عوام کے خلاف پولیس ایکشن: پاکستان میں کشمیر


میں ایک ایسے جملے کی تلاش میں ہوں، جس کو ظالم پڑھے تو کانپ جائے اور مظلوم پڑھے تو راحت محسوس کرے۔

مشکل ہے۔ بہت مشکل ہے۔ کیونکہ جن کو یہ معلوم ہی نہیں کہ مظلوم کیا کیا سہ گیا؟ جو سہ گیا اس کا اثر دل پر رہا یا دماغ پر۔ نہیں معلوم۔

ہم کشمیر کو روتے تھے آج پاکستان کشمیر بن گیا ہم نے نعرے تو بڑے لگائے کشمیر بنے گا پاکستان مگر افسوس آج کل پاکستان کشمیر بنا ہوا ہے نہیں معلوم کس سمت سے ڈالا آ جائے اور اٹھا کر لے جائے حق سچ کے باسیوں پر سامراجی دور چل رہا ہے۔ جہاں پر کسی کو اپنی حق رائے کی آزادی نہیں۔ یہ مجمعوں کی حفاظت کرنے والے پولیس افسر کیوں پبلک پر آنسو گیس اور شیلنگ کر رہے ہیں؟ کیوں یہ پبلک سرونٹ پبلک کے دشمن ہوئے کھڑے ہیں؟ کس نے ان کو اختیار دیا ہے کے پبلک جن کے دیے گئے ٹیکسز سے اس وردی کی ضروریات پوری ہوتی ہیں پرتشدد کریں۔

جنگوں کے دوران بھی جس قوم کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم تھا کہ دیکھو بچوں اور عورتوں کو محفوظ رکھنا کسی معذور پر آنچ نہ آئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد حکمران کیسے حکم دے سکتے ہیں کہ عورتوں اور بچوں کو ہراساں کیا جائے۔ خواتین کے عالمی دن پر خواتین کو ایسا خوبصورت تحفہ دیا گیا کہ ان کے لباس پھاڑ دیے گئے ان پر شیلنگ کی گئی اور اسی گیس ان پر پھینکی گئی گی جس میں سانس لینا دشوار تھا۔ میرا سوال ہے ان تمام حکمرانوں سے کیا وہ اندھے تھے یا وہ کرسی جانے کے خوف سے سب بھول بیٹھے ہیں؟ کیوں انہوں نے اپنے دینی اور مذہبی اخلاقیات سب داؤ پر لگائے ہوئے ہیں صرف کچھ عرصے کی زمینی خدائی کی خاطر جو کہ عارضی ہے کی خاطر اپنی آخرت اجاڑ رہے ہیں۔ اس دنیا سے بالاتر ایک اور عدالت بھی ہے اس عدالت میں کیا منہ دکھائیں گے یہ لوگ۔

علی بلال کے ماں باپ شاید اتنے طاقت ور نہیں کہ اس دنیا میں اپنے بیٹے کی موت کا بدلہ نہ لے سکیں۔ مگر کی آخرت میں وہ ان کا گریبان نہیں پکڑیں گے۔ ظل شاہ (علی بلال) کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کے جسم پر 26 مقامات پر زخموں کے نشانات تھے، نازک اعضا پر بھی زخموں کے نشانات تھے، ڈنڈے لگنے سے کھوپڑی کو نقصان پہنچا، خون دماغ میں جم گیا۔ علی بلال کی موت دماغ میں گہری ضرب آنے کے بعد خون زیادہ بہنے سے ہوئی۔ علی بلال کے جگر اور لبلبہ میں خون جمع ہونا بھی موت کی وجہ بنا، دماغ میں خون جمع ہونے سے علی بلال کا بلڈ پریشر انتہائی کم ہو گیا تھا۔

یہ ہے وہ پبلک جس کے پورٹ سے حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ پبلک سرونٹ پولیس گری تک پہنچانے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ ماؤں بہنوں پر تشدد کرتے ہوئے ان کو یہ کیوں بھول گیا کہ یہ ان کے رکھوالے ہیں؟ یہ امت مسلمہ کے ہی حکمران تھے جن کا کہنا تھا کہ دریائے فرات کے پاس اگر کوئی کتا بھی بھوکا پیاس مر جائے تو میں اس کا جواب دے ہو۔ حاکم وہ ہوتا ہے جیسے پبلک سلیکٹ کرتی ہے اور اگر اسی پبلک کے خلاف عوامی تحفظات کے اداروں کو استعمال کر کے حاکم یہ سمجھے کہ حکومت بھی قائم رہے گی تو یہ بادشاہت نہیں ہے۔

میرے پاکستان کو کشمیر بنانے والوں یہ وطن اس میں رہنے والے ہر باسی کا ہے چاہے وہ سڑک پر بھیک مانگنے والے بھکاری ہو یا دنیا جہان میں پھیلے ہوئے لاکھوں پاکستانیوں کا بھی ہے جو یہاں بیٹھے ہوئے حکمرانوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں جس دن امت مسلمہ کے باسیوں کو صحیح طور پر بیداری کے معنی معلوم ہو گئے تو یہ قوم ظلمت کے گہرے اندھیروں سے اپنا دامن چھڑانا جانتی ہے۔ ارے تم لوگ تو ایک علی بلال ملنگ صفت آدمی کو نہیں برداشت کر پائے اور اگر یہ قوم ایک ہو کر کھڑی ہو گئی تو کیا بنے گا۔

مانا کے اس وقت طاقت اور اختیار غالب ہے مگر اصل طاقت کا سرچشمہ ہمارا پروردگار ہے جس نے اس بیداری کا شعور ہم میں جگایا جو ہمیشہ حق سچ کا ساتھ نبھاتا ہے اور آخری فیصلہ اسی کا ہے۔ یہ حکمران صفت کرداروں کی سیاست عارضی ہے۔

اس سیاسی کھیل میں کسی کی جان لینا اشیاء کی توڑ پھوڑ ’جانی اور مالی نقصان کسی صورت قبول نہیں۔ باطل کا مقدر ہمیشہ مٹنا ہے اور انشاءاللہ باطل مٹ کر ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments