برنک مین شپ اور سیاسی بحران


Brimkmanship ایک اصطلاح ہے جس کے اردو میں معنی ہیں تباہی کے دہانے پر خطرناک صورت حاصل کو آگے بڑھانے کی پالیسی اپنانا۔ جہاں پہلے ہی مصیبتوں کے پہاڑ لگے ہوں وہاں مقابلے بازی میں دوسری پارٹیاں ایک دوسرے پر زہر اگلنے کی حد تک الزامات لگاتی ہوں۔ ایک اور تعریف برنک مین شپ کی یہ ہے کہ نا معقول حد تک تبادلانہ خیالات میں محض اپنی کامیابی ڈھونڈنا۔ ان دنوں ہمارے ملک میں یہ ہی صورت حال پنپ رہی ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو اس وقت ہماری سیاسی پارٹیوں کے بیچ جاری ہے۔

اس کا بنیادی تعلق دونوں کیمپوں کے درمیان نفرت، ایک دوسرے پر چڑھائی اور بے احتیاطی دشمنی کی اس راہ پر لے جاتی ہے جہاں نقصان صرف ملک و قوم کا ہوتا ہے۔ برنک مین شپ میں ریاست کو کھینچ کھانچ کر انتہائی خطرناک صورت حال میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ برنک مین شپ وہ جوا ہے جو عوام کو سچ جھوٹ، صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں نفسیاتی حد تک الجھا دیتا ہے۔ ملک کے عوام مہنگائی کی چکی میں اتنا پس چکے ہیں کہ اب اس چکی کے پاٹوں میں سے پاؤڈر کی بجائے عوام کا خون نکل رہا ہے۔

موجودہ حکومت بس الزام تراشیوں کے پتے کھیل رہی ہے۔ مفاہمت کا بادشاہ آصف زرداری اب دوبارہ میدان میں سرگرم عمل دکھائی دے رہے ہیں۔ پچھلے دس گیارہ ماہ سے ملک میں سیاسی استحکام کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان پر 78 مقدمات بنائے جا چکے ہیں۔ توشہ خانہ کیس میں انہیں گرفتار کرنے کی بلاناغہ کوشش کی جا رہی ہیں۔ لگتا ہے عمران خان صاحب اپنے خلاف کیسز میں بھی سینچری ضرور مکمل کریں گے۔

مریم نواز اپنے جلسوں میں سوال اٹھاتی ہے کہ کیا تم سب لوگ اپنے شیر لیڈر کا ساتھ دو گے؟ مزید کہتی ہے کہ عمران خان چوہے کی طرح دبک کر زمان پارک میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ تھوڑی سی دلیری نواز شریف سے ادھار لے لے۔ واہ! کیا کہنے ہیں ان کی دلیری کے ڈیل کر کے دس سال کے لیے سعودیہ چلے گئے۔ مریم نواز نفرت آمیز لہجے میں کہتی ہے کہ میرے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا مجھے پھر بھی دس سال کے لیے نا اہل کیا گیا۔ سوال ہے کہ عہدہ تو اب بھی آپ کے پاس نہیں ہے تو اتنی سیکورٹی اور پروٹوکول کس چکر میں ملتی ہے آپ کو۔ ڈیم والے بابے زحمت نے ایک منشیات زدہ شخص کو قوم پر مسلط کر دیا۔ مریم نواز کہتی ہے کہ آج نواز شریف فخر سے کہہ سکتا ہے کہ مریم میری بیٹی ہے۔ مگر کیا یہ کہہ سکتا ہے کہ ٹیریان وائٹ اس کی بیٹی ہے۔ عمران خان نا اہل تھا۔

یعنی مریم نواز کی پوری تقریر عمران خان سے شروع ہوتی ہے اور عمران خان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس دوران حرام ہے جو مہنگائی اور ملکی مسائل پر کوئی بات کی ہو یا کسی اور قسم کا کوئی نظریہ ہو مادام کا۔ اس کو ملک پر مسلط کرنا کہاں کا انصاف تھا۔ جب اسلام آباد پولیس اسے گرفتار کرنے گئی تو چارپائی کے نیچے چھپ گیا۔ دوسری طرف زرداری صاحب کہہ رہے ہیں کہ اس کو لانے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ پاگل ہے۔ لانے والے تو سب کو باری باری لاتے ہیں۔ 1973 میں بننے والا آئین لاگو ہونے کے بعد آنے والی ہر حکومت نے عوام کے حقوق کی تکمیل کے لیے آئین کے مطابق کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ ریاست کی سب سے پہلی ذمہ داری تعلیم دینا ہے۔

مگر پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ تعلیم اب ایک انڈسٹری بن چکی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا دار و مدار کسانوں، دہقانوں، اور کارخانہ مزدوروں پر ہے۔ لیکن آج ہمارے ملک کی بہترین زرخیز زمین کو کاٹ کر رہائشی سکیمیں بنائی جا رہی ہیں۔ جب تک ہمارے دہقانوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جائے گے ترقی تو دور کی بات ان کے خاندانوں کو روٹی کپڑا اور مکان تک بھی نہیں ملے گا۔ اس وقت ملک سیاسی اور معاشی بحران کی دلدل میں بری طرح سے پھنسا ہوا ہے۔

آئینی طور پر اسمبلیاں تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر اندر الیکشن کرانا ضروری ہوتے ہیں۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان گزشتہ گیارہ ماہ سے عام انتخابات جلد ہونے کا تقاضا کر رہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا ہے مگر ریلی روک دی گئی۔ سیاست اور معیشت کے سمندر میں وہ طوفان ہے کہ یہ کشتیاں مسلسل ہچکولے لیے جا رہی ہیں۔ مگر ارباب اختیار ہیں کہ چھیدوں پر چھید کیے جا رہے ہیں مگر ان سوراخوں کو بند کوئی بھی کرنا نہیں چاہتا۔

اناؤں کے اونچے پہاڑوں نے عوام کی زندگیاں اجیرن کر کے رکھ دی ہیں۔ سیاست بازوں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ مٹی جس سے انسان بنایا گیا اسی میں اس کو جانا ہے۔ اس مٹی میں جب تک دھوپ نہ پڑے نہ فصلیں پکتی ہیں نہ پھل اور پھول۔ جھوٹی اناؤں کے یہی پہاڑ محبت کی دھوپ روکے بیٹھے ہیں۔ اپنے اپنے حصے کا پہاڑ سب کو روز تھوڑا تھوڑا کاٹنا ہو گا تاکہ دھوپ آ سکے۔ موجودہ حالات میں معاشی اور سیاسی بحران ملک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

لیکن تمام اشاریے ذاتیات اور بدلے کی سیاست کے مل رہے ہیں۔ تمام فریقین میں کوئی بھی اپنی اپنی غلطیاں ماننے کو تیار نہیں۔ مفاہمت تو یہ صرف ان سے کرتے ہیں جہاں ان کو فائدہ۔ اگر اب بھی گزری ہوئی سیاسی تاریخ سے نہیں سیکھیں گے تو کب سیکھیں گے؟ جس طرح کہرا فصلوں کو تباہ کرتا ہے۔ سفید موتیا بینائی کو دھندلا دیتا ہے۔ اسی طرح جھوٹی انائیں دشمنی کی حد تک انسانی روح کو تباہ کر دیتی ہیں۔ انصاف ہی انسان کے لیے بہترین انعام ہے۔

ایک دوسرے کو اگر انصاف مہیا نہیں ہو گا تو اسی بھنور میں پھنسے رہیں گے۔ ملک و قوم کے بارے میں اب تو سوچنا شروع کیجیے صاحب! رانا ثنا االلہ نے ایک نجی ٹی وی پر کہا کہ عمران خان ہمارا سیاسی مخالف نہیں بلکہ دشمن ہے۔ جہاں ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کو اپنا دشمن کہے تو پھر پیچھے رہ کیا جاتا ہے۔ برنک مین شپ ہمیں اب بالکل تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments