اندھے خواب


میری سینٹری الیکٹرک کی دکان ہے۔ گاہک مجھے آرڈر دیتا ہے تو میں خود ہی اسے اس کی سائیٹ پر مال ڈلیور کرتا ہوں مناسب سی دکان ہے محدود سے گاہک اسی لیے عام دکانداروں سے دکانداری کا طریقہ کار قدرے مختلف بھی۔ دکاندار بھی خود اود ڈلیوری بوائے بھی خود محنت مشقت سے اپنا کچن چل رہا ہے اللہ کا شکر ہے ہم پر لیکن سب کا رازق اللہ ہے۔ اللہ جسے چاہے نواز دے اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ وہ مہرباں ہوا چند آرڈر ملے جن میں سے ایک آرڈر پہنچانے کے بعد مزید دو آرڈر پہنچانے جا رہا تھا

کسے معلوم تھا خستہ حال موٹر سائیکل پر گلی گلی آرڈر ڈلیور کرنے والا آنے والے وقت کا بزنس ٹائیکون ہو گا۔ لوگ اس کی اک ملاقات کے لیے درجنوں دن انتظار کریں گے۔ مقدر کے ستارے نے گردش کی پانچ ارب روپے کی انویسٹ کا سوچا گیا۔ ملکی سطح کے بہترین دماغوں کو اکٹھا کیا گیا۔ غریبوں پر ترس اور محب وطن ہونے کے ناتے تمام کاروبار پاکستان میں کرنے کا عظم کیا گیا۔ بیسیوں میٹنگز کے بعد ایک نام خلیفہ سینٹری اینڈ الیکٹرک تجویز کیا گیا۔ اور اس کی فرنچائز ملک بھر میں پھیلانے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ گاہک کو سہولیات کے پیش نظر گاہک پورے ملک میں موجود کسی بھی فرنچائز سے خریدی گئی اشیاء کی پیمنٹ کسی بھی دوسری فرنچائز پر کر سکتا ہے۔

واپسی یا تبدیلی مال کی سہولیات بھی تمام فرنچائز پر موجود ہوگی۔ گاہک نہ صرف گاہک ہو گا وہ اپنی خریداری کی وجہ سے ہماری ٹیم کا حصہ بھی تصور کیا جائے گا۔ ایک ایسا پلان مرتب دیا گیا کہ اسے اپنی خریداری کی وجہ سے سال بعد ڈسکاؤنٹ کی مد میں رقم بھی واپسی کی جائے گی۔ فرنچائز میں کام کرنے والے عملے کا پورا پورا خیال رکھا جائے گا۔ اپنے انداز کا ایک اپنا کاروباری گروپ ہو گا۔ لاہور میں ڈی ایچ اے فیز تھری وائے بلاک میں اس کی مین برانچ کھولی گئی جس کے لیے موجودہ چیف آف آرمی سٹاف موجودہ وزیر اعظم، بیسیوں وزراء اور شوبز کی دنیا کے مشہور و معروف سٹارز کو مدعو کیا گیا تھا۔

جان اللہ کو دینی ہے کے پیش نظر یتیم خانے سے ایک بچے کو افتتاح کے لیے مدعو کیا گیا۔ دعوت عام تھی پانچ ہزار لوگوں کا انتظام تھا۔ ایک مزید فرنچائز ڈی ایچ اے فیز سیون میں اور لاہور میں کل دس برانچز قائم کرنے کے بعد آٹھ برانچز کراچی میں، گو کہ کوئٹہ، راولپنڈی، پشاور سمیت ملک بھر میں اللہ کے ننانوے ناموں کی نسبت ننانوے برانچز کھول دی گئی۔ اللہ کے فضل وکرم سے امید اور اندازے سے زیادہ رزلٹ آنا شروع ہو گیا۔

پیسہ تھا کہ نا جانے سنبھالتے نہ سنبھلتا تھا۔ اپنے کاروبار کو مزید بڑھانے کے لیے مزید سوچ بچار جاری تھی۔ ڈی ایچ اے فیز فائیو سے عسکری الیون سے گزر کر فیز نائین جانا تھا ٹوٹی ہوئی سڑک پر گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق اپنے بزنس کو اپنی ہی نظر لگ گئی موٹر سائیکل پھسلا اور گر گیا پاؤں سے خون نکلنا شروع ہو گیا اک حسیں خواب چکنا چور ہو گیا۔ حکمرانوں کی نا اہلی کی وجہ سے روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے نہ جانے کتنوں کے خواب ٹوٹے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments