”مشن اقتدار“ اور خون کی ہولی


الزامات، تصادم، خون اور لاشیں۔ یہی سب تو چاہیے ہوتا ہے سیاست کے لیے۔ کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بالکل درست کہا جاتا ہے کیونکہ سیاست میں تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا بہانہ چاہیے اور اس کے لیے کسی موقع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن سب سے منفی رجحان لاشوں پر سیاست کا ہے۔ زندگی قیمتی ہے لیکن یہ زندگی سیاستدانوں کے لیے فقط اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی ہوتی ہے۔ موت کو بھی سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔

طاقت کی کرسی پر پہنچنے کی کشش میں لاشوں پر سیاست چمکانا سیاستدانوں کا دلچسپ ترین مشغلہ ہے۔ لاشوں کو سیاسی استحکام کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ جس کے لیے ان کا باقاعدہ انتخاب کیا جاتا ہے، اور انتخاب کا پیمانہ کبھی مذہب ہوتا ہے، کبھی فرقہ واریت اور کبھی پارٹی ازم کی بنیاد پر ۔ اس کے لیے قتل کو حادثے کا رنگ دینا ہو یا حادثے کو قتل کا ، سیاسی جماعتوں سے بہتر کون جان سکتا ہے کیونکہ کسی بھی چیز کو مطلب کا رنگ اور مرضی کے پہناوے پہنانا ہی تو ان کی مہارت ہے۔ اور مہارت بھی ایسی کہ مرنے والا زندہ ہو جائے تو حیرت کے مارے پھر مر جائے۔

سیاست دان اپنے اپنے پیروکاروں کو قائل کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔ چاہے وہ ماڈل ٹاؤن کا سانحہ ہو، ارشد شریف کی موت ہو یا ظل شاہ کا لرزہ خیز قتل۔ سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں جہاں عدالت بھی خود لگتی ہے اور فیصلے بھی خود ہی سنائے جاتے ہیں۔

موت پر سیاست تو سیاسی جماعتوں کا وتیرہ ہے اور اقتدار کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا لیکن اس ظالم سیاست میں ”قربانی کا بکرا“ سیاستدانوں کی ایک آواز پر لبیک کہنے والے سیاسی کارکن ہی بنتے ہیں جو ایک دو دن کے واویلے اور احتجاج کے بعد گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔ یہی ہوا ظل شاہ کے ساتھ، کہیں ان کی موت کو ٹریفک حادثہ قرار دیا جا رہا ہے تو کہیں پنجاب حکومت کو ذمہ دار، اور اب تحریک انصاف کی ناکامی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

کہیں پولیس کی سرپرستی کا الزام ہے تو کہیں ظلم پر پردے ڈال کر سب بری الذمہ ہیں۔ اپنے اپنے مفادات حاصل کر کے سب اس ظلم کو بھول جائیں گے کیونکہ سیاستدانوں کو تو صرف سہاروں کی تلاش ہے لیکن سکرپٹ رائٹرز اپنے معمولی مفاد کے لیے یہ بھول جاتے ہیں کہ خون ناحق کا حساب کسی دن تو دینا پڑے گا۔ وہ کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی کبھی تماشا دیکھنے والے خود بھی تماشا بن جاتے ہیں۔

سیاست کے لیے کچھ تو چاہیے الزام نہ سہی لاش ہی سہی۔ کہتے ہیں سیاست کی کامیابی کے لیے بھی لاش کی ضرورت ہوتی ہے جس کو سامنے رکھ کر سیاست کی جا سکے۔ اب کی بار وہ لاش ظل شاہ کی تھی۔ گھر والوں کو تو اس کی موت کا غم بھی نہیں منانے دیا گیا بلکہ تعزیت کے لیے لواحقین کو گھر بلایا گیا۔ اپنی سیاست چمکانے کے لیے کارکنوں کی موت کو بھی تماشا بنایا گیا اور تماشا بھی ایسا کہ سب دیکھیں لیکن پیچھے رہ جانے والوں کے غم کا مداوا نہ ہو۔ کارکن تو سیاسی رہنماؤں کے لیے لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں لیکن سیاستدان ان کی موت پر صرف سیاست ہی کرتے ہیں۔ کارکنوں کے چہرے بدلتے ہیں لیکن سیاستدانوں کے کردار وہی رہتے ہیں۔

سیاسی کارکن جماعتوں کے لیے قربانی دیتے ہیں جس کی ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ہر دور میں کارکن تشدد اور ظلم کا نشانہ بنا ہے پھر موت کے منہ میں اتارا گیا ہے۔ کسی نے سیاست کے لیے تشدد کا استعمال کیا تو کسی نے الزامات کا سہارا لیا۔ پھر کبھی لاشوں پر یوم سوگ، کبھی ریلیاں اور پھر نئے سانحے کا انتظار۔ یہی سیاست ہے۔

کارکنوں کی موت کی الجھتی گتھی ایسی ہے کہ سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور سیاست دان ہیں کہ بس تماشا دیکھے جا رہے ہیں۔ جانوں کے نذرانے پیش نہیں کیے جاتے بلکہ جانیں لے لی جاتی ہیں اور پھر ان کو نیا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ لاشوں پر بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جاتی ہے۔ ان زیادتیوں کا حساب کون لے گا؟ کوئی کسی کے غم کا مداوا بھی کرے گا یا صرف اپنا ووٹ بینک بھرے گا؟ مستقبل میں بھی سیاست کے لیے مزید لاشوں کا انتخاب کیا جائے گا؟ یا اس روش سے جان چھڑائی جائے گی؟ اگر یہ انداز نہ بدلا گیا تو ایسے ہی کارکنوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی جاتی رہے گی۔

ظل شاہ کی موت نہ پہلی ہے اور میرے منہ میں خاک، نہ یہ آخری ہوگی۔ کیونکہ نہ سیاستدان بدلیں گے اور نہ ان کا رویہ۔ جھوٹ کے گرم بازار میں موت کا بھی تماشا بنا دیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کی سیاست کا انحصار اسی پر ہے۔ لیکن سیاسی کارکنان کو ضرور بدلنا چاہیے۔ انہیں یہ احساس کرنا چاہیے کہ وہ جس کی خاطر جان دے رہے ہیں، وہ اپنی سیاست تو چمکائیں گے لیکن ان کے جانے کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ یقین نہ آئے تو سیاست کی نذر ہونے والے سیاسی کارکنان کے لواحقین سے جاکر کچھ دیر ملاقات کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments