”اجتماعی ندامت“


توشہ خانہ سے تقریباً ہمارے ہر حکمران کی جانب سے سستے داموںخریدے انتہائی قیمتی تحائف کی تفصیلات عوام کے روبرو آ گئی ہیں۔ ان پر سرسری نگاہ ڈالتے ہوئے میرے ناامید ذہن میں ”ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرہوئے“ والا مصرعہ ہی ابھراہے۔بے چینی سے کوئی ایسا بڑا نام تلاش کرتا رہا جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے اجتناب برتا ہو۔

جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیںانہوں نے سیاست دانوں کی اجتماعی ساکھ کو شدید ضرب لگائی ہے۔ غیر ممالک سے تحائف اگرچہ ہماری حکمران اشرافیہ کے دیگر شراکت داروں کو بھی ملا کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وقتی طور پر باہمی اختلافات نظرانداز کرتے ہوئے تمام سیاستدان یکسو ہو کر یہ مطالبہ کرتے کہ ہماری ”حرص“ تو عیاں ہو گئی۔ ”اس طرف“ کے معاملات پردے میں کیوں رکھے جارہے ہیں۔ اقتدار میں باریاں لینے کے خواہاں اور دائمی اداروں کی سرپرستی کے لئے ہمہ وقت بے قرار سیاستدان مگر یہ سوال اٹھانے سے گریز کریں گے۔ ان کی ڈھیٹ ہڈی اپنی اجتماعی ندامت شاید محسوس ہی نہ کرے۔

اس ضمن میں ان کا حوصلہ بڑھانے کو سوشل میڈیا پر چھائے پرستار بھی ہیں۔ فدویانہ وفاداری کے ہاتھوں مجبور ہوئے منظر عام پر آئی تفصیلات میں سے اپنی پسند کی جزئیات کو نمایاں کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو یاد دلاتے رہے کہ ”تمہارے لیڈر“ نے بھی مال مفت کی بابت بے رحمی دکھانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے بچاری وفاداروں سے ہٹ کر ہمارے ہاں مگر روزمرہ زندگی سے پریشان اور اکتائے نوجوانوں کا عظیم تر ہجوم بھی ہے۔توشہ خانہ سے متعلق تفصیلات ان کے دلوں میں نفرت کی جو آگ بھڑکائیں گی اس کی تپش سوچتے ہوئے جی گھبرا رہا ہے۔

یاد رہے کہ مذکورہ تفصیلات ان دنوں منظر عام پر آئی ہیں جب ”مسلم امہ کی واحد ایٹمی قوت“ ہونے کے زعم میں کئی برسوں سے مبتلا رہا پاکستان گزشتہ دس مہینوں سے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لئے بھکاریوں کی طرح التجائیں کئے چلے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف ابھی تک رضا مند نہیں ہوا۔ مصر ہے کہ بجلی کے نرخ مزید بڑھائے جائیں تاکہ برسوں سے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کا جمع ہوا گردشی قرضہ ادا ہو۔ اس کے علاوہ تقاضہ یہ بھی ہے کہ پاکستان جن ممالک کو اپنے سمندروں سے بھی گہرا دوست یا برادر قرار دیتا ہے وہ ہمارے خسارے کے بجٹ کو ”برقرار“ رکھنے کے لئے خطیر رقم فراہم کرنے کے تحریری وعدے کریں۔دوست اور برادر ممالک کے ترلے منتیں جاری ہیں۔میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کے لئے بجلی کے نرخ مگر ناقابل برداشت حد تک بڑھا دئے گئے ہیں۔ اپریل کے آغاز میں ہمارے لاکھوں گھرانوں کو بجلی کے جو بل آئیں گے انہیں ادا کرنے کے لئے شاید ہمیں اپنی آمدنی کا کم از کم چالیس فی صد حصہ خرچ کرنا پڑے گا۔ عالم یہ ہی رہا تو ماہانہ تیس ہزار وپے کمانے والا بدنصیب بالآخراس دور میں لوٹ جانے کو مجبور محسوس کرے گا جب گھروں کو مٹی کے دئے یا لالٹینوں سے روشن رکھا جاتا تھا۔ کئی گھرانوں میں مارچ کے آغاز ہی سے برقی پنکھوں کا استعمال بھی شروع ہو گیا ہے۔ موسم مزید گرم ہوا تو ان پنکھوں کو بھلا کر قدیم دور کے پنکھوں سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جدید دور کی نعمتوں سے محرومی دلوں میں اشرافیہ کے خلاف ابلتی نفرت کو مزید بھڑکائے گی۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس مگر اس کے تدارک کی کوئی ترکیب موجود ہی نہیں۔

ان کی مدد کو جناتی انگریزی میں معیشت کی گتھیاں سلجھانے والے ماہرین کا ایک گروہ بھی ہے۔ وہ ”ریفارمز“ یا اصلاحات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے آئی ایم ایف کی عائد کردہ شرائط کا دفاع کئے چلے جا رہا ہے۔ہم جاہلوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ معیشت کے بنیادی اصول متقاضی ہیں کہ ہم بجلی کے ایک یونٹ کی وہ قیمت تو ہر صورت ادا کریں جو اسے پیدا کرنے اور ہمارے گھروں تک پہنچانے کے لئے خرچ ہوتی ہے۔ مذکورہ اصول کوCost Recovery کہا جاتا ہے جس سے مفر ناممکن ہے۔

معاشی مبادیات کا ڈھونڈورا پیٹتے ”ماہرین“ میرے اور آپ جیسے جاہلوں کو مگر کبھی یہ نہیں بتائیں گے کہ ہمارے ہاں کم ازکم 40 فی صد بجلی کی کھپت ریکارڈ ہی نہیں ہوتی۔ وہ ”کنڈوں“ کے استعمال سے گھروں میں استعمال کے لئے اچک لی جاتی ہے۔ مجھے اور آپ کے گھروں میں جو بل آتے ہیں وہ چوری ہوئی بجلی کا ”کفارہ“ بھی ادا کرتے ہیں۔”ماہرین“ مگر ”چوری“ کا لفظ استعمال نہیں کرتے۔ اسے ”معصوم“ دکھانے کے لئے Line Losses کا تذکرہ ہوتا ہے۔ لائن لاسز یا چوری کا معیشت کی مبادیات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ یہ بنیادی طورپر حکمرانی یا گورننس سے جڑا معاملہ ہے۔

کنڈے کے استعمال سے بجلی کی چوری روکنے کا سادہ ترین حل یہ تھا کہ کھمبوں پر چڑھائی تاروں سے بجلی کی ترسیل کے بجائے دیگر طریقے اختیار ہوں۔ انگریزی میں اسے Transmission Upgradation  کہا جاتا ہے۔ ہماری کئی حکومتوں نے یہ نظام اپنانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں ورلڈ بینک جیسے اداروں سے آسان شرائط پر قرضوں کے حصول کی کوشش بھی ہوئی۔ ”ماہرین معیشت“ اور حکومتوں میں بیٹھے افراد آپ کو یہ حقیقت کبھی نہیں بتائیں گے کہ ورلڈ بینک نے مطلوبہ نظام کے حصول کے لئے آسان شرائط پر قرض کی خاطر خواہ رقم بھی مختص کی تھی۔ جو رقم مختص ہوئی اس کے استعمال کے منصوبے مگر تیار ہی نہ ہوئے۔ اتوار کے دن معاشی معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ چونکہ مختص ہوئی رقم خرچ کرنے کے لئے منصوبے ہی تیار نہیں ہوئے اس لئے وہ رقم اب ہمیں میسر ہی نہیں۔ تکنیکی زبان میں مختص ہوئی رقم کو خرچ کرنے کے لئے جو مدت طے ہوئی تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔اس کے لئے انگریزی کی ترکیب Lapse استعمال ہوتی ہے۔

توشہ خانہ کی تفصیلات نہایت ڈھٹائی سے عوام کے روبرو لانے والی حکومت ہم بدنصیبوں کو یہ بتانا ضروری کیوں نہیں سمجھتی کہ کون سے برس بجلی کی ترسیل کے متبادل منصوبے مکمل کرنے کے لئے ورلڈ بینک وغیرہ کی جانب سے کتنی رقم کا وعدہ ہوا تھا۔ ہم اس کی جانب سے مختص رقم کو استعمال کیوں نہیں کر پائے۔ اس ضمن میں جو غفلت برتی گئی وہ مجرمانہ ہے۔ اس کے ذمہ داروں کا تعین کون کرے گا؟ ”گڈ گورننس“ سے جڑے اس بنیادی سوال کا جواب فراہم کرنے کے بجائے ہمارے روبرو توشہ خانہ کی تفصیلات پیش کر دی گئی ہیں۔ ہم اس میں الجھ کر بے تحاشہ بنیادی سوالات بھلائے ہوئے ہیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments