میرے استاد محترم کا دکھ اور ان کی نئی نصیحت


ان سے آج بات کرتے ہوئے پہلی بار احساس ہوا کہ امید دم توڑ چکی ہے۔ یہ کس کی امید ہے۔ شاید میری! یا شاید میرے استاد محترم کی۔ مجھے اک بات کا یقین تھا کہ گر اک ہزار، اک لاکھ، اک کروڑ یا اس سے زیادہ لوگ مایوس ہوجائیں، امید کا دامن چھوڑ دیں تب بھی استاد محترم ان میں شامل نہیں ہوں گے۔ پچھلے 22 برس سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔ پہیوں والی کرسی اور بیڈ کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن ان 22 برس والی مشکل ترین زندگی نے بھی ان کو نا امید نہیں کیا تھا۔

آج جب کئی دنوں، شاید، اک مہینے کے بعد بات ہوئی تو میں نے عرض کی ”سر پاؤں چھونے کے بعد سلام عرض ہے“ ۔ سندھ میں اساتذہ کے پاؤں کو چھونا بابرکت سمجھا جاتا ہے۔ کم از کم جتنا میں جانتا ہوں۔ اور اس میں مسلمان، ہندو، عیسائی یا اور کوئی ذات کا ہونا نہ شاگرد کے لئے نہ ہی استاد کے لئے معنی رکھتا ہے۔

میں نے استاد محترم کو اپنے احوال عرض کیے اور ان سے ان کی طبیعت پوچھی اور پھر اک سوال کے جواب میں کہا ”سر آپ کا ہم پر، گھوٹکی پر بہت بڑا احسان ہے۔ آپ نے اپنے علم، قابلیت، خواب اور عمل۔ سب اس چھوٹے سے شہر کے ہائی اسکول کے لئے وقف کر دیے۔ اور ہزاروں بچوں کو علم کے اور جدت کے وہ دروازے دکھائے، جو اس جاگیردارانہ ماحول میں پنپتے ہوئے اس شہر میں کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی!“ ۔ ”دیکھ احسان میری بات سنو۔ اس وقت استاد بن کر، اپنے دل و دماغ، عقل اور عمل کو یک جا کر کے یہ سارے کام کرنے کا میرا پیشن تھا، جذبہ تھا۔

یہ کام مجھے اطمینان دیتا تھا۔ خوشی ہوتی تھی۔ اپنے خواب کو آپ نوجوانوں کے حوالے سے اتنی جلدی تعمیر ہوتے صرف استاد بن کر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ سچ پوچھو تو پڑھانے کے علاوہ مجھے اور کچھ آتا نہیں تھا۔ ”۔ اپنی صحت کی وجہ سے وہ دیر تک بات نہیں کر سکتے۔ پھر بھی انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھی“ سنو! میں نے غلط کیا، اپنے آپ سے غلط کیا، اپنے بچوں سے غلط کیا، اپنی زندگی کے ساتھ غلط کیا۔ ”“ اور یہ میں سب کچھ اس اپاہج زندگی کے 22 برسوں کی وجہ سے نہیں کہہ رہا! تمہیں پتا ہے میں نے زندگی سے کبھی بھی ہار نہیں مانی تھی۔ میں اس تکالیف کا حوالہ نہیں دے رہا۔ احسان میری بات سمجھنے کی کوشش کرو کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ”جواب میں میں نے صرف“ جی سر! ”کہا۔

”مجھ پر جو تہمتیں، بہتان اور الزام لگائے گئے۔ میری عزت کو تہس نہس کر دیا گیا۔ برسوں تک، دہائیوں تک، جس کو میں درگزر کرتا رہا۔ لیکن مجھے درگزر نہیں کرنا چاہیے تھا۔“

”یہاں کچھ صحیح نہیں ہو گا۔ یہاں، علم، دانش اور اپنے پیشے کی سچائی کی بات کو کوئی نہیں سمجھتا۔ یہ جو حاکم ہیں نہ، یہ جو۔ ہیں نہ۔ یہ ہمیں پاگل اور غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔“ ان کی باتؤں میں اتنی کڑواہٹ اور کرب اس سے پہلے میں نے کبھی بھی محسوس نہیں کیے تھے۔

”دیکھ احسان تم اچھے ہو یا برے، اس بات کو رہنے دو۔ اپنے حساب سے کچھ کرنا چاہتے ہو۔ شاید تھوڑا سا بہتر کرنا چاہتے ہو۔ مت کرو۔ اپنی من مانی بالکل بھی نہیں کرو۔ دیکھو ان سے الجھو مت، ان کی طرح کرو۔ اس ملک کا کوئی بھلا نہیں چاہتا۔ شاید ہم بھی نہیں چاہتے۔ اس لیے جو یہ بڑے دعویدار ہیں نہ ملک کا بھلا چاہنے والے، ہم ان کی آنکھ کا کنکر کیوں بنیں؟ سمجھ رہے ہو نہ میری بات؟ بس! ان کی طرح کرو۔

اور سنو! یہ جو بظاہر تم کو اچھے کام کے لیے بھاشن دیتے ہیں۔ دوغلے ہیں۔ یہ الٹ کہہ رہے ہوتے ہیں، جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، یہ ٹولہ، گروہ۔ ان کے ساتھ ہو جاؤ: ان جیسے بن جاؤ۔ اگر ان جیسا نہیں بن سکتے تو ان کے ساتھ ہو جاؤ۔ ”۔ پھر استاد محترم کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ پھر اپنی بات کو دہراتے ہوئے کہا“ میں نے غلط کیا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ”

یہ ستر کی دہائی کی بات ہے، پچھلی صدی کی۔ میں این۔ ڈی۔ اے۔ وی ہائی اسکول گھوٹکی میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ قومیایا گیا دیانند آریہ سماج ودالیہ ہائی اسکول گھوٹکی کے سندھی ہندوؤں کا بنا ہوا یہ اسکول 1885 میں ہائی اسکول کا درجہ پا چکا تھا۔ آج تک کئی ہزار مسلمان شاگرد اور چند ہزار ہندو شاگرد میٹرک پاس کر کے علم کی روشنی سے منور ہو چکے ہیں۔ اسکول کی جگہ اور بلڈنگ چھوٹی پڑ گئی تو گھوٹکی کے سرکاری باغ (جو گھوٹکی میونسپلٹی کا ہے ) کو تنگ کرتے ہوئے وہاں پر ایک نئی عمارت بنائی گئی۔ اس سرکاری باغ کی زمین کو کس کس نے تنگ کیا، وہ بات رہنے دیتے ہیں نہیں تو معاملہ مذہبی ہو جائے گا۔ اب گھوٹکی کی ہندو پنچایت، آریہ سماج کو وہ پرانی بلڈنگ بڑی منتوں اور ترلے کرنے کے بعد واپس مل گئی ہے۔ جہاں پر اک ودالیہ پبلک اسکول قائم ہے۔

تو میں ستر کی دہائی کے اپنے این ڈی اے وی ہائی اسکول کی بات کر رہا تھا۔ اس دؤر میں استاد محترم اک خاموش انقلاب کی طرح اسکول میں داخل ہوئے تھے، نوجوان استاد بن کر۔ آتے ہی اسکول کی لائبریری سے مٹی کے تہہ ہٹاتے، لائبریری کے انچارج بنے، کتب کا کیٹلاگ (کتب کی تفصیلی فہرست) کو اپڈیٹ/تازہ کیا۔ پھر لائبریری کی کلاس رکھی گئی۔ بچوں کو کتب جاری کیے گئے۔ جب میں ساتویں جماعت میں آیا تو سر کو عرض کی کہ مجھے ’آن بیکمنگ اے مین‘ (On Becoming a man) دی جائے۔ انہوں نے کتاب کے بارے میں مختصر بتایا اور کتاب میرے حوالے کی۔

ہیرالڈ شیووک کی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچوں کی رہنمائی کے لیے لکھی ہوئی کتاب ہے جو 1951 میں چھپی۔ جس میں اس عمر کے مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے کے بارے میں سمجھایا گیا تھا۔ مجھے کم ہی سمجھ میں آئی۔ لیکن اس وقت مجھے اچھی جلد والے، اچھے پیپر پر چھپی کتب بہت ہی پسند تھیں۔ اس کتاب کی جلد، کور کے رنگ اور تصویر بہت پسند آئی تھی۔ جس میں دو لڑکیاں اک نوجوان کو جھانکتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

پھر استاد محترم نے مختلف کتابوں پر بحث و مباحثے بھی شروع کروائے۔ دیکھتے دیکھتے تقاریر کے دلچسپ مقابلے شروع ہو گئے۔ سائنسی لیب فعال ہونے لگی۔ اور بہت سے تدریسی کام ہونے لگے۔ استاد محترم اکیلے نہیں تھے، ان کے ساتھ ہم خیال اساتذہ اور بھی تھے۔ یہ کام کرنے والے زیادہ تر نوجوان اساتذہ، پرانے گھاگ اساتذہ کو کھٹکتے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ بہت سے نوجوان محترم استاد کے ساتھ ہوئے لیے تھے۔ وہ توانائی، تعلیم اور جدت کے محور بن گئے تھے۔

پھر یہ ہوا کے اس وقت کے کچھ سائنسی درسی کتب کو آسان اور سہل زبان میں خاکوں اور تصاویر کے ساتھ، سائیکلو اسٹال کتاب کے صورت میں استاد محترم اور ان کے ساتھی استاد صاحب نے تیار کیا۔ یہ علم کو سمجھ کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش تھی۔ پھر پاکستان کا سیاہ ترین آمر ضیا دؤر بھی شروع ہو چکا تھا۔ لیکن استاد محترم کی کاوشیں جاری رہیں۔

اب ان کو ودالیہ اسکول کی میگزین چھپوانے کی سوجھی! اس کا مواد، تصاویر، ترتیب، سب کام ان کے حوالے تھے۔ اس دؤر میں بلاک پر چھپائی ہوا کرتی تھی۔ کراچی اور کچھ بڑے شہروں میں آف سیٹ پرنٹنگ مشین آ چکی تھیں۔ لیکن اب بھی بلاک چھپائی اکثر ہوتی تھی۔ فوٹوگراف اور مواد کے لیے ڈھائی سو سے بھی اوپر بلاک بنوانا، اور اس سارے کام کے لیے سکھر جانا، پرنٹنگ پریس کے متواتر چکر لگانا ان کے کام تھے۔

سکھر اور گھوٹکی میں 65 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ اس وقت پبلک ٹرانسپورٹ میں زیادہ تر بسیں ہی تھیں اور اکا دکا ویگن بھی شروع ہو چکی تھی۔ استاد محترم دن رات اس کام میں لگے رہے۔ اسکول کے پاس پیسے تو تھے ہی نہیں، اس لیے چندہ کیا گیا تھا۔ اور پھر چور اور شاطر لوگوں نے استاد محترم پر چندے کے پیسوں میں خردبرد کرنے کے الزام بھی لگائے۔ لیکن استاد محترم ان حالات سے گھبرائے بالکل بھی نہیں۔ اور پھر اک دن اسکول کے شاگردوں کے ہاتھ میں میگزین آ گئی! اور وہ شاید واحد میگزین ہے جو اسکول کی تقریباً ایک سو چالیس سالہ تاریخ میں چھپی ہے۔

اک بات تو بتانے سے رہ گئی، وہ تھی استاد محترم کی لکھائی، لکھنے کا انداز، جیسے کوئی خطاط لکھ رہا ہے! ہر اک شاگرد کوشش کرتا کہ جس اسٹائل میں استاد محترم لکھتے تھے، وہ بھی اس طرح لکھے۔ جب وہ کچھ لکھنے بیٹھتے، خاص کر کے تجریدی کہانی تو تھوڑے سے وقت میں پنوں کے دستے بھر جاتے! ادب، سائنس، کتب، تقاریر، علم، تجربے، جدت اور تجریدیت، یہ سب استاد محترم کے گرد گھومتے بھی تھے تو ان کی شخصیت کا حصہ بھی تھے۔ وہ بے پرواہ ہو کر کام کیے جاتے!

انگریزی، سندھی، اردو، سائنس اور ادب ان کو سب آتا تھا۔ اتنی صلاحیت کے باوجود وہ نہ مقابلے کے امتحانات کو سوچتے، نہ ہی افسر شاہی کا حصہ بننے کا خواب دیکھتے۔ کوئی بڑی نوکری، کوئی اور کام اور تو چھوڑیں، ٹیوشن پڑھانے تک سوچتے ہی نہیں تھے۔ اگر کسی کے کہنے پر یا کسی اور مجبوری میں شاگردوں کو اسکول کے بعد پڑھایا بھی تو پیسے نہیں لیتے۔ وہ گھوٹکی میں علمی جدت کی شاید بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے اور وہ بھی بہت اہم!

لیکن آج جب ان سے بات ہوئی، انہوں نے بالکل مختلف اور بالکل واضح پیغام دیا، مجھے نئی نصیحت کی۔ میں ان کی بات کو پھر سے دہرا دیتا ہوں ”دیکھ احسان، مجھے 22 سالہ اپاہج زندگی نے نہیں تھکایا، میری مایوسی اس وجہ سے بالکل بھی نہیں۔ ، تم میری بات سمجھنے کی کوشش کرو، تم سنو، ان جیسے ہو جاؤ۔ یہاں کسی کے خواب کی کوئی اہمیت نہیں، کسی کے خواب کی تعمیر کی کوئی وقعت نہیں۔ اور یہاں اچھائی کی بات کرنا، علم و دانش، فلسفے کی بات کرنا بے وقوفی ہے۔“

میں کئی گھنٹے، استاد محترم سے بات کرنے کے بعد ، بے حس و حرکت بیٹھا رہا! میں کچھ بھی سوچ نہیں رہا تھا شاید۔ بس خاموش تھا۔ پھر سیاستدان، سائنسدان، رفارمسٹ، ادیب، صحافی، کچھ اور لوگ ذہن میں آتے گئے۔ کوئی دار پر چڑھا دیا گیا۔ کوئی غدار ٹھہرا، کچھ کو بے یارو مددگار بھوک اور افلاس کی بھینٹ چڑھایا گیا، کچھ کو مذہبی جنونیوں کے حوالے کیا گیا۔ کوئی راستے میں مارا گیا۔ یہ سب کون تھے؟! وہ تھے، جو نا امید نہیں ہوتے تھے۔ پاکستان کا درد اپنے سینے، خون اور ذہن میں سوار کیے ہوئے تھے۔ مجھے پریشانی ہے کہ استاد محترم کا دکھ، نا امیدی اور نئی نصیحت، نوجوانوں کو کیسے بتاؤں۔ ؟ ان میں تو کئی نوجوان استاد محترم ہیں۔ ان کو کس طرح بتاؤں۔ ”اور اگر ان کو خود ہی معلوم ہو گیا تو؟!“ بس، اس ڈر نے مجھے جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments