ٹائم سلپ


پل کی آخری سیڑھیاں تیزی سے اترتے ہوئے پیر پھسل گیا۔ اضطراری کیفیت میں ریلنگ کو تھامنے کی کوشش نے سیڑھی پر ہی بٹھا دیا۔ سنبھل کر کھڑا ہوا تو پلک جھپکنے میں پورا منظر ہی بدل چکا تھا۔ رات دن میں ڈھل چکی تھی، ٹریفک کا شور بھی غائب تھا۔ سامنے نیم کا درخت اور سنسان سڑک۔ چند گھروں کے سامنے ویسپا اسکوٹر کھڑے تھے۔ جس فٹ پاتھ پر کھڑا تھا اس کے پیچھے ہی کریانہ کی چھوٹی سی دکان تھی۔ جس پر غفار کریانہ اسٹور لکھا تھا۔

سردی کی لہر میری ریڑھ کی ہڈی سے گزر گئی۔ دکان کے اسٹال پر پھڑپھڑاتے اخبار پر نظر پڑی تو چکر آ گیا۔ تاریخ تھی بائیس دسمبر انیس سو بیاسی۔ سر پکڑ کر فٹ پاتھ پر ہی بیٹھ گیا۔ اف خدایا وقت کی ایک جست نے مجھے بیالیس سال پیچھے پہنچا دیا تھا۔ دکاندار نے حیرت سے میرے حلیے پر نظر ڈالی۔ بلیک شرٹ، بلیو جینز جاگرز سے ہوتی ہوئی اس کی نظر میرے ہاتھ میں موبائل فون پر جا ٹکی۔ کون ہو بھائی کہاں سے آئے ہو؟ اس نے الجھے انداز میں پوچھا۔ میں نے جلدی سے موبائل جیب میں ڈالا، خود کو سنبھالتے ہوئے کہا مسافر ہوں رستہ بھول گیا ہوں، ایک گلاس پانی ملے گا؟ پانی کا گلاس لیا ایک ہی سانس میں ختم کر گیا۔

لرزتے قدموں سے کچھ آگے بڑھ کر دائیں جانب مڑ گیا۔ صبح دس گیارہ بجے کا وقت تھا۔ پوری گلی میں سناٹا تھا۔ بائیں ہاتھ پہ پہلا مکان انی کا، دوسرا قاسم کا، تیسرا مکان کس کا تھا یاد نہ آیا، چوتھا یہ پھینکو کا گودام، غضنفر بھائی کا گھر اور اس کے بعد ایک دو منزلہ مکان کا کالا گیٹ۔ گیٹ کے اوپری حصے پر بڑے خانوں والی جالیاں جس پر کپڑا بندھا تھا۔

ایک ایک قدم آگے بڑھنا بھاری ہو گیا کپکپاتے ہاتھوں سے کنڈی سے دروازہ بجایا تو اندر سے ایک شفیق سی آواز ابھری کون؟ میں نے ہکلاتے ہوئے پوچھا ادریس صاحب کا مکان یہی ہے؟ اس سوال پر دروازہ کھلا۔ سامنے آنے والے نے کہا جی فرمائیے میں ہی ادریس حسین حیدر ہوں، آپ کون؟ لفاظ میرے گلے میں اٹک گئے، چاہا کہہ ڈالوں میں وہی ہوں دادا جان جو آپ کا ہاتھ تھام کر مسز انیس خالد اسکول جایا کرتا تھا۔ دادا جان وہی ہوں جو چپکے سے آپ کے اوور کوٹ سے گائے والی ٹافی نکال کر کھا جایا کرتا تھا۔ لیکن صرف اتنا ہی پوچھ سکا کہ کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ بہت طویل مسافت طے کر کے پہنچا ہوں۔ انہوں نے اندر آنے کا اشارہ کیا۔

گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ڈرائنگ روم کا دروازہ تھا۔ اندر داخل ہوا تو بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی پر ایک بچے کی دو تصویریں فریم میں سجی تھیں۔ برابر میں موجود شو کیس پر شارپ کا ٹیپ ریکارڈر پلاسٹک کور میں رکھا ہوا تھا۔ اندر پیلے رنگ کی پولیس کار جگمگا رہی تھی۔ ہاں نیلے رنگ کی ایک گڑیا بھی اپنے بڑے پیکٹ سے باہر جھانک رہی تھی۔ یا خدایا میں اپنے ہی بچپن میں دوبارہ پہنچ چکا تھا۔

جی فرمائیے کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے پھر پوچھا میں نے جواب دیا یوں سمجھ لیجیے آپ کا اپنا ہی ہوں۔ آپ شاید مجھے نہ پہچان پائیں لیکن میں اس گھر کی خوشبو اور اس کے مکینوں سے بہت اچھی طرح واقف ہوں۔ انہوں نے چشمہ لگا کر مجھے پہچاننے کی کی کوشش کی پھر کہنے لگے ”سرد موسم ہے میں آپ کے لیے چائے بنواتا ہوں“ ٹی وی پر رکھی تصویروں کی جانب اشارہ کر کے میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے تو جواب ملا کہ میرے پوتے کی تصویر ہے۔ کل ہی میرا بیٹا اور اس کی فیملی لیبیا سے آئی ہے۔

میری دھڑکن رکنے لگی۔ خون رگوں میں جیسے تھم رہا تھا۔ پوچھا کہ کیا مبشر صاحب سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ اتنی دیر میں ایک سلکی بالوں والا ساڑھے تین سال کا بچہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوا جس کی آنکھوں سے ہی شرارت ٹپک رہی تھی ٹھنکتے ہوئے انداز میں کہہ رہا تھا دادا جان بھائی مجھے گاڑی سے کھیلنے نہیں دے رہا، انہوں نے کہا اچھا ابھی بھائی تم کو دے دے گا جاؤ ابو سے کہو ان سے کوئی ملنے آیا ہے۔ میں بت بنا ساکت رہ گیا

ابو کو دیکھتے ہی ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ آنسوؤں کا گولا گلے میں اٹک گیا۔ بے اختیار گلے لگ گیا۔ وہ تھوڑا پریشان ہوئے تو بات بنا دی کہ میں آپ کا بہت پرانا قرض دار ہوں۔ آپ کی محبتوں کا، شفقت کا، زمانے کے سرد و گرم سے بچانے کا اور قربانیوں کا قرض دار، لیکن میں معذرت چاہتا ہوں میں اس قرض کو اس طرح نہیں چکا پایا جو اس کا حق تھا، ہو سکے تو مجھے معاف کر دیجیے گا، اور پھر تیزی سے پلٹ گیا کہ کہیں جذبات میں میری زبان سے کچھ اور نہ نکل جائے۔

ارے بیٹا بات تو سنو! چائے تو پیتے جاؤ! گیٹ تک پہنچا تو پھر لڑکھڑا گیا۔ ایک جھٹکا لگا تو رات بھیگ چکی تھی۔ موبائل کی اسکرین پر رات بارہ بجے کا وقت تھا۔ تاریخ تھی بارہ مارچ دو ہزار تئیس اور سامنے صائمہ پرائڈ اپارٹمنٹس کا نیون سائن جگمگا رہا تھا۔ میں بوجھل اور تھکے تھکے قدموں سے اپنے فلیٹ کی جانب بڑھ گیا۔ ٹائم سلپ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).