پاکستان، سیاسی افراتفری اور ہم


گزشتہ سال مارچ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ کا اہم موڑ تھا۔ اس کے بعد سماجی اور سیاسی سطح پر بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ یہ کہانی 7 مارچ کی شام، اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید کا ایک مہر بند خط موصول ہونے سے شروع ہوئی تھی لیکن امریکی خط کی یہ کہانی اب تک ختم ہو گئی ہے۔ اس کہانی کا گہرا تعلق ”ووٹ آف نو کانفیڈنس“ سے تھا، جو کامیاب ہو گٰئی۔

گزشتہ سال، بارہ اپریل کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے فوراً بعد ، خان کے لیے عوامی حمایت عروج پر پہنچ گئی۔ اسی طرح، اپنے زوال کے بعد اپنے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران، خان نے فوج سے کہا کہ وہ امریکی مداخلت کا نوٹس لے۔ ایک ہفتہ بعد عوامی احتجاج کی وجہ سے، آئی ایس پی آر، ایک فوجی نگران ادارے نے یہ کہہ کر اپنے موقف کی وضاحت کی کہ اس میں کوئی براہ راست مداخلت نہیں بلکہ ایک سازش تھی۔ مزید برآں، آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں اس بات پر بھی زور دیا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے اور اس لیے فوج کو اس معاملے پر ”غیر جانبدار“ قرار دیا۔

بدقسمتی سے، لفظ ”غیرجانبداری“ نے خان کے ناراض حامیوں کو مطمئن نہیں کیا۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے فوراً بعد ، خان کے حامیوں نے ٹویٹر کو پر لفظ ”#غیر جانبداری“ کو کئی دنوں تک ٹاپ ٹرینڈنگ پر رہا۔ مزید برآں، شدید سیاسی پولرائزیشن کا جائزہ لیتے ہوئے فوج نے ادارے کو ”غیر جانبدار“ رکھنے کے لیے اس معاملے پر عوامی بیانات دینے سے گریز کیا۔ تاہم، کلیدی اور اہم فیصلہ ساز کے طور پر ، ایک ادارے کے طور پر فوج کا تقدس سوشل میڈیا پر ایک گرما گرم بحث بن گیا۔ حالیہ تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی مسلح افواج کو ایک ادارے کے طور پر بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کی وجہ سے اپنے تقدس کے تحفظ کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔

عوامی تحریک، امریکی مداخلت کے بیانیے اور خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ”خان کا لانگ گیم پلان“ شروع ہوا جو بڑے اور چھوٹے شہروں میں یکے بعد دیگرے کامیابی کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی پولرائزیشن کے موجودہ مخلوط حکومت کو للکارتا رہا۔ اس تحریک میں بریک عمران خان کے زخمی ہونے سے آیا۔ اس کے بعد ، پنجاب اسمبلی میں ڈرامہ نو کانفیڈنس کا ڈرامہ سب نے دیکھا۔ اللہ اللہ کر کہ پنجاب اور خیبرپختون خواہ کی اسمبلیاں تحلیل کر دی گئی لیکن پھر انتخاب کی تاریخ نہیں ملی۔ پھر باری آئی عدالت کی، جہاں فیصلہ ہوا کہ پاکستان کے صدر انتخابات کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ بالآخر، الیکشن کی تاریخ بھی مل گئی۔

اب باری آئی، عمران خان کی خود کو صادق اور امین ثابت کرنے کی، جہاں انہیں کئی مقدمات کا سامنا ہے اور ایک گھڑی ان کے گلے میں پھنسی ہڈی بن گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کو 7 مارچ کو طلب کیا تھا، سیشن عدالت نے 6 مارچ کو عمران خان کی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری منسوخی کی درخواست مسترد کی تھی اب عمران خان کی وارنٹ گرفتاری پر اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ نے نمٹا دی تھی۔ لیکن دو دن سے لاہور کا زمان پارک ایک جنگی میدان ہے اور پی ٹی آئی کارکنوں کو خدشہ ہے کہ حکومت ان کے رہنما کو گرفتار کر سکتی ہے۔

اسی صورتحال کے پیش نظر پی ٹی آئی کے کارکنوں زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔ جہاں اب تک وہ کئی بار اسلام آباد پولیس اور لاہور پولیس کو پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ کئی گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی اسلام آباد پولیس زمان پارک سے عمران خان کو اب تک گرفتار نہ کر سکی ہے۔ ساتھ ساتھ، عدالت میں سماعت جاری ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو، سوال ایک ہے پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کے اشتعال انگیز بیانات، سیاسی درجہ حرارت کا مسلسل بڑھنا اور عمران خان کی ممکنہ گرفتاری، کیا رنگ لائے گی؟

یہ سیاسی درجہ حرارت ایسے ہی بڑھتا رہا، حکومت انتخابات سے فرار کی کوشش کرتی رہی، بدترین اکانومی بحران سر پہ کھڑا رہا اور دہشت گردی کا جن قوم کے سر پہ سوار ہوا تو پاکستان کا مستقبل سوچنا آسان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کی فکر کس کو ہے اور کس نے اس ملک کا مستقبل کے بارے میں سو چا ہے؟ بقول راحت اندوری

نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

ملک میں سیاسی افراتفری اب واضح طور پر بڑھ رہی ہے۔ یہ سب گورننس، معیشت، بین الاقوامی سفارت کاری اور اندرونی اور بیرونی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہے۔ قوم کے مفاد میں نہ سہی اپنی جیبیں گرم رکھنے کے لیے سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لانے کوشش کر لیں۔ جمہوری عمل کو نہ صحیح جمہور کا تماشا لگانے کی لیے ہی آگے بڑھیے اور ورکنگ سیاسی ریلیشن شپ کا آغاز کریں اور لوگوں کی بچا لیں تا کہ آپ کا سامان بکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments