مراد سفر ما بہ انحطاط


انسان کو اس دنیا پر آئے اور تہذیب یافتہ ہوئے ہزاروں برس گزر چکے ہیں، تہذیبی اداروں اور تمدن نوع انسان نے اس دوران کئی عروج و زوال دیکھے، اسی ارض و سماں نے تہذیبوں کو اپنے سینے پر پھلتے پھولتے دیکھا مگر نہ جانے کتنی ایسی تہذیبیں اور تمدن تھے جو اپنے ان مٹ نقوش چھوڑتے ہوئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس صفحہ ہستی سے مٹ گئے مگر ان کی اس تباہی نے آنے والی اولاد آدم پر عقل و حیرت کے کئی دریچے وا کر دیے۔ اگر چہ وہ سمیری تہذیب ہو یا میسوپوٹیمیا کی، وادی سندھ کے گنجان آباد شہر ہوں یا شہرت کی بلندیوں کو چھوتی ہوئی مصری تہذیب، سب نے ہمارے اپنے عہد عروج میں ترقی کی درخشاں مثالیں قائم کیں جو آج بھی حضرت انساں کے لیے مثیل ہیں۔

ایک قلیل عرصہ میں عروج و کمال کی بلندیوں کو سر کرنا اور پھر رفتہ رفتہ اپنے ان مٹ نقوش چھوڑتے ہوئے صفحہ ہستی سے مٹ جانا اہل علم و عقل پر غور و فکر کے کئی دریچے کھول دیتا ہے، کہ ایسے کون کون سے عوامل ہیں ان کے منظر سے غائب ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ تاریخ نے ان تہذیبوں کے بکھرے ہوئے اوراق کو اپنے اندر سمونے کی لاتعداد کوششیں کیں مگر تمام واقعات کو قلم بند نہ کر سکی۔ جو نشانات عبرت اس نے محفوظ کیے وہ آنے والی نسلوں کے لیے سامان عبرت بنے۔ ان سب کا خلاصہ کیا جائے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت انساں نے کبھی بھی اپنی خطاؤں سے سبق حاصل نہیں اور ”خطاؤں کے پتلے“ کا جو لقب اس کو باغ جنت سے ملا تھا اس کو مقدم جانتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا رہا۔

وقت کے تلخ اور سفاک لمحات نے عبرت حاصل کرنے کے کئی مواقع فراہم کیے مگر سب لاحاصل رہے اگر چہ وہ لمحات سقوط بغداد و غرناتا ہوں یا بار بار اجڑتی ہوئی دہلی کے مناظر، بالا کوٹ کے پہاڑوں پر خوں میں لت پت سسکتے ہوئے سید احمد اور شاہ اسماعیل کا جنگ میں تلوار لڑانے کا منظر، جنگ پلاسی ہو یا اغیار کے نرغے میں موجود شیر میسور، 1857 میں دربدر ہوتے ہوئے شاہ ہوں یا 1947 کے بے ساز و سامان مسافروں کے قافلے یا پھر سقوط ڈھاکہ کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے چند سفید پوش۔ قصہ مختصر، ہر اک واقعے نے حضرت انساں کو ہلا کر رکھ دیا اور تدبیر کی نئی جہات پیدا کیں مگر یہ سب عارضی رہا کچھ وقت گزر جانے کے بعد انسان نے دوبارہ اسی روش کو اختیار کیا اور پہلے جیسے نتائج ہی حاصل کیے۔ تاریخ کی اس روداد کو جرمن فلاسفر جارج ہیگل ان الفاظ میں بیان کرتا ہے

”The only thing that we learn from history is that we learn nothing from history“
ترجمہ:
( ہم نے تاریخ سے محض یہی کچھ سیکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ بھی نہیں سیکھا۔ )

جب بھی کسی قوم نے ظلم و جبر کو اپنا شیوا بنایا ہے جلد ہی ذلیل و خوار ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اس کی کرخت مثالیں انقلاب امریکہ ( 1764۔ 1783 ) ، انقلاب فرانس ( 1789۔ 1799 ) اور انقلاب ہیٹی و چین کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یہ کائنات مکافات عمل کی بناء پر قائم ہے کیونکہ ہر عمل کا اک ردعمل ہوتا ہے تشدد کی بنیاد پر زیر کیے ہوئے معاشرے زیادہ دیر زیر نہیں رہتے۔ اگر طاغوت کے نظام کو قائم رکھا جائے تو ہر معاشرے میں مارکس، لینن، سید احمد و شاہ اسماعیل اور، بھگت سنگھ وغیرہ جیسے لوگ پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔ جو فرعون وقت کی سرکوبی کرتے ہوئے سوچ و تدبر کی کئی راہیں ہموار کرتے ہیں پھر اگر ایسے لوگوں کی ذات کو قصوروار ٹھہرایا جائے تو سرا سر غلط ہو گا۔ ان کے ایسے فیصلوں کے پشت پر ہزاروں واقعات ہوتے ہیں۔ جیسا کہ قابل اجمیری کہتے ہیں

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

بیسویں صدی عیسوی میں ہر قوم کے افکار روشن خیال ہوئے ان کی سب سے بڑی وجہ اس صدی کے اہم واقعات ( جنگ عظیم اول و دوم، سامراجی نظام کے بدلتے ہوئے خاکے ) ہیں، ہر واقعے نے سوچ کے زاویے کو یکسر بدل دیا، حاکم و محکوم دونوں نے نئے انداز میں سوچنا شروع کیا جس کے ثمر میں محکوم کو عارضی آزادی تو نصیب ہوئی مگر جلد یہ آزادی ابدی غلامی میں بدلتی ہوئی نظر آئ

اگر تاریخ سے سبق حاصل کر لیا جائے تو مزید تلخ واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں حاکم وقت کا سب سے بڑا ہاتھ ہو سکتا ہے اقوام کے محسن ہی ان کے تاب ناک اور ہیبت ناک مستقبل کے ضامن ہوتے ہیں ہر دور میں انھی معاشروں نے ترقی کی جن ظالم کی سر کوبی اور مظلوم کی دادرسی ہوتی ہے کیونکہ جانبداری اور عدم مساوات کے نتائج بہت بھیانک ہوتے ہیں۔ انہی نتائج کا تجربہ ماضی میں بخوبی ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments