زمان پارک تصادم: کیا عمران خان انتخابات سے بھاگ رہے ہیں؟


رات گئے تک زمان پارک لاہور میں پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں کا مقابلہ جاری تھا اور عمران خان بدستور گرفتاری دینے سے گریزاں تھے۔ اسلام آباد کی ایک عدالت کی طرف سے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لئے اسلام آباد پولیس عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی۔ عمران خان خود تو پولیس کا سامنا کرنے سے مسلسل گریز کر رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر اپنے حامیوں سے گھروں سے نکلنے اور ’آزادی کی جنگ‘ کے لئے گرفتاری سمیت ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہونے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔

عمران خان کے اشتعال انگیز ویڈیو پیغامات کے نتیجے میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے مظاہرے کیے اور کاروبار زندگی معطل کرنے کی کوشش کی۔ زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب بھی بڑی تعداد میں پارٹی کارکن جمع ہیں جو ساری شام پولیس کے ساتھ تصادم میں مصروف رہے۔ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے پولیس پر حملے کیے گئے اور ایک رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر آتشیں مواد پر مبنی بم سے حملہ بھی کیا گیا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا یا واٹر کینن سے پانی پھینک کر مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ بعض کارکن عمران خان کے گھر کی چھت سے پولیس پر حملے کرتے رہے ہیں۔ اس تصادم میں ایک ڈی آئی جی سمیت 14 پولیس افسر زخمی ہوئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے تین کارکن بھی مجروح ہوئے ہیں۔ پولیس نے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا ہے۔

تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ حکومت انہیں گرفتار کر کے ہلاک کرنا چاہتی ہے، اسی لئے یہ مزاحمت کی جا رہی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت وقت چاہنے کے باوجود کیا عمران خان کی گرفتاری کے لئے عدالتوں کو ’حکم‘ دے سکتی ہے۔ اسلام آباد پولیس توشہ خانہ کیس میں ایک سیشن جج کے حکم پر عمران خان کو گرفتار کرنے لاہور آئی ہوئی ہے۔ عمران خان کی درخواست ضمانت پر غور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری معطل کرتے ہوئے انہیں 13 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ فاضل ججوں کا کہنا تھا کہ ان پر فرد جرم عائد کرنے کے لئے بلایا جا رہا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ تاہم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم ماننے سے بھی انکار کیا۔ انہوں نے اسلام آباد عدالت میں پیش ہونے کی بجائے لاہور میں احتجاجی ریلی کی قیادت کرنا ضروری سمجھا۔ اسی کے نتیجے میں سیشن کورٹ نے ان کی گرفتاری کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری بحال کرتے ہوئے انہیں 18 مارچ کو پیش ہونے کا حکم دیا۔ لیکن عمران خان اس حکم کی تعمیل سے بھی انکار کر رہے ہیں اور اپنے کارکنوں کی اسٹریٹ پاور کے ذریعے پولیس کا مقابلہ کرنے اور عدالتی احکامات کو مسترد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کی حکمت عملی ناقابل فہم ہے۔ آج سارا دن لاہور میں تماشا لگایا گیا اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی گئی لیکن ریاستی طاقت کا موثر استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو رات گئے تک گرفتار نہیں کیا جا سکا تھا۔ یہ صورت حال پولیس کی ناقص منصوبہ بندی اور نااہلی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی خاص حکمت عملی کے تحت عمران خان اور تحریک انصاف کو یہ ’تماشا‘ لگانے پر ’آمادہ‘ کیا جا رہا ہو۔ تاکہ عمران خان اپنی عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کر لیں اور دیکھ لیں کہ وہ ریاستی اداروں کے مقابلے میں کس حد تک جا سکتے ہیں۔ اسی صورت حال میں سیاسی مخالفین مسلسل عمران خان کی کردار کشی کا اہتمام کر رہے ہیں اور انہیں بزدل لیڈر قرار دیا جا رہا ہے جبکہ تحریک انصاف یہ سمجھ رہی ہے کہ عمران خان گرفتاری سے گریز کر کے خود کو بہت بڑا مقبول لیڈر ثابت کر رہے ہیں۔ حالانکہ قانون اور عدالتی احکامات ماننے سے انکار کی وجہ سے عوام میں عمران خان کی قانون پسندی اور تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی پر سوال بھی اٹھیں گے اور مقبولیت بھی اثرانداز ہوگی۔

پاکستان کی تاریخ میں کسی سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہو گا۔ ماضی کی تاریخ سابقہ حکمرانوں کو جیلوں میں بند کرنے اور مقدموں میں الجھانے کے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ تاہم عمران خان جیسے گرفتاری سے مزاحمت کر رہے ہیں، اسے ان کی ہوشمندانہ سیاست کہنا بے حد مشکل ہے۔ سیاسی طور سے وہ ضرور یہ دعویٰ کرتے رہیں کہ حکومت انہیں راستے سے ہٹانا چاہتی ہے یا انہیں ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے لیکن حقیقت یہی رہے گی کہ عمران خان کو ایک عدالت کے حکم پر گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلکہ سیشن عدالت کے حکم کو اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی تائید بھی حاصل ہے۔ اگر کوئی لیڈر یا شہری ہائی کورٹ کے ججوں کو بھی متعصب اور جانبدار سمجھ کر ان کا حکم ماننے سے انکار کرتا ہے تو فوری طور سے وہ ضرور تماشا لگا سکتا ہے جیسا کہ عمران خان نے آج سارا دن یہ کوشش کر کے دیکھ لیا ہے لیکن طویل المدت منظر نامہ میں وہ خسارے میں ہی رہیں گے۔ عدالتوں پر تنقید کرنا ایک بات ہے لیکن ان کے احکامات کی حکم عدولی کرنے والا لیڈر درحقیقت ایک ایسی قانون شکنی کا راستہ ہموار کر رہا ہوتا ہے جو بے قابو ہو جائے تو ملک میں طویل المدت انارکی و انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔

عمران خان مقبول لیڈر ہیں۔ اب پنجاب کے علاوہ خیبر پختون خوا میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔ انہیں حوصلہ مندی سے مقدموں کا سامنا بھی کرنا چاہیے اور ووٹروں سے رابطہ کرنے کی تیاری بھی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ وہ خود دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ حکومتی پارٹیاں انتخابات سے بھاگ رہی ہیں کیوں کی تحریک انصاف کسی بھی انتخاب میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی۔ تاہم انہوں نے آج جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خود بھی اپنی کامیابی کا بھروسا نہیں ہے، اس لئے وہ حالات خراب کر کے کسی بھی طرح انتخابات سے جان چھڑا نا چاہتے ہیں۔ عمران خان نے خود گرفتاری سے بچنے کے لئے امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنے کی جو کوشش کی ہے، اسے عذر بنا کر الیکشن کمیشن کے لئے انتخابات مؤخر کرنا مشکل نہیں ہو گا۔ آج ہی یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ وزارت دفاع نے واضح کر دیا ہے کہ ملک میں سکیورٹی اور سرحدوں کی صورت حال کی وجہ سے پولنگ کے دوران فوجی دستے فراہم نہیں کیے جا سکتے۔ ان حالات میں اگر سیاسی لیڈر روٹین کی عدالتی کارروائی مکمل کرنے کی بجائے مزاحمت کا طریقہ اختیار کریں گے اور ’عوامی طاقت‘ کے زور پر ملکی قانون اور نظام عدل کو للکارنے کا وتیرہ اختیار کریں گے تو یہ طرزعمل انتخابات کے انعقاد میں نئی مشکلات کھڑی کرے گا۔ عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ واقعی عوام کی رائے سے نیا مینڈیٹ حاصل کر کے ایک حقیقی طاقت ور لیڈر کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں یا مزاحمت اور تصادم کے ذریعے اپنی سیاست اور انتخابات کے انعقاد کو داؤ پر لگانا چاہتے ہیں۔

ملک سنگین معاشی مسائل کے علاوہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔ ان حالات میں ہر محب الوطن لیڈر کو امن و امان قائم کرنے، عوام کو قانون کا احترام کرنے اور ملک میں خیر سگالی کے جذبات کو عام کرنے کے لئے کام کرنا چاہیے۔ عمران خان خراب معاشی حالات کو حکومت وقت کے خلاف سیاسی نعرے کے طور پر تو شوق سے استعمال کرتے ہیں لیکن ایک بڑی پارٹی کے لیڈر کے طور پر ملکی حالات بہتر بنانے میں کردار ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ انہیں یہ ادراک ہونا چاہیے کہ سیاسی حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ اگر چند ماہ بعد انتخابات کے نتیجہ میں عمران خان دوبارہ وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو وہ اس وقت اپنے تئیں شہباز حکومت کے خلاف یا پی ڈی ایم کی سیاست ختم کرنے کے لئے جو کانٹے بو رہے ہیں، وہ خود ان کی اپنی حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بنیں گے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے شروع میں تحریک انصاف کی غیر مقبول معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پی ڈی ایم کی مقبولیت سیاسی طور سے عمران خان کا خاتمہ کر رہی تھی اور تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی آئندہ انتخابات میں ٹکٹ لینے کے لئے دوسری سیاسی جماعتوں سے رجوع کر رہے تھے۔ یہ صورت حال اپریل میں عدم اعتماد کے بعد تبدیل ہوئی تھی جب عمران خان نے ایک جھوٹے پروپیگنڈا کی بنیاد پر عوام میں امریکہ دشمنی کو ہوا دی اور خود کو مقبول لیڈر ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے۔

عین ممکن ہے کہ اس وقت عمران خان واقعی مقبولیت کی معراج پر ہوں لیکن انہیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ سیاسی مقبولیت جیسے آتی ہے، وہ اسی رفتار سے ختم بھی ہوجاتی ہے۔ انہیں ایک ذمہ دار اور قانون پسند لیڈر کے طور پر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ورنہ ان کے طرز عمل سے یہی سمجھا جائے گا کہ انتخابات کا مطالبہ کرنے کے باوجود وہ خود ہی انتخابات سے بھاگ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments