھا جو سلیو لیس شرٹ کے ساتھ بنا دوپٹہ عورتوں کے حقوق کے احتجاج میں شرکت کے لیے تیار کھڑی اسے دیکھ رہی تھی

مگر وہ سب مرد ہیں اور میں اس گھرمیں تنہا لڑکی ہوں اور۔ ۔ ۔
آگے کچھ کہتے ہوئے صوفیہ کی زبان لڑکھڑا گئی اسے سمجھ نہ آیا وہ اصل بات کس طرح ٹینا بی بی تک پہنچائے

کم ان صوفیہ بہادر بنو میرے ساتھ رہ کر بھی تم اتنی بزدل ہو ویسے بھی کون سا تم آج پہلی بار گھر میں اکیلی رہ رہی ہوں جو اتنا گھبرا رہی ہو

اپنے سیل پر نمبر ملاتی ٹینا اس کے جواب کی منتظر تھی
وہ تو ٹھیک ہے باجی مگر اب میں تھک گئی ہوں

صوفیہ کا انداز تھکا ہوا تھا لیکن اس کی تھکن کا اندازہ غالباً ابھی بھی ٹینا کو نہ ہوا تھا اس لیے اس نے صوفیہ کی ان دیکھی تھکن کو نظرانداز کرتے ہوئے با آواز بلند کہا

تمہاری اماں کو کل ہی پورے سال کی تنخواہ ایڈوانس دی ہے وہ میرے پاس آفس آئی تھی شاید تمہارے گھر کی چھت ٹپک رہی ہے جو مون سون سے پہلے بنوانی ہے تمہاری تھکن کی قیمت تو میں ہر سال ایڈوانس ادا کر دیتی ہوں

ٹینا کی بات بھی درست تھی مگر وہ نہ جانتی تھی کہ جو قیمت وہ صوفیہ کی ماں کو ادا کرتی ہے اس میں صوفیہ کی اس تھکن کی قیمت شامل نہ تھی جس نے صوفیہ کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا

تو پھر آپ ایسا کریں مجھے سکھر جاتے ہوئے ائمہ باجی کے پاس چھوڑ دیں جب آپ واپس آئیں گے تو میں بھی آ جاؤں گی

صوفیہ نے ایک آخری کوشش کے طور پر ٹینا کی اکلوتی بیٹی ائمہ کے پاس جانے کی خواہش کا اظہار کر دیا
”ارے تمہیں وہاں چھوڑ دوں گی تو صاحب کو کھانا کون دے گا؟ تم جانتی تو ہو وہ بھوک کے کتنے کچے ہیں“

صاحب کی بھوک سے تو وہ خوف زدہ تھی کیوں کہ صاحب کے کام اب اس کی پہنچ سے باہر ہو چکے تھے مگر وہ یہ سب کسے کہتی کون تھا جو اس زرخرید لونڈی کی فریاد سنتا وہ کس سے کہتی میرا جسم میری مرضی، اس کی تو کوئی مرضی ہی نہ تھی۔ اسی لمحہ اس نے سوچا ٹینا باجی کو ساری بات بتا دے آخر وہ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی تھیں تو یقیناً ان کے علم میں لانا ضروری تھا کہ ان کے پیچھے گھر میں ان کا بڈھا میاں کون سا گھناؤنا کھیل کھیلتا ہے یہی سوچتے ہوئے صوفیہ نے اپنی ہمت مجتمع کی جبکہ سامنے تیار کھڑی ٹینا پھر سے اپنے چہرے پر میک اپ کی دبیز تہہ جما رہی تھی جب صوفیہ نے اسے مخاطب کیا

باجی مجھے صاحب سے۔ ۔ ۔

اس کا جملہ درمیان میں رہ گیا جب اس کی نظر دروازہ کی چوکھٹ پر کھڑے غفران صاحب کے مکروہ چہرہ پر پڑی جہاں اس وقت بھی خباثت ٹپک رہی تھی اور وہ اس وقت بھی صوفیہ کو تاڑ رہا تھا ایک دم ہی صوفیہ کے جسم میں چیونٹیاں سے رینگنے لگی اور وہ اپنی جگہ پر سمٹ گئی جب غفران کی غلاظت بھری آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی

ڈارلنگ تمہاری گاڑی آ گئی ہے

یقیناً وہ ٹینا بی بی سے مخاطب تھا جو اپنے میاں کا یہ جملہ سنتے ہی قریب رکھا بڑا سا کارڈ اٹھائے باہر نکل گئی تب صوفیہ کی نظر ٹینا بی بی کے ہاتھ میں موجود کارڈ پر پڑی جس پر لکھے الفاظ نے اس کے دل کو دکھ سے بھر دیا

میرا جسم، میری مرضی ”
یہ جملہ پڑھتے ہی صوفیہ کی آنکھیں بھر آئیں جن سے ٹپ، ٹپ گرم اور بے وقعت سیال بہہ کر اس کے گال بھگونے لگا

نفیسہ سعید
Latest posts by نفیسہ سعید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments