روانڈا اور بلوچستان: خدا وہ وقت نہ لائے


روانڈا براعظم افریقہ کے وسط میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ ملک چاروں جانب سے خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ روانڈا میں دیگر افریقی ممالک کی طرح جنگلی حیاتیات سے بھرے ہوئے جنگلات موجود ہیں۔ روانڈا کے جنگلات کی ایک خوبی یہ ہے کہ دوسرے افریقی ممالک کے بر عکس یہ جنگلات مختلف پہاڑی سلسلوں پر واقع ہیں۔ جنگلات کے اس پہاڑی سلسلے میں 26 دسمبر 1985 کی ایک دھند آلود صبح کو ایک اندوہناک واقع پیش آیا۔ دنیا کی مشہور ماہر جنگلی حیات (پریما ٹولوجسٹ) ڈایان فوسی اپنے کیبن میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔

ان کو گزشتہ رات قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل کی بنیادی وجہ غیر قانونی شکاریوں کے خلاف جنگ اور جدوجہد تھی۔ فوسی 16 جنوری 1932 کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں پیدا ہوئیں۔ فوسی بچپن سے ہی جانوروں سے پیار کرتی تھی۔ اس پیار کا آغاز دس سال کی عمر سے شروع ہوا تھا، جب اس نے سب سے پہلے گولڈ فش پالی۔ 1955 میں اس نے ایک زرعی فام میں ملازمت اختیار کرلی اور وہاں وہ گھوڑوں سے محبت میں مبتلا ہو گئی۔

جانوروں سے اس کی یہ محبت رنگ لائی اور 1963 میں اس نے جنگلی حیات سے بھرپور براعظم افریقہ کا رخ کیا۔ اس کی پہلی منزل کینیا کا شہر نیروبی تھا۔ نیروبی میں اس کی ملاقات اس وقت کے مشہور ہالی ووڈ اداکار ولیم ہولڈن سے ہو گئی۔ ولیم ہولڈن نے اس ایک سفاری گائیڈ فراہم کر دیا جس کے ساتھ فوسی افریقہ کے مختلف ممالک کی سفاری اور جنگلی حیات سے بھرے ہوئے ممالک کی مطالعاتی سیر کرتی رہی۔ آخر کار کانگو میں اس کی ملاقات جارج شیلر سے ہوئی جو ایک سال سے پہاڑی گوریلوں پر تحقیقاتی کام کر رہا تھا۔

جارج شیلر کے ساتھ فوسی پڑوسی ملک روانڈا پہنچی، جہاں پہاڑی گوریلوں کا سب سے بڑا مسکن ہے۔ جارج شیلر نے اس کو بتایا اس علاقے میں گوریلوں کو بے رحمی سے غیر قانونی طور پر شکار کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے جسمانی اعضاء فوری طور پر بہت اونچی قیمتوں پر بک جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ ان کا گوشت بھی کھانے میں بڑا لذیذ ہوتا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں ہاتھوں ہاتھ خرید لیا جاتا ہے۔ ان کے مختلف اعضاء سے دوائیں بھی بنائی جاتی ہیں جو کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت مہنگی فروخت ہوتی ہیں۔

یہ باتیں جان کر فوسی کو بہت افسوس ہوا۔ یہاں سے فوسی کی پہاڑی گوریلوں سے محبت کا آغاز ہوا اور اس نے پہلی دفعہ گھنے جنگل میں آزاد پھرتے ہوئے پہاڑی گوریلوں کو اپنی آنکھ سے دیکھا۔ کچھ عرصے بعد یہ امریکہ واپس لوٹ گئی اور اس نے افریقہ کے سفر کے بارے میں مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنا شروع کر دیا۔ خوش قسمتی سے اس کے مضامین نے قارئین میں مقبولیت حاصل کی۔ اس دوران یہ افریقہ میں بنائے ہوئے اپنے دوستوں سے مسلسل رابطے میں رہی۔

اس کے دل میں یہ خواہش جاگ اٹھی تھی کہ وہ گوریلوں کی زندگی، ان کے عادات و اطوار اور ان کے رہن سہن کے طریقوں پر ریسرچ کرے، ساتھ ساتھ وہ گوریلوں کے غیر قانونی شکار کی روک تھام کا انتظام کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کرنے کا بھی ارادہ رکھتی تھی۔ خوش قسمتی سے اس کے ایک افریقہ میں رہائش پذیر دوست نے اس کے لیے پہاڑی گوریلوں پر ریسرچ کرنے کے لیے فنڈنگ کا انتظام بھی کر دیا۔ فوسی نے اپنی ملازمت کو خیر باد کہا، اپنی تمام جمع پونجی اکٹھا کی اور افریقہ میں مستقل طور پر رہائش اختیار کرنے کے لیے عازم سفر ہوئی۔

روانڈا پہنچ کر اس نے اپنا ٹھکانہ ویرنگا کے پہاڑوں میں بنالیا۔ اس کا کیمپ گھنے جنگل کے اندر بالکل ویران علاقے میں تھا اور نزدیک ترین گاؤں کی آبادی دو گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے گوریلوں کی تلاش میں جنگل کے اندرونی حصوں میں جانا شروع کر دیا۔ آخر کار اس کو گوریلوں کا ایک گروپ نظر آہی گیا اور وہ اس گروپ کی تصویر کشی کرنے میں بھی کامیاب ہو گئی۔ رفتہ رفتہ ڈایان زندگی کے اس نئے تجربے کی عادی ہو گئی اس کا 7 / 10 فٹ کا خیمہ سونے کے کمرے، غسل خانہ اور دفتر کے لیے مخصوص جگہ پر مشتمل تھا۔ کھانا لکڑی سے بنی عمارت میں تیار کیا جاتا تھا، مہینے میں ایک بار وہ اپنی جیپ میں دو گھنٹے کا سفر طے کر کے جاتی تھی تاکہ کچن کے لیے سامان اور روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی کچھ چیزیں خرید سکے۔

یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ ایک تن تنہا امریکی خاتون 60 کی دہائی میں ایک خطرناک اجنبی سرزمین کے گھنے جنگل میں اکیلے چلی گئی اور پھر ایک پہاڑی  جو کئی ہزار فٹ بلند تھی اور پوری طرح گھنے جنگلوں سے ڈھکی ہوئی تھی، وہاں اپنے رہنے کا مسکن بنالیا۔ اس کے اس عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے جانوروں سے کس قدر محبت تھی۔ روانڈاکے ان گھنے جنگلوں میں پہنچنے کے بعد اس نے اپنی ساری زندگی گوریلوں کے مطالعے اور ان کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت کوششیں کرنے میں گزار دی۔

حالانکہ ایک عام امریکی کی نظر میں یہ ایک بالکل نا ممکن بات تھی، کیونکہ عام امریکی گوریلوں کو کنگ کانگ کی طرح بڑا خطرناک اور وحشی جانور سمجھتے تھے۔ فوسی جب پہلی بار روانڈا منتقل ہوئی تو وہاں کے گوریلوں کی آبادی معدوم ہونے کے سنگین خطرے سے دو چار تھی۔ 1981 میں فوسی نے مشہور امریکی رسالے نیشنل جیوگرافک کے لیے گوریلوں کے بارے میں مضمون لکھا۔ یہ مضمون دراصل روانڈا کے جنگلوں میں پائے جانے والے گوریلوں کی زندگی اور ان درپیش خطرات کے بارے میں ایک ریسرچ پیپر تھا۔

اس مضمون کا مرکزی کردار ان کا ایک پالتو گوریلا ڈیجیٹ (digit) تھا جو گمشدہ ہو گیا تھا۔ کہتے ہیں یہ گوریلا غیر قانونی شکار کرنے والے ایک گروہ نے اغوا کر کے مار دیا۔ ڈیجیٹ کے غائب ہونے کے بعد فوسی ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔ اس نے گوریلوں کی حفاظت اور نگرانی کے لیے اس گوریلے کے نام پر ”ڈیجیٹ فنڈ“ قائم کیا۔ جسے اب ”ڈایان فوسی گوریلا فنڈ“ کہا جاتا ہے۔ آج اس فنڈ نے ایک ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس ادارے کے پاس 170 ملازمین ہیں جو روانڈا کی حکومت اور پارک حکام کے ساتھ مل کر جانوروں کے تحفظ اور نگرانی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک نے فوسی کی زندگی اور اس کے کام کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک منی ٹی وی سیریز بھی تیار کروائی۔

دوسری طرف ہمارے ملک پاکستان کی حالت زار ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلی حیات اور جنگلات کا تناسب مقررہ عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ جو بھی جنگلی حیات پاکستان میں پائی جاتی ہے با اثر اشرافیہ اس کو بھی شکار کے نام پر بے دریغ گولیوں سے بھون ڈالتی ہے حد تو یہ ہے کہ ہر سال عالمی سفر طے کرنے والے سائبیریا کے پرندے جن کو مہمان پرندے کہا جاتا ہے جب ہماری سرزمین سے گزرتے ہیں تو ہماری یہی اشرافیہ ان کو بے دریغ شکار کرتی ہے، یہاں تک کہ ٹیلی ویژن کے مشہور اینکر پرسن جو صبح شام اپنے پروگراموں میں انسانیت کا بھاشن دے رہے ہوتے ہیں وہ بھی اپنی فور بائی فور گاڑیوں کے چوڑے چکلے بونٹس پر لاتعداد بندوق کی گولیوں سے گھائل قطار در قطار مردہ پرندے سجائے بڑے فخر سے تصویریں بنوا کر سوشل میڈیا پر شائع کرواتے ہیں۔ روس کے سرد ترین علاقے سائبیریا سے آئے نایاب مہمان پرندوں کو محکمہ وائلڈ لائف کے افسران مبینہ طور پر رشوت کے عوض غیر قانونی طور پر شکار کرنے دیتے ہیں، شکاری ان پرندوں کا مقامی جھیلوں پر پہنچتے ہی شکار کر لیتے ہیں۔

یہ تو رہی جانوروں کی بات ہماری اشرافیہ تو انسانوں کا شکار کرنے سے بھی نہیں چوکتی۔ حال ہی میں بلوچستان کے علاقے بارکھان میں ایک المناک واقعہ پیش آیا اس علاقے کے ایک کنویں سے تین لاشیں برآمد ہوئیں جس میں سے ایک لاش کسی خاتون کی تھی، جس کا چہرہ تیزاب ڈال کر جلا دیا گیا تھا اور ناقابل شناخت تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان افراد کو اس علاقے کے سردار نے مارا ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں اکثر لوگ غائب ہو جاتے ہیں اور پھر مختلف مقامات سے ان کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔

اس وقت بھی بلوچستان کی آبادی سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے جو پاکستان کے باقی صوبوں سے خاصی کم ہے۔ اگر قتل و غارت کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ بلوچستان کی آبادی مزید کمی کا شکار ہو جائے گی۔ میں ذاتی طور پر اس دن سے ڈرتا ہوں کہ جب خدا نہ کرے بین الاقوامی اداروں کو بلوچستان میں انسانوں کی زندگی محفوظ رکھنے کے لیے روانڈا کے گوریلوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مخصوص فنڈ کی طرز پر کوئی بین الاقوامی فنڈ کا ادارہ قائم کرنا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments