ریاست کے اندر ریاست


عمران خان کی گرفتاری کا ڈرامہ جاری ہے۔ پولیس اور رینجر کے اہل کار زمان پارک سے عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔ عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے بعد دوسرا حکم دیا ہے کہ زمان پارک کے خلاف آپریشن کو روک دیا جائے۔ پی ٹی آئی کے ورکر ہاتھوں میں ڈنڈے لئے عمران خان کی حفاظت کے لئے مستعد ہیں۔ پولیس اور رینجر پر پٹرول بم پھینکے گئے، ان پر پتھراؤ کیا گیا جس میں کئی سیکیورٹی اہل کار زخمی ہوئے۔

اگلے روز ٹویٹر اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی کے اہم افراد کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ پنجاب والو کے پی سے مجاہد آرہے ہیں ذرا اپنا بندوبست کرو۔ یہ تک کہا گیا کہ گزشتہ دن آپریشن کے دوران فضا میں ہیلی کاپٹر گھوم رہا تھا، اس لئے ایسی غلطی دوبارہ نہ کی جائے۔ اس کے لئے ہم نے بندوبست کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن جس انداز میں ریاست کی رٹ کو جس طرح چیلنج کر رہے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے جیسے زمان پارک ریاست کے اندر ریاست بن گیا ہو اور اس کی حفاظت کے لئے پی ٹی آئی کے ڈنڈا بردار جتھے نے ہیلی کاپٹر کو فضا میں مارنے تک کا بندوبست کر رکھا ہے۔

جو عمران خان قانون کی عمل داری کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، جو قانون کو بلا امتیاز سب کے لئے یکساں قرار دینے کے حامی ہیں اور جب عدالت سے ان کے حق میں فیصلے صادر ہوتے ہیں اور ان فیصلوں پر ان کے سیاسی مخالفین انگلی اٹھاتے ہیں تو عمران خان اعلان کرتے ہیں کہ ہم عدالتوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن اب ان ہی عدالتوں کی طرف سے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں تو وہ نہ عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور نہ ہی عدالتی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے خود کو قانون کے حوالے کرتے ہیں۔

قانون شکنی اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کی جو مثال عمران خان قائم کر رہے ہیں، اس کے خطرناک اثرات ریاست کے وقار کو مسخ اور رٹ کو بری طرح پامال کریں گے۔ پوری دنیا مختلف سکرینوں پر پاکستان کے بے وقار ہوتے امیج کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ ایک ریاست جب عدالت کو مطلوب ملزم گرفتار کرنے میں ناکام رہتی ہے تو کسی ریاست کے لئے اس سے زیادہ بے حرمتی اور بے توقیری کی بات کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

عمران خان اپنے مقدمات کے سلسلے میں عدالتوں کے بار بار بلانے کے باوجود حاضر نہیں ہوتے اور ان کے وکلاء اور پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما اس کے لئے مختلف قسم کے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ ان کے پاؤں میں پڑے پلستر کو کبھی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اور کبھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔ جب کہ عوامی ریلوں میں نہ ان کی بیماری آڑے آتی ہے اور نہ ہی ان کی جان کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ عمران خان نرگسیت، ضد، انا، ہٹ دھرمی اور تکبر کے اس بلند منصب پر خود کو فائز سمجھتے ہیں جہاں قانون ان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ خود کو ہر طرح کے قانون سے ماورا سمجھتے ہیں اور جس قانون کی بلا امتیاز عمل داری کا وہ درس دیتے نظر آتے ہیں، اس کا اطلاق عمران خان پر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ ان کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اور وہ ملک کے سب سے مقبول سیاست دان ہیں۔

وطن عزیز کی بد قسمتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے جمہوری اداروں کو جس بری طرح سے پامال کر رکھا ہے، سیاست دانوں کو جس بہیمانہ طریقے سے اپنی مٹھی میں قید کر دیا ہے اور سیاست میں مذہب، اپنی مرضی کی حب الوطنی اور سیاست دانوں میں اپنی مرضی کے الیکٹیبلز چاکروں کی جو تخم ریزی کی ہے، اس نے قومی سیاست کو ایک مستقل عدم استحکام سے دوچار کر دیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ جب چاہے کسی کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر مسند نشیں کرے اور جس کو چاہے، اسے عدالتوں اور سازشوں کے ذریعے راندۂ درگاہ بنا دے۔

اس وقت ملک میں جو معاشی تباہی اور سیاسی انتشار نظر آ رہا ہے، اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی وہ پالیسیاں کار فرما ہیں جن کے ذریعے وہ کبھی بلاواسطہ حکومت سنبھال لیتی ہے اور کبھی وہ بالواسطہ حکم رانی کرتی ہے۔ وہ ہر الیکشن میں عوام کے حق رائے دہی کو انجنیئرڈ طریقوں سے پامال کرتی ہے اور انتخابات کے نتیجے میں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرتی ہے۔

عمران خان کی شکل میں ملک و قوم پر جو عجوبہ مسلط کیا گیا تھا، اس کے پونے چار سال کی حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے ملک و قوم کے لئے اس کے خطرناک اثرات اچھی طرح سے دیکھ لئے ہیں۔ وہ جنرل باجوہ جنھوں نے عمران خان کے وزرات عظمیٰ کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کی تھی اور اسے ہر معاملے میں فری ہینڈ دے رکھا تھا، وہ اب عمران خان کو کبھی میر جعفر اور میر صادق نظر آتے ہیں اور کبھی وہ انھیں فرعون قرار دیتے ہیں۔ حالاں کہ عمران خان اپنے وزارت عظمیٰ کے دوران انھیں سب سے بڑے جمہوریت پسند اور قوم کے باپ تک قرار دیتے رہے تھے اور انھیں اس وقت باجوہ میں ہر طرح کی خوبیاں نظر آ رہی تھیں لیکن جب ان کی حکومت ایک آئینی طریقے سے ختم کی گئی تو وہ ان کے سب سے بڑے دشمن کی حیثیت اختیار کر گئے۔

ایک پاکستانی کی حیثیت سے جب میں پاکستان کے سیاسی، معاشی، تزویراتی اور اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر نظر ڈالتا ہوں تو ان میں جتنی بھی خرابیاں ہیں، میں ان سب کی تمام تر ذمہ داری عاقبت نا اندیش اسٹیبلشمنٹ کے خود پسند کرتا دھرتا پر ڈالتا ہوں۔ ان سے نہ ملک کی سرحدوں کی صحیح حفاظت ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ ملک کے سیاسی استحکام، جمہوریت کی بقا اور ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کے لئے کوئی قابل عمل لائحہ عمل پیش کر سکتے ہیں۔

قومی سیاست میں ان کا عمل دخل، سول اداروں میں سربراہوں کی حیثیت سے ان کی تعیناتیاں اور سیاست دانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا کرنے کی ان کی خو اس ملک کی جمہوری بدحالی اور معاشی زبوں حالی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ملک میں سیاسی افراتفری اور انتشار کی آگ بھڑکا کر خود تماشا دیکھنے میں منہمک ہوجاتی ہے اور اپنی بے تدبیری اور بگاڑ کا سارا ملبہ سیاست دانوں کے اوپر ڈال دیتی ہے لیکن اس وقت سوشل میڈیا اور حقائق جانچنے کے جدید طریقوں کی وجہ سے عوام اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں اور عیارانہ پینتروں کو بہ خوبی سمجھ چکے ہیں اور عوام میں ان کا امیج وہ نہیں رہا ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا۔

بات عمران خان کی بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری سے شروع ہوئی تھی لیکن اس کے سرے بھی اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں سے ملتے ہیں۔ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے کسی نہ کسی حلقے میں عمران خان کے لئے نرم گوشہ موجود ہے جو بظاہر عمران خان کے خلاف کیسوں پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ ورنہ اس وقت ملک کی جو معاشی صورت حال ہے، اس میں عمران خان کے دھرنے، ریلیاں اور تقریریں (جن کی بنیاد ہمیشہ جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے ) ملک میں سیاسی انتشار کو بڑھا رہی ہیں اور ظاہر ہے جب ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو گا، سیاست دان سیاسی حریفوں کی بہ جائے ذاتی دشمنوں کی حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اور حکومت متنازعہ ہوجاتی ہے تو ایسے حالات میں اقتصادی اور معاشی استحکام کبھی نہیں آ سکتا۔ معاشی خوش حالی اور اقتصادی ترقی سیاسی استحکام سے مربوط ہے۔

موجودہ ناگفتہ بہ حالات اسٹیبلشمنٹ کے پیدا کردہ ہیں اور اب وہ ہی ان حالات کی بہتری میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہ ظاہر وہ خود کو سیاست سے الگ کرچکے ہیں، یہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک نہایت دانش مندانہ فیصلہ ہے لیکن سیاسی انتشار اور افراتفری کی جو آگ اس نے لگائی ہے، اس کو بجھانے میں اب اسے کردار ادا کرنا چاہیے۔ عمران خان کی قانون شکنی اور اس کے جھوٹے دعوؤں کے خلاف اب قانون کو روبہ عمل لانا چاہیے۔ اسے دوسرے سیاست دانوں کے ساتھ مل بیٹھنے پر آمادہ کرنا چاہیے تاکہ سیاست دان آپس میں مل بیٹھ کے سیاسی مسائل خود حل کریں۔ باہمی مفاہمت سے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کی جائے اور فوج یا عدلیہ پاک و شفاف اور غیر متنازعہ انتخابات کی ضمانت دے کیوں کہ متنازعہ اور غیر شفاف انتخابات ایک نئے انتشار و افتراق کا در وا کریں گے۔

عدالتوں کو بھی آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے میں دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور قابل احترام جج آئین اور قانون کے مطابق جب کسی بھی شخص کے خلاف کوئی فیصلہ صادر کریں، انتظامیہ کو اس کی عمل داری کے لئے فری ہینڈ دیا جائے۔ ریاست کے پاس اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے مطلوبہ قوت موجود ہے اور اسے اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے کسی جتھے اور ہجوم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنا چاہیے ورنہ آج اگر عمران خان اپنے جتھوں کو آڑ بنا کر عدالت کے احکامات کو پاؤں تلے روند رہے ہیں اور زمان پارک کو ریاست کے اندر ریاست بنانے پر بہ ضد ہیں، تو کل دوسرے لوگ بھی اس طرح کے جتھے بنا کر ریاست کی رٹ کو مذاق بناتے رہیں گے اور یوں پاکستان بنانا ری پبلک بن کر پوری دنیا میں تماشا بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments