سیاسی مقبولیت کے دعوے اور قومی تقاضے


عمران خان کا دعویٰ ہے کہ عوامی مقبولیت کا گھوڑا ان کے پاس ہے اور وہ انتخابی دوڑ کے لئے تیار مخالف گھڑ سواروں کو للکار رہے ہیں اگر دم ہے تو آؤ میدان میں۔ اس مقبولیت کے گھوڑے کو سدھارنے والوں کی تھپکیاں بھی ان کے ساتھ ہیں اور ریس کورس کی انتظامیہ بھی با امر مجبوری تیاری میں لگی ہوئی ہے۔ ریفری بھی عمران خاں کی جیت کے اشارے دے رہے ہیں اس طرح ایک لحاظ سے ان کے اول آنے کا پورا بندوبست ان کو دکھایا جا رہا ہے۔

دوڑ کی تاریخ بھی طے ہو چکی ہے مگر دوسری طرف اس عوامی مقبولیت کے گھوڑے کے نواز شریف بھی دعوے دار ہیں اور اس کی باگ ڈور مریم نواز کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے، ان کو بھی اپنی جیت کا پورا یقین ہے۔ اسی طرح باقی گھڑ سوار بھی اپنے اپنے گھوڑے سجائے میدان کے آس پاس چکر لگا رہے ہیں مگر ان کی پیشانی پر چند خدشات کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ان کو ماضی کے واقعات اور تجربات کے پیش نظر دوڑ کے دوران کہیں سے بندوبست اور ریفری پر دباؤ آنے یا کہیں سے نادیدہ سوچوں اور طاقتوں کے عمل دخل سے نتائج کے اعلان میں رد و بدل کا خدشہ ہے۔ لہذا مریم نواز چاہتی ہیں کہ دوڑ کے شروع ہونے سے پہلے انہیں غیر جانبداری اور شفاف طریقہ کار اور صحیح نتائج کے اعلان کی یقین دہانی ہونی چاہیے جس کے لئے وہ خاص وقت کے انتظار میں ہیں۔

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اصل عوامی مقبولیت کا گھوڑا ان کی ملکیت ہے جسے دھوکے سے بندوبست کے ذریعے سے عمران خان کے قبضے میں دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کی یہ بھی شکایت ہے کہ ان کے اعتراضات کو اہمیت نہیں دی جا رہی اور پچھلی دوڑ میں کی گئی زیادتیوں کا بھی دوڑ سے پہلے وہ ازالہ چاہتے ہیں۔

عمران خان دوسری طرف جلد دوڑ کی کوشش میں ہیں تاکہ وہ سازگار ماحول اور بندوبست کے ذریعے سے پچھلی جیت کی طرح اعلان کروا سکیں کیونکہ انہیں بھی خدشہ ہے کہ یہ ماحول کسی بھی وقت بدل سکتا ہے اور ان کی جیت کا چانس کم پڑ سکتا ہے۔ دوڑ کی انتظامیہ دباؤ کے تحت دوڑ کی تاریخ کا اعلان تو کر چکی ہے مگر ابھی وہ پورا انتظام کروانے سے قاصر ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایک ہی دفعہ سب گھڑ سواروں کے اتفاق سے دوڑ کا انتظام ہو جس میں تمام گھڑ سواروں کو ایک شفاف اور غیر جانبدار ماحول میں اپنا اپنا دم آزمانے کا موقعہ ملے تاکہ ان پر کوئی انگلی نہ اٹھے۔

مگر ان پر ایک آئینی اصول و ضوابط کا دباؤ بھی ہے جس کو ایک بندوبست کے ذریعے سے رائج کر کے جلد دوڑ کا میدان سجانے کی یقین دہانیاں بھی لی جا رہی ہیں۔ لیکن انتظامیہ مالی اور حفاظتی انتظامات کی مشکلات میں گھری نظر آ رہی ہے لہذا دوڑ کے انعقاد میں تعطل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

عمران خان کے حواری اور تماشبین میدان میں اترے ہوئے ہیں اور ان کا خود سر گھوڑا پوری تاب میں ہنہنا رہا ہے لیکن ان کو شاید اندازہ نہیں کہ جس مقبولیت کے گھوڑے کے گھمنڈ میں وہ بھنگڑے ڈال رہے ہیں اس پر پہلے بھی بہت گھڑ سوار باریاں لے چکے ہیں اور بالآخر ان کو احساس ہوا کہ یہ گھوڑا کسی اور کا سدھایا ہوا ہے اور اصل عوامی گھوڑا تو وہ ہے جو جمہوری نسل کا ہوتا ہے جو حقیقی جیت دلوا سکتا ہے۔ ماضی میں ان سب سے اس مقبولیت کے خمار اور اقتدار کے ہوس میں بہت ساری غلطیاں بھی ہوئیں جو ریاست کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنیں۔ بالآخر جب ان کو احساس ہوا تو انہوں نے مل بیٹھ کر جمہوری اصول طے کیے اور ہمیشہ سے انہیں کے تحت دوڑ کا اعادہ کیا۔

یوں جب اس نام نہاد مقبولیت کے گھوڑے کو کوئی سوار نہ ملا تو یہ عمران خان کے ہاتھ لگ گیا اور وہ اس کو اسی بندوبست کے تحت ہانکتے ہوئے جیت میں آگے ہونے کی غلط فہمی اور جلد بازی میں آئین و قانون اور جمہوریت کے نام پر اپنی انا اور اقتدار کی ہوس میں غلطیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں جن سے ریاست کو نقصان پہنچنے کے خدشات کا بھی اندیشہ لاحق ہے۔

عمران خان کو شاید یہ احساس نہیں ہو رہا کہ یہ مقبولیت کوئی پائیدار شے نہیں کیونکہ یہ گیارہ مہینے پہلے اقتدار ہونے کے باوجود انتہائی نچلے درجے پر تھی اور انہی کے کارناموں کی بدولت موجودہ حکومت کے معاشی مسائل اور بے قابو مہنگائی نے عمران خان کی مقبولیت کو جان بخشی جس پر وہ پھر سے سمجھنے لگے ہیں کہ شاید وہ اس مقبولیت کی بنیاد پر کچھ بھی کر سکتے ہیں کسی کو بھی للکار سکتے ہیں، حتیٰ کہ ریاست کے اداروں کو بھی مگر ایسا ممکن نہیں۔ حقیقت میں آج بھی ان کے پاس ملک کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں اور نہ ہی اس طرح کے سیاسی عدم استحکام میں کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو بھی ایک پلے بوائے کے طور پر ہی لے رہے ہیں۔ ایک سے عشق لڑایا، دوسری سے شادی کرلی اگر معاملہ نہ بنا تو تیسری سہی، اگر وہ بھی نہ چل سکی تو چوتھی کے ساتھ معاہدہ کر لیا، نہ عدت دیکھی اور نہ اسلامی و قومی اقدار کا پاس رکھا۔ وہاں تو یہ سب کچھ چلتا رہا مگر اسٹیبلشمنٹ کوئی ناسمجھ دوشیزہ، گاہک مائی یا رشتے کروانے والی ماسی نہیں بلکہ اس ریاست کی بے تاج ملکہ ہے جس کے اشاروں پر بادشاہوں کی تاج پوشی ہوتی ہے۔ جس کی اپنی لازوال روایات ہیں جن کو کوئی بھی مائی کا لال نہیں بدل سکا۔

یہ ریاست ایک آئینی و اصولی نظام کی خواہاں ضرور ہے اور قومی تقاضا بھی رکھتی ہے مگر اداروں کی کمزوری کی متحمل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے کی آزادی دی جا سکتی ہے۔ اس کا احساس اس ملک کے ہر ذمہ دار شہری سے لے کر آئینی عہدیدار کو ہونا چاہیے۔

اگر ان کے لئے کہیں سے خاص بندوبست کی سہولت اب بھی میسر ہے تو ان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمیشہ نہیں رہنی اور وہ اپنی غلطیوں سے ایک ناقابل تلافی نقصان کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ان کے رویے کہ وجہ سے ان پر سے اٹھتا ہوا اعتماد ہے۔ آج کوئی بھی پاکستان کی سیاسی جماعت یہی ان سے بات کرنے کے لئے تیار نہیں اور وہ ان کو پاکستان کے موجودہ حالات کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں۔ اداروں کی غیر جانبدار اور اصولی رائے بھی ان کی حکمت عملی پر نالاں نالاں ہے جس کی جوابدہی کا عمل ان کے لئے پریشانی کا موجب بھی بن سکتا ہے۔

مقبولیت کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان سے ملک و قوم کو فائدہ دینے کے لئے ایک قومی سطح کے قائد کے لئے ذمہ دارانہ رویہ اور اجتماعی قومی مفادات کی ترجیح کا جذبہ ضروری ہے جو قوموں کی راہنمائی اور ترقی کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔ اور آئینی اصولوں پر اعلیٰ اخلاقی اقدار کے تحت عمل پیرا ہو کر باہمی اتفاق اور اصولی اختلافات کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے ایک مثبت انداز اور غیر جانبدارانہ شفاف ماحول میں مقابلہ ہی پائیدار ترقی اور کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments