آزادی!


ایک ایسا سوال جو ہر سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان کے ذہن کا ناسور بھی ہے اور مادی ترقی کی بے لگام جہتوں کا نچوڑ بھی۔ ہر دوسرا شخص اس کھوج میں لگا ہوا ہے کہ میں آزاد ہو جاؤں۔ بھوک سے آزاد ہو جاؤں۔ پیٹ کی بھوک، جسم کی بھوک، کام واسنا کی بھوک اور ہر طرح کی پیاس سے آزاد ہو جاؤں۔ فلسفہ آزادی کی کھوج میں سب دھرمی اور ادھرمی ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ دھرمی انسان اس لیے دھرم پاٹ میں لگا ہوا ہے کہ اس عارضی زندگی سے آزادی ملے اور سورگ میں جا کر آرام کرے۔

ادھرمی اس لیے ادھرمی ہے کہ اس کے نزدیک دھرم شخصی آزادی پہ روک لگاتا ہے۔ گھر بیچنے والے کہتے ہیں ہم گھر نہیں آزادی بیچ رہے ہیں، مشکلات، دکھوں اور مصائب سے آزادی آئیں گھر خریدیں اور آزاد ہو جائیں۔ اسی طرح مادی دنیا کی ہر شے چاہے وہ سوئی کا نکا ہو یا لیمبر گینی سب آزادی کے لیے بنا اور بیچ رہے ہیں۔ کوئی غریب ہے امیر ہے آزادی سب کو چاہیے۔ سوچ و فکر رکھنے والے انسان بھی اسی کی کھوج میں ہیں۔ وہ ایسی فکر اور سوچ سے آزادی کی بات کرتے ہیں جو دراصل ان کی اپنی نہیں ہیں اور جن پہ تکیہ کرتے ہوئے وہ کسی اور کی آزادی کا مظہر بن جاتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے لیے بھی مادی دنیا میں رنگا رنگ فلسفوں کا بازار لگا ہوا ہے اور ہر سال کروڑوں روپے اسی مد میں خرچ کیے جاتے ہیں۔ موجودہ مایا جال رچا ہی آزادی کی چھتری کے تلے گیا ہے۔ عورت کو کہا کہ تم آدھے کپڑے پہن کر باہر نکلو گی تو آزاد لگو گی۔ بکنی پہننے والی عورت کو بولڈ کا خطاب دیا گیا۔ مرد کو کہا تم زیادہ پیسہ کماؤ گے تو آزاد ہو جاؤ گے۔ سرمایہ داروں کو لیڈر کہا گیا۔ سائنس دان نے کہا کہ میں بھی انسان کی آزادی کے لیے ریسرچ کر رہا ہوں۔

ہتھیار بنانے والوں نے آزادی کو نیا رنگ عطا کیا۔ لیکن اگر ہم تھوڑا ٹھہر کے دیکھیں تو یہ سب انسان آزادی ڈھونڈ تو رہے ہیں مگر سب دراصل مادے کی ان پرتوں میں قید ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پر آسائش گھر میں بھی سکون نہیں ہے۔ ننگا ہو کر بھی عورت آزاد نہیں ہے اور پیسے کی ریل پیل میں ہونے کے باوجود آپ کسی اور کی آزادی کا تحفظ ہیں۔

ارے بھائی! یہ سارے پیمانے تو ضرورتوں کے ہیں۔ مایا جال میں رہتے ہوئے بھلا بھوک سے آزادی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ پر آسائش ضرورتیں بالآخر ضرورتیں ہی ہیں سو آزادی حاصل کرنے کا راستہ کیسے ہو سکتی ہیں۔ بھئی کھانا آپ کسی ڈھابے سے کھائیں یا میکڈونلڈ سے جانا اسے پیٹ میں ہی ہے اور سواد بس پہلے لقمے تک محدود ہے وہ بھی صرف اوورل کیوٹی کی حد تک۔ مایا جال ضرورت کے حصار میں بنا گیا ہے۔ پیسہ بذات خود ایک زنجیر ہے ایک ایسی زنجیر جو آپ کو پر آسائش ضرورتوں کے پنجرے میں بند کر دیتی ہے۔ آپ مادے کے جتنے دھنی ہیں اتنا ہی آزادی سے دور ہیں۔

دلدلوں پہ کھڑے ہونا اور پھر اپنے پاؤں تلاش کرنا!

بھلا مادے کی پرتوں میں گھسے چلے جانے سے آزادی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ مادے کے بھنور سے نکلنا ہی آزادی ہے۔ مادے کی پرتوں میں لپٹے ہوئے انسان کچھ بھی ہو سکتے ہیں مگر آزاد نہیں ہو سکتے۔ آزادی کی کھوج میں مادے کی دلدل میں دھنستے چلے جانا سب سے بڑا دھوکا ہے فریب ہے دجل ہے۔ مادہ انرجی، نور، روشنی کی بنائی ہوئی ایک ملمع کاری ہے اور کچھ نہیں۔ مادے کی پرتوں سے آزاد ہونا ہی آزادی ہے۔ آپ نے اگر کبھی کہیں دور سے صبح کے وقت یا شام کے وقت کسی پھول کی خوشبو کا آنند لیا ہو تو آپ جان جائیں کہ آزادی کیا ہے۔ خوشبو دراصل آزادی ہے۔ یہ خوشبو پھول کی مادی پرتوں سے آزاد ہو کر آپ تک پہنچی ہے اس لیے اس میں اتنی لبھاہت کشید ہے کہ آپ کی روح میں اتر جاتی ہے۔ اسی خوشبو کو آپ نے بوتل میں بند کر دیا مگر اب اس میں وہ آنند نہیں رہا کیونکہ اب یہ آزاد نہیں ہے یہ کسی اور کی آزادی کا مظہر ہے۔

انسان کا جسم مایاوی ہے اور اس کی آزادی اسی جسم کے بھیتر روشنی، اوورجا کی شکل میں موجود ہے۔ آزادی چاہیے تو مادے کی پرتوں سے نکل کر اپنے بھیتر جھانکنا ہو گا کہ آخر کیوں میں اتنی الجھن میں کیوں ہوں۔ اتنا بھاگ کر جانا کدھر ہے۔ ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں چلے جانے سے سفر تھوڑا ختم ہو جائے گا۔ سفر تو رکنے سے ختم ہو گا۔ منزل کہیں اور نہیں ہے آپ کے بھیتر ہی ہے۔ آپ خود منزل ہیں اور آزادی اس منزل میں پرویش کرنے کا نام ہے۔

اگر آپ ایک سے دوسری منزل کی تلاش میں نکلے رہیں گے وہ بھی کسی اور کی دکھائی ہوئی منزل تو یقیناً آپ آزاد نہیں ہیں اور کبھی کسی منزل نہیں پہنچ پائیں گے۔ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ اپنے لمحے ضائع کر رہے ہیں، بھاگتے چلے جا رہے ہیں جبکہ جانا کہیں بھی نہیں۔ سانس اکھڑا ہوا ہے، خیالوں کا طوفان ہے، خواہشات کے بوجھ تلے دماغ مر رہا ہے اور آپ ہیں کہ بس باولے ہوئے ہیں۔ جو لمحہ میسر ہے کبھی تو اسے ماضی اور مستقبل کے دائروں سے نکال کر جی لیں تو جان جائیں آزادی کیا ہے۔

آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کے خواب دراصل کہیں کسی فلسفے، کسی ضرورت، کسی شخص کے تابع ہیں؟ آپ جو اس لمحے میں دکھی ہیں صرف اس لئے کہ گزر چکے لمحے میں کچھ خراب ہوا تھا جو دراصل آپ کے لیے اب اہم بھی نہیں! کیوں خود کو پنجروں میں قید کیا ہوا ہے۔ کیوں اپنے ساتھ اتنا غیر انسانی سلوک کر رہے ہیں۔ کیوں ایسے پہناوے پہنتے ہیں جو دوسروں کو اچھا دکھنے سے زیادہ کسی کام نہیں، ایسے فلسفے، ایسی تعلیم، ایسے گھر کیوں بناتے ہیں جو دوسروں کو لبھانے کے علاوہ کچھ کار گزار نہیں۔

کوئی لباس کبھی خود کے لیے بھی پہن کر دیکھیں۔ کسی ایسے گھر میں رہیں جس میں صرف آپ رہنا چاہتے ہیں نہ کہ رہتا ہوا دکھانا چاہتے ہیں۔ کچھ تعلیم اپنے لئے بھی حاصل کریں۔ آخر کو یہ مایا جال ہے اور اس میں آپ جو بھی ہیرے کی کان تلاش کر لیں آخر مایا ہے، جھوٹ ہے سب ملمع کاری ہے سوائے اس اوورجا کے اور اس کے جو آپ کے اندر کشید کر دیا گیا ہے!

آزادی مبارک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments