مریم نواز مسلم لیگ (ن) کے لئے ”سونے کی چڑیا“ ہے


کچھ لوگوں کا خیال تھا مریم نواز اپنے والد کی پارٹی کو منظم، متحد اور چارج نہیں کر سکتی۔ لیکن مریم نواز نے تمام تجزیے، پیشگوئیاں اور دعوے غلط ثابت کر دیے ہیں۔ میں نے بہت پہلے اپنے ایک تجزیے میں کہا تھا مریم نواز مسلم لیگ (ن) کے لئے ”سونے کی چڑیا“ ہے۔ جس کا مسلم لیگ (ن) کو ہر لحاظ سے فائدہ ہی ہے نقصان کوئی نہیں۔ مریم نواز کے متعلق بعض سینئر تجزیہ کاروں کی ایک ہی رائے تھی جب مسلم لیگ (ن) کو مریم نواز کی ضرورت ہوتی ہے تب ان کو فرنٹ لائن پر کھڑے کر دیا جاتا ہے۔

ان پر وقفے وقفے سے سیاست میں آنے کا بھی ایک ٹیگ تھا جس کو اب انہوں نے خود ہی غلط ثابت کر دیا ہے۔ آج سے چار سال قبل جب مسلم لیگ (ن) کو جڑ سے ختم کرنے کی کوششیں پورے زور و شور سے جاری تھیں۔ نواز شریف کی لندن روانگی کے بعد بہت سارے لیگی سپورٹرز بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ اب ہماری پارٹی کا مستقبل کیا ہو گا لیکن ان حالات میں مریم نوازنے والد کی جماعت کو بند گلی سے نکالا، پہلے خود ملک بھر میں جلسے کیے پھر پی ڈی ایم کا وجود عمل میں آیا تو اس کے پلیٹ فارم سے پنجاب، کے پی، بلوچستان، سندھ، گلگت اور کشمیر میں جلسے کیے۔

مریم نواز کی قابلیت کے اعتراض احسن جیسے سینئر سیاستدان بھی معترف تھے۔ میڈیا کے حلقوں اور مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی جانب سے بار بار ایک ہی سوال اٹھایا جاتا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سوشل میڈیا پر توجہ کیوں نہیں دے رہی۔ اب مریم نواز نے سب کا یہ بھی گلہ دور کر دیا ہے۔ جس دن کی مریم نواز لندن سے واپس آئی ہیں مسلم لیگ (ن) کا سوشل میڈیا اور ان کا سپورٹرز بھی چارج ہو گیا ہے۔ اس وقت مریم نواز کا تمام فوکس یوتھ اور خواتین کی طرف ہے کیونکہ پاکستان کے اگلے الیکشن کا فیصلہ ان دونوں کا ووٹ کرے گا جس کے پلڑے میں یوتھ اور خواتین کا ووٹ ہو گا وہ جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔

یوتھ کی ذمہ داریاں مریم نواز نے حنا پرویز بٹ کے سپرد کی ہیں۔ حنا پرویز ہر روز مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ و طالبات سے میٹنگز کر رہی ہیں۔ لیکن وہ فی الحال لاہور تک محدود ہیں ان کو لاہور سے باہر بھی نکلنا چاہیے کیونکہ لاہور سے باہر بھی یونیورسٹیاں اور کالجز ہیں۔ مریم نواز نے نوشین افتخار کو خواتین ونگ پنجاب کی صدر تو بنا دیا ہے جس پر بہت ساری لیگی خواتین کو تحفظات ضرورت ہیں لیکن اب نوشین افتخار کو اپنی قابلیت ثابت کرنا پڑے گی کیونکہ پنجاب کی گیارہ کروڑ آبادی میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔

جبکہ خواتین ونگ لاہور کی صدر سعدیہ تیمور اپنے منفرد انداز سے مریم نواز کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہیں کیونکہ سعدیہ تیمور آج سے نہیں ایک عرصے سے ازخود ہی مریم نواز اور میاں نواز شریف کی سالگرہ کی تقریبات شاہانہ انداز میں منعقد کرتی آ رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے بھی ماڈل ٹاؤن پارٹی سیکرٹریٹ میں سعدیہ تیمور نے جس انداز میں پارٹی آفس کو سجایا اور محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم کلثوم نواز کی قد آور فلیکس آویزاں کی اس پر مریم نواز بھی سعدیہ تیمور کی تعریف کرنے پر مجبور ہو گئیں۔

مریم نواز کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اچھا کام کرنے پر ہر فرد کی دل کھول کر تعریف کرتی ہیں۔ حنا پرویز بٹ، نوشین افتخار اور سعدیہ تیمور کی ذمہ داریاں میرے نزدیک بہت اہم ہیں اب یہ آنے والا وقت بتائے گا وہ اپنی ذمہ داریوں کو کس حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوئی اور مریم نواز کے اعتماد پر پورا اتریں گی یا نہیں۔ چیف آرگنائزر بننے کے بعد مریم نواز کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ ان کا اب پارٹی کے مرد و خواتین کی تفریق ختم کرنے کا وقت شروع ہو گیا ہے۔

گو کہ الیکشن میں خواتین اور یوتھ کا ووٹ بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن الیکشن میں زیادہ ٹکٹس تو مردوں کو ملنے ہیں۔ اگر لیگی امیدوار جیتیں گے تو ہی مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو گی۔ مریم نواز کو اب نواز شریف کی واپسی سے قبل پارٹی کی تنظیم سازی کا ٹاسک بھی مکمل کرنا ہے۔ کیونکہ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ نون کو مارچ تک پارٹی انتخابات کروانے کی آخری وارننگ دی ہے۔ اب اس میں مزید تاخیر نہیں ہو سکتی۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو پنجاب میں جلسے اور دورے کر سکتے ہیں تو مریم نواز کو بھی اب قسم توڑ دینی چاہیے۔

سندھ اور بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان دونوں صوبوں میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ہے بس ان کو تھوڑا سا چارج کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صلاحیت مریم نواز میں ہے۔ جیسے بینظیر بھٹو کو ناہید خان ملی تھیں ایسے مریم نواز کو عظمیٰ بخاری کی شکل میں ایک انتھک خاتون مل گئی ہے۔ عظمیٰ بخاری کا سیاست میں ایک وسیع تجربہ ہے مریم نواز کو ان کی صلاحیتوں اور تجربے سے فائدہ اٹھانے کا اب بھرپور موقع ملے گا۔

مریم نواز نے ایک جارحانہ بیانیہ اپنا ہے جس میں ثاقب نثار اور فیض حمید ان کے پہلے ٹارگٹ ہیں۔ مریم نواز ہر دوسرے دن ان کو ٹکر دے رہی ہیں۔ بینظیر بھٹو گو کہ اپنے وقت کی دلیر وزیر اعظم تھیں لیکن مریم نواز ان سے دو قدم آگے بڑھ چکی ہیں۔ پاکستان میں پہلے کبھی کسی خاتون سیاستدان نے اس لیول کی جارحانہ سیاست نہیں کی تھی جس طرح کی مریم نواز کر رہی ہیں اسی وجہ سے وہ عوام میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ مریم نواز الیکشن تک اب یہی جارحانہ طرز سیاست اپنائیں گئیں۔ کیونکہ عوام کا مزاج بھی اب تبدیل ہو گیا ان کو بزدل لیڈر نہیں دلیر لیڈر پسند ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments