محمد اقبال: وہ شخص جس کی زمان پارک میں موجودگی پر مخالف عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں


لاہور کے زمان پارک میں گزشتہ چند دنوں میں جو صورتحال بنی اس دوران ایک ایسے شخص کی تصویر بھی وائرل ہو رہی ہے جسے استعمال کر کے عمران خان کے مخالف سرکردہ رہنما بھی ان پر اور ان کی جماعت پر تنقید کر رہے ہیں۔

اس بارے میں سوشل میڈیا ہر بھی بحث جاری ہے اور مخالفین یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے حق میں زمان پارک میں موجود اس شخص کا تعلق ’کالعدم تنظیم سے رہا ہے‘۔

مریم نواز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ایک ’سیاسی جماعت کے بجائے ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر ڈیل‘ کیا جائے۔

جمعہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا کہ وہ حکومت کو مشورہ دیں گی کہ تحریک انصاف کے ساتھ ’سیاسی جماعت کے بجائے ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر ڈیل کرے‘۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’زمان پارک میں دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ زمان پارک میں بیٹھا شخص کالعدم تنظیم کے نمائندوں کی مدد سے ریاست پر حملہ آور ہے۔‘

مریم نواز نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے زمان پارک میں موجود ’دہشت گردوں کی تصاویر‘ بھی دیکھیں ہیں۔

اس سے پہلے اس بارے میں پنجاب کے صوبائی وزیر اطلاعات عامر میر نے ایک اخباری کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ’ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خیبر پختونخوا سے آئے ہیں اور وہ شدت پسند ہیں ایک بندے کا نام آیا ہے جن کا تعلق تحریک نفاذ شریعت محمدی سے رہا ہے اور وہ مولانا صوفی محمد مرحوم کا قریبی ساتھی رہا ہے۔‘

اس بارے میں سوشل میڈیا پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ شخص کون ہے؟

محمد اقبال کون ہیں؟

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے ایک گاؤں فتح پور سے تعلق رکھنے والے یہ شخص محمد اقبال ہیں جو اب پاکستان تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور انھوں نے گزشتہ سال اکتوبر میں سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود کی موجودگی میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا۔

محمد اقبال نے بی بی سی کو اپنی کہانی یوں سنائی کہ وہ تحریک نفاذ شریعت محمدی کا حصہ رہے ہیں اور ’بحیثیت مسلمان‘ وہ اب بھی شریعت کے نفاذ پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق ’میں نے ابتدائی تعلیم مقامی سرکاری سکول سے حاصل کی ہے اور 1985 میں میرے بھائی نے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا کیونکہ ہمارا گھرانہ ایک سیاسی گھرانہ ہے۔‘

ان کے مطابق ’تحریک نفاذ شریعت محمدی کا آغاز 1994 میں ہوا جب مولانا صوفی محمد کی تحریک شروع ہوئی اور میں بھی اس تحریک میں شامل ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے میں تبلیغ کے لیے بھی گیا تھا۔اس تنظیم میں ملاکنڈ ڈویژن سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد جب تنظیم پر پابندی عائد کی گئی تو اس پابندی کی وجہ سے ہمیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ وہ 9 جنوری 2008 میں گرفتار ہوئے تھے اور اس دوران اس علاقے میں جو کچھ ہوتا رہا انھیں نہیں معلوم کیونکہ وہ خود جیل میں تھے۔ اس کے بعد 25 نومبر 2021 کو وہ رہا ہوئے اور 31 دسمبر 2022 کے بلدیاتی انتخاب میں تحصیل میئر کی نشست کے لیےحصہ بھی لیا اور الیکشن کمیشن میں جو دستاویز جمع کیے تھے ان میں پولیس رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں ان کے مطابق ان پر کسی قسم کا کوئی اعتراضات نہیں تھے۔

یہ بھی پڑھیے:

لائیو کوریج: عمران خان کے کیسز اور گرفتاری کا معاملہ

عمران خان کا خوف

’میں نے زمان پارک اتنا گندا اور بدبودار پہلے کبھی نہیں دیکھا‘

ان کے مطابق ’میرا کسی اور تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رہا اور نہ ہی میں کسی ایسی کالعدم تنظیم کا حصہ ہوں۔

’گزشتہ سال یعنی 2022 میں میں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور اس کا مقصد اپنے علاقے کے لیے کام کرنا تھا کیونکہ ہمارا علاقہ بہت پسماندہ ہے اور میں عمران خان کے ویژن کی حمایت کرتا ہوں۔‘

محمد اقبال نے جمعے کو ایک اخباری کانفرنس میں کہا ہے کہ جیل میں گیارہ سال قید کے دوران وہ ایک مرتبہ رہا ہوئے اور انھیں پھر گرفتار کیا گیا اور یہ گرفتاری صرف ٹی این ایس ایم کی وجہ سے تھی نہ کہ کسی اور تنظیم یا سرگرمی کی وجہ سے کی گئی تھی۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا انھیں طالبان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں رہا کیا گیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ 25 نومبر 2021 کو رہا ہوگئے تھے جبکہ جنرل ’فیض حمید نے جو طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے‘ وہ بعد میں شروع ہوئے تھے تو پھر وہ کیسے ان مذاکرات کے نتیجے میں رہا ہوئے ہیں۔

بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا اور افغان طالبان سے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اقبال کا کہنا تھا کہ وہ دو سال سے رہا ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں ان پر کوئی الزام نہیں ہے ’صرف زمان پارک جانے پر میں دہشت گرد بن گیا ہوں۔‘

تحریک نفاذ شریعت محمدی کیا تھی؟

خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن میں مولانا صوفی محمد نے 1992 میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ تحریک ملاکنڈ ڈویژن کے علاقے دیر، سوات ، تھانہ، ملاکنڈ اور درگئی میں زیادہ متحرک رہی اور ان کا مطالبہ شریعت کا نفاذ تھا۔ 1995 – 96 میں اس تحریک نے احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے اور اس دوران پشاور کو سوات سے ملانے والی سڑکوں کو بلاک کر دیا جاتا تھا۔

تحریک نے افغانستان میں طالبان حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا اور 9/11 کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس تحریک سے وابستہ کئی افراد مولانا صوفی محمد کی قیادت میں افغانستان گئے تھے۔

مقامی سطح پر جب تحریک کے سربراہ کے بارے میں رد عمل بڑھا تو صوفی محمد کو افغانستان سے واپسی پر گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس دوران بڑی تعداد میں تحریک کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سابق صدر پرویز مشرف نے سال 2002 میں اس تنظیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ صوفی محمد کو سال 2008 میں اس شرط پر رہا کر دیا گیا تھا کہ وہ کسی پرتشدد تحریک میں شامل نہیں ہوں گے۔ سوات میں جب شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا گیا تو اس وقت ملاکنڈ ڈویژن کے علاقے امام ڈھیری میں اس تحریک کے ہیڈ کوارٹر کو بھی تباہ کر دیا گیا تھا جس کے بعد یہ تحریک بھی دم توڑ گئی تھی۔

صوفی محمد کی 2019 میں وفات ہوگئی تھی۔

’سزا مکمل کرنے والے کو ہر قسم کی مثبت سرگرمی کا حق ہے‘

سوشل میڈیا پر اس بارے میں بحث جاری ہے اور دونوں جانب کے موقف سامنے آئے ہیں جن میں ایک کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی میں ایسے ہی لوگ شامل ہیں جو طالبان یا شدت پسند تنظیموں کے ساتھ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ موقف سامنے آیا ہے کہ قید گزارنے کے بعد کسی کو ماضی کے جرم کی سزا نہیں دی جا سکتی ۔

اس بارے میں مقامی لوگوں سے بھی بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ محمد اقبال کوئی زیادہ معروف شخصیت نہیں ہیں اور وہاں بلدیاتی انتخاب میں آزاد حیثیت سے سامنے آئے تھے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔

سینیئر صحافی محمود جان بابر نے کہا کہ 9/11 کے بعد تحریک اور دیگر لوگ افغانستان بھی گئے تھے جہاں ان پر بمباری ہوئی تھی ان میں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں اور واپس آنے والے افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے لوگ جو ماضی میں کسی بھی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث تھے اور اب وہ توبہ کر کے باقاعدہ ایک سیاسی سرگرمی میں شامل ہیں تو یہ ایک مثبت عمل ہے۔‘

ان کے مطابق ’زمان پارک میں موجود لوگ سیاسی کارکنوں کی حیثیت سے موجود ہیں اور اگر ایسے لوگ جو بظاہر سیاسی کارکن ہیں اور وہ عسکریت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں تو اس کے لیے ریاست نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری عمران خان اور ان کی جماعت پر عائد ہوتی ہے اور اس کے لیے جماعت کو اقدامات کرنے چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی اطلاع کے مطابق زمان پارک میں موجود سیاسی کارکن اپنی جماعت کے احکامات پر وہاں موجود ہیں۔

روزنامہ ڈان کے پشاور میں بیوروچیف علی اکبر کا کہنا تھا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں جب تحریک نفاذ شریعت محمدی کے تحریک شروع ہوئی تو اس وقت اس ریجن سے جس میں سوات، دیر، باجوڑ شامل ہیں، بیشتر لوگ اس تحریک کا حصہ بنے۔ ان میں بعض ایسے لوگ تھے جو اس کی حمایت کرتے تھے اور بعض ایسے تھے جو اس تحریک میں باقاعدہ شریک رہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی اس تحریک میں شامل تھا اور اس میں انھیں گرفتار کیا گیا اور سزا بھی مکمل کی ہے تو ان کے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر ماضی کی سرگرمیوں پر تنقید کی جائے تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی سے بھی مذاکرات اس بنیاد پر کیے گئے کہ وہ اسلحہ پھینک کر عام شہریوں کی طرح زندگی گزاریں گے اور اگر ہم ایسے لوگوں کو طعنے دیں تو پھر یہ لوگ کبھی بھی مثبت سرگرمیوں میں شامل نہیں ہو سکیں گے ۔‘

پشاور میں سنو ٹی وی کے بیورو چیف صفی محسود نے کہا کہ اگر کوئی کسی جرم میں ملوث رہا ہے اور اس نے اس کی سزا مکمل کر لی ہے تو پھر ایسے شخص کو ہر قسم کی مثبت سرگرمی کا حق حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32548 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments