پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری اور شکوک و شبہات


ادارہ شماریات کی جانب سے ڈیجیٹل طریقے سے مردم شماری کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مردم شماری کا باقاعدہ آغاز یکم مارچ سے ہوا تاہم اس سے قبل 20 فروری کو خود کار طریقے سے اندراج کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ خود کار طریقے سے اندراج کا سلسلہ 28 فروری تک جاری رہنا تھا۔ تاہم بعد ازاں اس وقت بڑھا دیا گیا تھا اور خود کار طریقہ سے اندراج کے لئے آخری تاریخ 3 مارچ مقرر کی تھی۔ مردم شماری کے لئے شمار کنندگان کو ٹیبلٹس دیے گئے ہیں جن کے ذریعے وہ گھروں پر جا کر معلومات کا اندراج کر رہے ہیں۔

اس سے قبل سال 2017 میں بھی ادارہ شماریات کی جانب سے مردم شماری کرائی گئی تھی جس پر پاکستان کی سیاسی، سماجی تنظیموں اور مذہبی اقلیتوں سمیت مختلف طبقات کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس بنا پر اس مردم شماری کے نتائج روک دیے گئے تھے۔ حکومت نے تحفظات سے بچنے کے لئے مستقبل میں ڈیجیٹل طریقے سے مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔

حکومت نے ڈیجیٹل مردم شماری کے لئے ادارہ شماریات کو مجوزہ فنڈز فراہم کر دیے ہیں تاکہ شمار کنندگان کو ڈیجیٹل ٹولز (ٹیبلٹس، موبائل وغیرہ) فراہم کیے جا سکیں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ڈیجیٹل مردم شماری کے لئے 34 ارب روپے مختص کیے گئے تھے تاکہ مردم شماری کے دوران فنڈز کے حوالے سے کسی قسم کی پریشانی نہ ہو پائے۔ وفاقی حکومت اور ادارہ شماریات کے جانب سے جاری اپ ڈیٹس کے مطابق مردم شماری عمل شفاف انداز میں جاری ہے۔

مگر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور جئے سندھ قومی محاذ کی جانب سے کھلے انداز میں مردم شماری پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے پانچ مارچ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر سندھ کی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تو وزارتوں سے استعفی دے دیا جائے گا۔ ان کے اس بیان کو اگلے روز متعدد اخبارات نے شہ سرخی کے طور پر شائع کیا تھا۔

دوسری جانب سے جئے سندھ قومی محاذ کی جانب سے مردم شماری کے خلاف احتجاج کے لئے باقاعدہ دھرنا دیا گیا ہے اور احتجاجی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرح مذہبی اقلیتوں میں بھی اس مردم شماری کے حوالے سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کی جانب سے شہریوں کو مردم شماری میں حصہ لینے کے لئے راغب کرنے اور مردم شماری کے عمل کی مانیٹرنگ کے رضاکاروں کا نیٹ ورک تشکیل دیا گیا ہے جو تقریباً ہر شہر میں موجود ہیں۔

ان کی جانب سے دیے گئے فیڈ بیک میں بتایا گیا ہے کہ اقلیتی آبادیوں میں مختلف قسم کے فارمز تقسیم کیے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ مردم شماری کے لئے ان فارموں کو پر کر کے شمار کنندگان کو جمع کروایا جائے، یہ عمل انتہائی تشویشناک ہے جب مردم شماری کے لئے اندراج ڈیجیٹل ٹولز (ٹیبلٹس وغیرہ) سے کیا جانا ہے تو پھر یہ فارم کون اور کیوں تقسیم کر رہا ہے؟

مردم شماری کے حوالے سے شکوک شبہات پیدا کرنے میں جہاں دیگر عوامل کارفرما ہیں۔ وہاں حکومتی رویہ اور ادارہ شماریات کی غیر سنجیدگی بھی نمایاں ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے فنڈز تو فراہم کر دیے گئے ہیں۔ مگر شمار کنندگان کو مناسب طریقے سے ٹریننگ نہیں دی گئی جس کا اظہار اندراج کرتے وقت شمار کنندگان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک گھر کے بارے میں معلومات کے اندراج کے لئے چالیس سے پچاس منٹ لگ جاتے ہیں۔

اندراج کا طریقہ کار اس قدر مشکل بنایا گیا ہے کہ باوجود کوشش کے وہ کام جلد مکمل نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی قسم کی شکایت خود کار طریقہ سے اندراج کے حوالے سے بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ خود کار طریقے سے اندراج کے لئے رجسٹریشن اور پاسپورٹ کا حصول خاصا مشکل رہا ہے۔ رجسٹریشن کے بعد 40 سے زائد معلومات کا اندراج اس سے بھی مشکل مرحلہ تھا کیونکہ اس حوالے سے انہیں کسی قسم کی آگاہی نہیں دی گئی، شہریوں کے اس شکوے میں کس قدر سچائی ہے۔

اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود کار طریقہ سے اندراج کا آغاز 20 فروری سے کیا گیا تھا جب کہ اس حوالے سے شہریوں کے آگہی کے لئے میڈیا میں اشتہارات پانچ دن بعد جاری کیے گئے تھے جو کہ 25 فروری کو اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ خود کار طریقہ سے اندراج کا معاملہ جتنا حساس اور ضروری تھا۔ اس کے لئے تو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر باقاعدہ کمپین چلائی جانی چاہیے تھی تاکہ شہری جان سکیں کہ خود کار طریقے سے اندراج کیسے کروایا جا سکتا ہے۔

مگر بدقسمتی کے الیکٹرانک میڈیا (ٹی وی چینلز) پر ایسی کوئی کمپین دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ حسب روایت مردم شماری کے لئے اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں جس پر اساتذہ کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اساتذہ کا کہنا ہے کہ عین اس وقت جب سالانہ امتحانات سر پر ہیں۔ انہیں مردم شماری کے لئے فیلڈ میں بھیج دیا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ وہ طلباء پر توجہ دے پار رہے ہیں اور نہ ہی مردم شماری کے عمل پر کیونکہ مردم شماری کے دوران بھی ان کی توجہ امتحانات کی طرف ہی ہے۔

گلگت بلتستان کی حکومت نے تو اس حوالے سے مردم شماری کے لئے اساتذہ کی ڈیوٹیاں لگانے پر پابندی بھی عائد کر رکھی ہے۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کی جانب جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ تدریس کا عمل سب سے اہم ہے۔ مردم شماری ڈیوٹی سے تدریس کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لئے مردم شماری کے لئے اساتذہ نہیں لگائی جا سکتی ہیں۔ یہ وہ واضح عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات جنم لے چکے ہیں۔ وفاقی حکومت اور ادارہ شماریات کی جانب سے اگر ان شکوک و شبہات کو دور نہ کیا گیا تو اس مردم شماری کے نتائج پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments