پاکستان اور بھارت کے جرمنی کے ساتھ سفارتی تعلقات کا جائزہ


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی سطح پر سفارت کاری کے محاذ پر کامیابی اندرونی سیاسی استحکام اور معاشی طاقت سے مشروط ہوتی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں نے 2021 میں جرمنی کے ساتھ سفارتی تعلقات کی 70 سالہ تقریبات منائی تھیں۔ اس عرصہ میں اگر دونوں ممالک کی سفارت کاری پر نگاہ ڈالیں تو سر جھک جاتا ہے جرمنی دنیا میں پاکستان کا چوتھا اور یورپی یونین میں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ نیز یہ کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دلوانے اور گرے لسٹ سے نکلوانے میں جرمنی کا کردار نمایاں رہا ہے۔

اس لحاظ سے یہ بات سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے کہ جرمنی کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا اور مزید مضبوط تر بنانا پاکستان کے کتنے مفاد میں ہے۔ بدقسمتی سے کوئی حکومت اور ادارہ اس کی اہمیت نہ جان سکا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نومبر 2014 کے بعد سے کسی پاکستانی وزیر اعظم نے جرمنی کا سرکاری دورہ نہیں کیا۔ عالمی فورمز پر سرسری ملاقاتیں ضرور ہوتی رہی ہیں لیکن باضابطہ پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ جرمنی کو 9 سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔

یہی صورتحال وزارت خارجہ کی ہے۔ 8 سال بعد تیرہ اپریل 2021 کو شاہ محمود قریشی نے جرمنی کا دورہ کیا تھا جو ستر سالہ سفارتی تقریبات کا رسمی دورہ تھا۔ اس سے پہلے حنا ربانی نے باضابطہ دورہ جرمنی 2012 میں کیا تھا۔ اکتوبر 2022 میں بلاول بھٹو زرداری نے دورہ کیا تھا۔ گویا 12 سالوں میں صرف تین بار پاکستانی وزرائے خارجہ نے جرمنی کا دورہ کیا۔ سالوں سالوں تک پاکستانی سرکاری اہلکار جرمنی جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا ایک شیڈول دورہ جرمنی تھا لیکن منسوخ ہو گیا تھا۔ بعد میں سننے کو آیا تھا کہ موصوف نے بھارت کے مساوی پروٹوکول اور معاہدوں کی شرط رکھ دی تھی۔ ماضی میں کبھی کسی جرمن چانسلر نے پاکستان کا دورہ کیا؟

ایسی سفارتی کوتاہیوں اور غفلتوں کا نتیجہ پاکستانیوں اور طلباء کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سینکڑوں مسائل سفارت خانوں میں موجود ہیں لیکن حل نہیں ہو رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ سال پاکستانیوں کو برلن میں جرمن وزارت خارجہ کے دفتر کے سامنے احتجاجی بینرز کے ساتھ احتجاج کرنا پڑا تھا۔ جرمنی کو مختلف شعبوں میں سالانہ چار لاکھ ہنر مند کاریگروں کی ضرورت ہے، اس حوالے سے کوئی منظم منصوبہ بندی حکومت پاکستان کی طرف سے سامنے نہیں آئی۔

دوسری طرف جرمنی نے پاکستان کو کتنے مواقع فراہم کیے تھے، یہ دستاویزات اور میڈیا ذرائع سے پتہ چل جاتا ہے۔ سابق حکومت کے دور میں جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے اکتوبر 2018 میں ٹیلی فون پر اور پھر سویٹزرلینڈ میں اکنامک فورم میں ملاقات پر عمران خان کو دورہ جرمنی کی دعوت دی تھی لیکن اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور یوں سفارت کاری کے مواقع ضائع کر دیے گئے تھے۔

اب دوسری طرف پڑوس ملک بھارت کی سفارت کاری پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کرتا پھر رہا ہے۔ گزشتہ سال بھارتی وزیر اعظم نے دو بار جرمنی کا دورہ کیا اور ایک بار جرمن چانسلر کے ساتھ انڈونیشیا میں جی 20 کانفرنس میں سفارتی پینگیں بڑھائیں، یوں ایک سال میں تین جرمن چانسلر سے ملاقاتیں کیں۔ اس سے پہلے سابق جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے کم و بیش تین بار بھاری وفود کے ساتھ بھارت کے سرکاری دورے کیے اور معاہدے کیے تھے۔

جرمن کمپنیوں کے سربراہان ان کے ساتھ تھے۔ فروری 2023 میں جرمن چانسلر اولاف شولس نے جرمنی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹیوز کے ساتھ بھارت کا اپنا پہلا دو روزہ دورہ کیا، معاہدے کیے اور بنگلور میں آئی ٹی کے بھارتی طلباء کے ویزوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت تیس ہزار بھارتی طلباء جرمنی میں زیر تعلیم ہیں جو یورپ میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ جی 20 ممالک کی میزبانی اس وقت بھارت کے پاس ہے اور ستمبر میں نئی دہلی میں سربراہی کانفرنس منعقد ہونی ہے جس میں جی ٹونٹی ممالک سربراہان شریک ہوں گے ۔

ان میں یورپین یونین کی سربراہ کے علاوہ ارجنٹائن، چین، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، امریکہ، ترکی، جنوبی کوریا کے سربراہان شامل ہیں۔ اس کانفرنس کی تیاری کے لئے انہی ممالک کے وزرائے خارجہ اور خزانہ کی میٹنگز آگے پیچھے گزشتہ ہفتوں نئی دہلی میں منعقد ہوئی ہیں۔ یہ جی ٹونٹی ممالک مشترکہ طور پر عالمی اقتصادی پیداوار کے 85 کے مالک ہیں اور دنیا کی دو تہائی آبادی انہی ممالک میں آباد ہے۔ اسی ایک عالمی طاقتور گروپ میں سفارت کاری سے بھارت کیا فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں۔

بھارت کی یہی وہ سفارت کاری ہے جس نے مقبوضہ کشمیر پر 5 اگست 2019 کو شب خون مار کر اس کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا حوصلہ دیا تھا۔ ان حالات میں پاکستان کو جذبات کا لبادہ اتار کر حقیقت پسندی کی دنیا میں واپس لوٹنا ہو گا۔ موجودہ پاکستانی وزیر خارجہ یو این او میں اظہار خیال کے ملنے والے مواقع مسلسل ضائع کرتے جا رہے ہیں۔ ان کو اپنے گھر کی بات کرنی چاہیے۔ اپنے معاشی و اقتصادی مسائل کا حل سوچنا چاہیے اور مسلسل لابنگ اور سفارت کاری کرنی چاہیے جیسا کہ باقی اسلامی ممالک کر رہے ہیں۔ گنتی کے چند اسلامی ممالک کے علاوہ کسی بڑی عالمی طاقت راہنما نے کب پاکستان کا دورہ کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments