بت پرستوں کی نئی نسلیں (4)


نوٹ : بت پرستی ان کا مذہب نہیں تھا۔ یہ تو ان کے اذہان کے جنگلوں میں ہزاروں سالوں سے پھیلا ہوا، وہ سم ہلاہل تھا، جو ان کی نسلوں کی شریانوں میں لہو کی طرح سرایت کر چکا تھا۔ وہ کسی رنگ، بے رنگ، وجودی یا غیر وجودی بت کو تراش کر اس کی پراسرار انداز میں پوجا شروع کر دیتے۔ کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوتا کہ یہ تو خود ان کے ہاتھوں سے تراشا ہوا ہے، تو اسے پاش پاش کر دیتے۔ مگر پرانے بت کے ٹکڑوں کو پاؤں تلے روندنے اور نیا بت تراشنے کے درمیان بس ایک مختصر سا وقفہ ہوتا تھا۔

—————————————————-

ایک دن فضل داد ملک پور آیا تو ہلکی ہلکی بارش نے پکی سڑک سے لے کر ملک پور تک کے کچے راستے پر کافی کیچڑ کر دیا ہوا تھا۔ ٹریکٹروں، ٹرالیوں کے گزرنے سے کئی جگہ گڑھے سے بن گئے تھے۔ جن کی وجہ سے تانگے وغیرہ کا گزر تو بہت ہی مشکل ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ فضل داد کو بھی کئی مقام پر گاڑی بہت آہستہ کرنا پڑی۔ اور اسے حویلی پہنچتے پہنچتے خاصی شام ہو گئی۔

اس کی حویلی میں آمد کے چند منٹ بعد ہی احمد دین حاضر ہو گیا۔ اور سلام دعا کے بعد بولا ”صاحب! آپ نے مجھے نور بانو کا ذکر کرنے سے منع کیا تھا۔ میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی کا تو سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن اگر میں اس وقت خاموش رہا تو شاید آپ بعد میں مجھ سے اسی بات پر ناراض ہو جائیں۔“

فضل داد: کیوں؟ ایسی کیا بات ہے؟

احمد دین: صاحب! وہ آج ہی یہاں پہنچی ہے۔ راستہ خراب ہونے کی وجہ سے تانگے میں کئی زور کے جھٹکے لگے ہیں۔ تکلیف سے اس کا برا حال ہے، کیونکہ وہ چھ ماہ کی حاملہ ہے۔ تو مجھے خطرہ ہے کہ کہیں بچہ بھی الٹ پلٹ ہو گیا ہے۔

فضل داد:کہاں ہے وہ اس وقت؟

احمد دین: جی گھر میں، ماں کے پاس۔ دائی بھی بلائی ہے۔ ماں بھی پتھر گرم کر کے ٹکوریں کر رہی ہے۔ مگر اس کا درد کسی بھی طرح کم ہو ہی نہیں رہا۔

فضل داد تو یہ سنتے ہی تڑپ اٹھا، بولا ”چلو! فوراً میں ابھی اسے دیکھنا چاہوں گا“ ۔
اور وہ دونوں منشی چراغ دین کے گھر چلے گئے۔

نور بانو کا درد سے برا حال تھا اور وہ زور زور سے کراہ رہی تھی۔ مگر فضل داد کے آتے ہی اس نے اپنی آواز کو سینے میں ہی دبا لیا۔ اس نے فضل داد کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا چہ جائیکہ وہ اس پر اپنا درد عیاں کرتی۔

فضل داد کو وہاں دیکھ کر باقی سب الرٹ ہو گئے۔ فضل داد اس سے پہلے کبھی ان کے گھر نہیں گیا تھا۔ وہاں ایک عجیب سی کھلبلی مچ گئی۔ اس نے پہلے تو ان سب کو پریشان ہونے سے منع کیا۔ پھر سارے حالات دریافت کیے ، تو اسے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ پورے ملک پور میں لیڈی ڈاکٹر تو دور کی بات ہے، ایک تربیت یافتہ دائی بھی نہیں۔ ہفتے میں ایک بار خاندانی منصوبہ بندی والے کچھ لوگ ضرور آتے ہیں، لیکن وہ بھی سب مریضوں کو نہیں دیکھ پاتے۔ باقی سارا کام وہاں کی دائیاں یا گھروں کی عورتیں ہی دیکھتی ہیں۔

احمد دین نے ایک قصبے کا نام لے کر بتایا کہ وہاں ایک لیڈی ڈاکٹر رہتی ہے۔ جو کام تو کہیں اور کرتی ہے مگر شام کو اپنے گھر سے ملحقہ کلینک میں پرائیویٹ مریضوں کو بھی دیکھتی ہے۔ لیکن ایک تو وہ قصبہ کوئی پندرہ سولہ کلو میٹر دور تھا دوسرے یہ بات بھی یقینی نہیں تھی کہ وہ لیڈی ڈاکٹر ان کے پہنچنے تک وہاں موجود بھی ہو۔

فضل داد نے کہا کہ جو بھی ہو لیکن جانا تو پڑے گا۔ اس نے احمد دین سے کہا کہ وہ نور بانو کو گاڑی میں بٹھائے۔

لیکن نور بانو جانے کے لیے تیار نہیں تھی، اس کا کہنا تھا کہ وہ ایسے کسی کام کے لئے اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جائے گی۔ اصل میں تو وہ فضل داد کی مدد لینا اپنی ہتک سمجھ رہی تھی۔ اس کی نظر میں فضل داد ایک بزدل اور موقع پرست مرد تھا۔ وہ درد کی شدت کے باوجود کافی شدت سے اپنی ضد پر قائم تھی اور فضل داد کے ساتھ کہیں بھی جانے سے انکاری بھی۔ ماں باپ اور دائی کے سمجھانے کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ایسے میں فضل داد نے احمد دین کو اشارہ کیا اور دونوں نے زبردستی اٹھا کر اسے گاڑی میں ڈال لیا۔ احمد دین نے اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے قابو کر کیا اور یوں وہ بھی کچھ دیر ہاتھ پاؤں چلانے کے بعد خاموش ہو گئی۔

راستہ بھی خراب تھا اور رات کا اندھیرا بھی پھیل چکا تھا۔ گاڑی کی لائٹ کے سوا روشنی کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ مگر پھر بھی جیسے کیسے فضل داد گاڑی ڈرائیو کرتا رہا۔

وہاں پہنچے تو لیڈی ڈاکٹر سو چکی تھی۔ بہت منت سماجت کر کے اسے اٹھایا گیا۔ اس نے نور بانو کا معائنہ کیا۔ بچہ بالکل الٹا ہو گیا تھا اور اسے سیدھا کرنے کا کوئی آسان طریقہ اس لیڈی ڈاکٹر کو نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسے تو یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر اور کچھ دیر میں بچہ سیدھا نہ ہو سکا تو زچہ بچہ دونوں کی جان جا سکتی ہے۔ ایسے میں اسے ہسپتال لے جانے اور آپریشن کر کے بچہ ضائع کرنے کے سوا نور بانو کی زندگی بچانے کا کوئی اور راستہ دکھائی نہ دیتا تھا۔

نور بانو ایسے کسی آپریشن کے لئے بالکل راضی نہیں تھی جبکہ فضل داد نور بانو کی جان بچانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ لیڈی ڈاکٹر نے آخری کوشش کے طور پر نور بانو کو درد کے لیے انجکشن دیا جو اس کے بقول نہایت ہی ضروری ہو جائے تو دیا جاتا ہے۔ جس سے وہ نیم بیہوشی کی حالت میں چلی گئی۔ تب لیڈی ڈاکٹر نے اپنے تمام تر علم اور تجربے کو بروئے کار لا کر ایک بار پھر بچے کو سیدھا کرنے کی کوشش کی۔ دو گھنٹے کی لگاتار محنت سے، جس میں اس نے فضل داد سے بھی مدد لی کیونکہ اس وقت اس کی کوئی نرس بھی میسر نہیں تھی، لیڈی ڈاکٹر بچے کو سیدھا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ کچھ تو بچے کے سیدھا ہونے سے ہی فرق پڑ گیا تھا باقی انجکشن نے کام کیا اور نور بانو کا درد ختم ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کچھ گولیاں بھی ساتھ دے دیں کہ اگر زیادہ ہی ضرورت ہو تو دیں، ورنہ پرہیز کریں۔ فضل داد نے ڈاکٹر کی طلب کی گئی فیس سے بھی کہیں زیادہ اسے ادائیگی کی اور وہ رات کو دیر گئے واپس ملک پور پہنچے۔

اگلی صبح تک نور بانو کی حالت بہت حد تک سنبھل چکی تھی، مگر فضل داد سے اس کا دل کچھ اس قدر پھر چکا تھا کہ وہ اس کی اس مہربانی کے باوجود اس کا شکریہ تک ادا کرنے کو تیار نہیں تھی۔ فضل داد کی بھی ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔ وہ تو نور بانو اور اس کے بچے کے بچ جانے پر ہی بہت خوش تھا۔

دوسرے دن فضل داد نے منشی چراغ دین سے بات کی کہ یہ سارا مسئلہ اس کچے راستے کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور ایسا پہلے بھی مختلف لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہو گا۔ تو کیوں آخر ہم نے آج تک اسے پکی سڑک بنوانے کی کوشش نہیں کی؟

منشی چراغ دین نے بتایا کہ اس کا درست جواب تو بڑے ملک صاحب کے پاس ہے۔ فضل داد نے بھی اور کچھ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا۔ بلکہ ان سب کو بھی منع کر دیا کہ اس رات کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانے کی بات، ملک جہانداد سے نہیں کی جائے گی۔ البتہ جب احمد دین دوسرے دن اسے ملنے آیا تو اس نے اس سڑک کے پکی کرنے پر بہت زور دیا۔ وہ بضد تھا کہ اگر یہ سڑک پکی ہو جائے تو ہمارے لئے اور بہت سے راستے کھلیں گے۔ مگر وہ ابھی ان کے بارے میں مزید کچھ بتانا قبل از وقت سمجھتا تھا۔

فضل داد نے اس کی بات ضرور سنی مگر کچھ رد عمل نہ دیا۔ وہ خود بھی ابھی اس معاملہ پر سوچ بچار ہی کر رہا تھا۔ دو دن کے بعد جب فضل داد کو یقین ہو گیا کہ نور بانو اب آرام سے ہے تو وہ شہر لوٹ آیا۔

گاؤں سے واپسی تک فضل داد پر یہ امر واضح ہو چکا تھا کہ مین روڈ سے لے کر ملک پور تک کا راستہ ابھی تک کچا ہے تو اس کی وجہ خود اس کا باپ ملک جہانداد ہے۔ اور اب اگر وہ چاہتا ہے کہ اس کچے راستے کو پکی سڑک میں تبدیل کر دیا جائے تو سب سے پہلے بات بھی ملک جہانداد سے ہی کرنا ہوگی۔ جس کے یقیناً کچھ اپنے تحفظات ہوں گے اور اس نے بات کرنے سے پہلے اپنے موقف کے حق میں دلائل اکٹھے نہ کیے تو مذکورہ گفتگو نا کامی پر منتج ہو گی۔

چنانچہ اس نے شہر پہنچنے کے بعد ان دوستوں سے رابطہ کیا جو یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس پڑھ رہے تھے۔ انہی کے ذریعے اس مضمون کے کچھ سینئر طلبہ سے بھی ملا۔ پھر اس نے اپنے لاء کالج کے ان ساتھیوں سے بات چیت کی، جن کا سیاست سے کچھ نہ کچھ تعلق

تھا۔ اس نے سب پر اپنا مطمعء نظر واضح کیا۔ چند ایک نے بے شک اس کا مذاق بھی اڑایا، لیکن زیادہ تر نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور جس حد تک ممکن تھا اس کی رہنمائی بھی کی۔

تب وہ ملک جہانداد کے پاس پہنچا اور اسے بتایا کہ وہ ملک پور کی کاشت کو ترقی دینے کے لئے، وہاں جانے والے کچے راستے کو پکی سڑک میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

ملک جہانداد نے اس کی بات سنی اور کچھ غور کرنے کے ذرا سوچنے کے انداز میں بولا ”ملک پور اور اس کے آس پاس کے علاقے کا موجودہ نظام ایک بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے۔ جو ابھی تک پورے سکون سے بہہ رہا ہے، جب تم اس دریا کا رخ موڑنے کی کوشش کرو گے تو اس دریا کی زد میں آ جاؤ گے“ ۔

فضل داد: میں کسی دریا کا رخ موڑنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ مجھے صرف اپنے کام کے لیے، اپنی غرض کے واسطے اس تبدیلی کی ضرورت ہے۔

جہانداد: تبدیلیاں ہمیشہ توڑ پھوڑ کا باعث بنتی ہیں۔ توڑ پھوڑ، مطلب تباہی۔

فضل داد: پہلی بات تو یہ کہ تبدیلیاں آتی ہی رہتی ہیں، چاہے ہم ان میں شامل ہوں یا ان کی مخالفت کریں اور پھر جو توڑ پھوڑ ہے وہ کسی بہتر اور بڑے مقصد کے لیے بھی تو ہو سکتی ہے۔

جہانداد: اچھا؟ تو پھر ذرا پہلے مجھے کوئی مثال دو ، جو ثابت کرے کہ توڑ پھوڑ سے کوئی بہتر اور بڑا مقصد بھی حاصل ہو سکتا ہے۔

فضل داد:ہم پرانے مکان کی مرمت کے لیے، اس کی شکستہ دیواروں کو مضبوط بنانے کے لئے، پہلے سے موجود مکان کی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ اس عمل میں ہم اکثر پرانے مکان کی دیواروں کا پلستر اتار دیتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اس کے پرانے دروازے تک اکھاڑ نے پڑتے ہیں۔ ہم درختوں کی اچھی نشوونما کے لیے، انہیں تناور درخت بنانے کے لئے ان کی شاخوں کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں۔ ہم سردیوں کا بہتر پھل حاصل کرنے کے مقصد کے لیے امرودوں کا گرمیوں کا پھل گرا دیتے ہیں۔ یہ سب توڑ پھوڑ کی وہ شکلیں ہیں جو ہم بہتر مقاصد کے حصول کے لئے کرتے ہیں۔

جہانداد: اور اب تمہارا مقصد ہے کاشت کو ترقی دینے کے لیے ماہرین زراعت کو وہاں لانا؟

{احمد دین کا بھی یہی مشورہ تھا کہ وہ جب اپنے والد سے اس سڑک کو پکی کرنے کی بات کرے تو کاشت کی ترقی کا ہی ذکر کرے }۔

فضل داد: جی بالکل! اور اس کچے راستے پر روز روز سفر کر کے وہ آئیں گے نہیں۔ نہ ہی ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ہم انہیں

مستقل طور پر گاؤں میں ٹھہرا کر ان کی بھاری تنخواہیں دے سکیں۔

جہانداد: لیکن سڑک پکی ہو جائے گی تو ملک پور کے لوگ گاؤں سے باہر جا کر مزدوریاں کرنے لگیں گے۔ پھر ہو سکتا ہے تمہیں کپاس کی چنائی کے لیے عورتیں بھی میسر نہ آ سکیں۔

فضل داد: تو کیا آپ ہمیشہ کپاس اور کماد (گنا) جیسی فصلوں تک محدود رہنا چاہتے ہیں؟ جن کے لیے ہمیں علاقے کی جننگ فیکٹریوں اور شوگر ملوں کا محتاج رہنا پڑتا ہے۔ جو نہ صرف یہ کہ قیمتیں اپنی مرضی سے مقرر کرتے ہیں بلکہ ادائیگیاں بھی اپنی سہولت کے مطابق کرتے ہیں۔ میں ان سب کی اجارہ داری کو کم کرنا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ہم ایسی فصلیں کاشت کریں، جنہیں ہم خود منڈیوں میں پہنچائیں اور نقد دام وصول کریں۔

جہانداد: لیکن ہمارے علاقے کی جننگ فیکٹریاں اور شوگر ملیں تو پیر علیم الدین اور پیر کلیم الدین کی ملکیت ہیں۔ جو برسوں سے ہمارے علاقے کے سیاسی رہنما چلے آ رہے ہیں۔ اگر کپاس اور کماد سے ہاتھ کھینچنے کی خبر انہیں ملے گی تو وہ ناراض ہو جائیں گے۔ جبکہ انہوں نے ہی وقت آنے پر تمہیں صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے لیے سپورٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

فضل داد: آج کے حالات میں ہم ان کے ورکر اور سپورٹر تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھی ہر گز نہیں، سو وہ بھی کبھی اپنا وعدہ پورا نہیں کریں گے نہ ہی میں الیکشن لڑ سکوں گا۔ کمزور آدمی کو طاقت ور کبھی اپنا ساتھی نہیں بناتا، وہ صرف ضرورت کے وقت اس کا استعمال کرتا ہے۔ اگر ان کا ساتھی بننا ہے تو ہمیں اپنی طاقت بڑھانا ہو گی۔ اپنی آمدنی میں اضافہ کرنا پڑے گا اور علاقے میں اپنی ذاتی ساکھ بنانا ہو گی۔ آپ مجھے یہ سڑک پکی کروا کے دیجیے، باقی کام میں آپ کو خود کر کے دکھاتا ہوں۔ ) حالانکہ وہ اس سڑک کے پردے میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا (۔

جہانداد: تمہاری بات اگر سچ نہیں بھی ہے، تو بھی تمہارے دلائل کافی مضبوط ہیں۔ لگتا ہے تم نے وکالت کے پہلے ہی سال میں بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی ہے۔ سڑک تو میں تمہیں چند مہینوں میں ہی بنوا دوں گا۔ مجھے اس کا طریقہ معلوم ہے۔ اور اس کے بعد دیکھتا ہوں تم اس سڑک سے کیا کیا مثبت کام لیتے ہو۔

فضل داد:آپ مجھے یہ سڑک بنوا دیجئیے تو پھر کسی اور کام پر میں آپ کے زیادہ پیسے بھی خرچ ہونے نہیں دوں گا۔ مجھے اچھی طرح احساس ہے کہ میری دونوں بہنوں کی شادیاں سر پر کھڑی ہیں۔ ان کے لیے بھی بہت سا پیسہ در کار ہے۔

جہانداد: شاباش! آج تم میرے صحیح وارث بن گئے۔

(باپ بیٹے کے درمیان، کسی بھی مسئلے پر یہ پہلی گفتگو تھی جو اتنی خوبی سے انجام پائی۔ باپ نے بیٹے کو گلے لگا کر پیار کیا۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں ) ۔

نور بانو تو اس رات کے بعد ، چند دن وہاں ٹھہر کر ، اپنے خاوند کے پاس اس کے قصبہ، ڈھولن وال چلی گئی تھی، کیونکہ ایک بڑے شہر کے قریب ہونے کی وجہ سے ’ڈھولن وال‘ میں کافی طبی سہولتیں دستیاب تھیں۔ اور جہانداد کی کوششوں سے ڈھائی تین ماہ بعد ہی سڑک بھی بننی شروع ہو گئی۔ گاؤں والے اس بات سے بہت خوش تھے۔ انہی دنوں نور بانو کی طرف سے بھی خبر آ گئی کہ وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی ہے۔ زچہ اور بچہ دونوں تندرست ہیں۔ بیٹے کا نام راشد عمیر رکھا گیا ہے۔ محمد عمیر بیٹے کے باپ کا نام تھا۔

فضل داد نے منشی چراغ دین سے مشورہ کیا اور گاؤں کے چیدہ چیدہ لوگوں کو حویلی میں ایک ملاقات کی دعوت دی۔ ) احمد دین کے مشورے سے وہ اب آہستہ آہستہ کچھ کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا۔ یہ سڑک اس کے اس ارادے کی ابتدا بھی تھی (۔ اس ملاقات میں وہ لوگ بھی شامل تھے، جن کا ملک جہانداد کی زمینوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ فضل داد نے انہیں بتایا کہ وہ سڑک مکمل ہوتے ہی، گاؤں کے پرائمری سکول کی عمارت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

تاکہ اسے پرائمری سے مڈل اور پھر ہائی سکول کا درجہ دیا جا سکے۔ گاؤں کے بچے، میٹرک تک گاؤں میں ہی تعلیم حاصل کریں۔ اس نے مزید بتایا کہ اس کے فوراً بعد وہ یہاں لڑکیوں کے پرائمری سکول کی بنیاد رکھے گا تاکہ ملک پور کی لڑکیاں بھی شہر کی لڑکیوں کی طرح پڑھ لکھ کر آگے بڑھیں۔ ان دونوں کاموں کے لیے زمین، اینٹ اور سیمنٹ وہ مہیا کرے گا لیکن مزدوروں کی جگہ گاؤں کے لوگ کام کریں گے۔ اپنی مدد آپ کے تحت، بغیر کوئی معاوضہ لیے۔

سب سر کردہ لوگوں نے اس کے پروگراموں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ کچھ لوگوں نے تو اخراجات میں حصہ ڈالنے کا بھی وعدہ کیا۔ ان کے نام فوراً منشی چراغ دین نے نوٹ کر لیے یوں کام شروع ہونے سے پہلے ہی فضل داد کی مثبت شہرت سارے علاقے میں پھیلنے لگی۔ اس کی بات پر لوگوں کا اعتماد سڑک کی تعمیر کے آغاز سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ پھر احمد دین کچھ اور لڑکوں کے ساتھ مل کر پراپیگنڈا کا کام بھی کر رہا تھا۔ وہ پوری کوشش سے علاقہ کے لوگوں کو یہ باور کرا رہا تھا کہ یہ سب کام ملک فضل داد کی ذاتی کوششوں سے انجام پا رہے ہیں۔

اور یہ ملک فضل داد ہی ہے کہ جو اس پورے علاقہ کی ترقی کے لئے جان توڑ محنت کر رہا ہے اور وہ بھی بغیر کسی لالچ کے اور اپنا عیش و آرام تج کے۔ کام چونکہ عملی طور پر ہوتے نظر بھی آ رہے تھے اس لئے شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں تھی۔ ملک جہانداد اور منشی چراغ دین کو ابھی تک احساس نہ ہو سکا تھا کہ فضل داد علاقے کی اس ترقی کے درپردہ اصل میں کرنا کیا چاہتا ہے؟

جیسے ہی سڑک مکمل ہوئی (جس کا نام ملک پور روڈ، رکھا گیا) فضل داد نے لڑکوں کے سکول کا کام شروع کروا دیا۔ (اسی دوران

میں جمیلہ جان کی شادی ملک نیاز احمد سے ہو چکی تھی اور اب ثریا جان کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں ) فضل داد نے ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد ماہرین زراعت سے رابطے شروع کر دیے تھے۔ منشی چراغ دین کا بڑا بیٹا، محمد دین، بھی انہی دنوں زرعی سائنسدان کی ڈگری مکمل کر کے ان کے ساتھ شامل ہو گیا۔ یوں ملک پور میں ملک جہانداد کی زمینوں کا سب اختیار آہستہ آہستہ ملک فضل داد کے ہاتھوں میں آتا جا رہا تھا۔ مزارعہ اور کھیت مزدور بھی اسی سے رجوع کرنے لگے تھے۔

بد قسمتی سے انہی دنوں نور بانو کا خاوند محمد عمیر جو ٹرک ڈرائیور کا کام کرتا تھا، ایک حادثے میں بری طرح زخمی ہو کر چل بسا۔ جس کے ساتھ ہی نور بانو کے سسرال والوں نے اسے منحوس قرار دے کر ، اس کے ساتھ انتہائی برا سلوک شروع کر دیا۔ اس نے حالات سے مجبور ہو کر بیٹے کو ساتھ لیا اور باپ کے گھر آ گئی۔ سسرال والوں سے ہر تعلق ختم کر لیا۔ اپنے جہیز کا سارا سامان جو وہاں چھوڑ آئی تھی اسے لینے بھی نہیں گئی۔

ایک تو فضل داد کو ماں کی طرف سے ہدایت تھی، اس لیے موقع با موقع وہ جمیلہ جان سے ملنے اس کے گھر جایا کرتا، جہاں ضرورت پڑنے پر وہ رات کو قیام بھی کر لیتا۔ دوسرا اسے اپنے بہنوئی (جمیلہ جان کے شوہر) ملک نیاز احمد جیسے لوگوں سے تبادلہ خیالات کی اشد ضرورت تھی۔ ملک نیاز احمد سول انجینئر تھا اور ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم۔ جو زیادہ تر کنسٹرکشن کے بڑے بڑے ٹھیکے لیتی تھی۔ فضل داد اپنے نئے منصوبوں کے لیے ہر وقت نئی ممکنات کی تلاش میں رہتا تھا اور چونکہ اسی گھر میں ملک نیاز احمد کا چھوٹا بھائی ملک فیاض احمد بھی رہتا تھا، جس کے ساتھ ثریا جان کی نسبت طے پا چکی تھی جو ایک اور ملٹی نیشنل کمپنی کی انتظامیہ کا حصہ تھا۔

اکثر وہ تینوں شام کے وقت مستقبل کے امکانات پر گفت و شنید شروع کرتے تو رات ہو ہی جاتی۔ اسی دوران میں نیاز اور فیاض کے زور دینے پر اس نے کمپیوٹر آپریٹ کرنا بھی سیکھ لیا تھا۔ اور ان دونوں کی طرح اسے بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ آنے والے وقت میں کمپیوٹر انسان کی بہت بڑی ضرورت بن جائے گا۔ موبائل فون تو خیر اس وقت بھی آ چکا تھا، لیکن ابھی اس کے ساتھ چار پانچ کلو کی بیٹری علیحدہ اٹھانا پڑتی تھی اور ٹیلی فون سیٹ بھی خاصہ بھاری ہوتا تھا۔ لیکن فضل داد نے ابھی سے ایک سیٹ خرید لیا تھا جس کی قیمت اس وقت صرف امیر لوگ ہی ادا کر سکتے تھے۔ وہ ملک پور بھی اسے ساتھ لے جاتا اور نیاز، فیاض کے علاوہ ماں سے بھی ہر وقت رابطے میں رہتا۔

فضل داد، ملک خاندان کا وہ پہلا فرد تھا جو اس طرح کھلم کھلا اپنی بہن کے گھر جایا کرتا تھا۔ ورنہ ان کی خاندانی رسوم کے مطابق بہن یا بیٹی کے گھر جانا اور خاص طور پر وہاں رات قیام کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے بہنیں یا بیٹیاں ہی کبھی ماں باپ کے گھر آتی تھیں، کوئی بھائی یا باپ خود جس حد تک ہو سکے بہنوں یا بیٹیوں کے گھر جانے سے پرہیز ہی کرتے تھے۔

فضل داد چاہتا تھا کہ ملک پور روڈ اور مین روڈ کے سنگم پر ، جسے بہت دیر سے ملک پور موڑ کے نام سے پکارا جاتا تھا، سبزیوں کا ایک بڑا فارم بنائے۔ اس مقصد سے اس نے وہاں مین روڈ کے ساتھ سو کنال زمین خرید لی ہوئی تھی۔ جبکہ ملک نیاز احمد اور ملک فیاض احمد کا اسے مشورہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف سبزیوں کے فارم کے ساتھ ایک لائیو سٹاک فارم بنائے، بلکہ ان دونوں فارموں کے ساتھ ساتھ وہاں ایک چھوٹی سی بستی بھی آباد کرے۔ وہ دونوں بھائی سمجھتے تھے کہ اس مقام پر جلد ہی ایک اچھا قصبہ بن جائے گا۔ جس میں بنیادی رہائش گاہیں تو ان لوگوں کی ہی ہوں گی جو اس کے فارموں پر کام کریں گے لیکن جلد ہی دوسرے لوگ بھی وہاں آ کر رہنے لگیں گے۔ ملک پور اور یہ قصبہ ایک دوسرے کے لیے ممد و معاون ثابت ہوں گے۔

فضل داد یہ سب کام باپ سے پوچھے بغیر اور صرف اپنے بل بوتے پر ہی کرنا چاہ رہا تھا، مگر ابھی اس کے ہاتھ میں ایسا سرمایہ نہیں تھا، جس سے یہ سب کام اکٹھے شروع کیے جا سکتے۔ البتہ ملک نیاز احمد اور ملک فیاض احمد کے پاس اچھی سکیمیں تھیں، جن کے ذریعے تھوڑے پیسے سے بھی یہ سب منصوبے مکمل کیے جا سکتے تھے۔

ان منصوبوں پر غور و خوض کے لیے وہ اکثر ملتے رہتے تھے اور زیادہ تر فضل داد ہی ان سے ملنے جایا کرتا تھا۔ پہلے تو خود جہانداد کو ہی اس کا بہن کے گھر جانا اور وہاں قیام کرنا پسند نہیں تھا، پھر اسے رشتہ داروں کی طرف سے بھی طعنے ملتے تھے کہ اس کا بیٹا ان کے بزرگوں کے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، تو باپ نے کئی بار بیٹے کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کروائی مگر اب فضل داد دانستہ طور پر بھی زیادہ آنے جانے لگا۔

در اصل یہ بات اس کے دل سے جاتی ہی نہیں تھی کہ جہانداد نے منصوبہ بندی کے تحت اس سے نور بانو کو چھینا تھا۔ اور یہ بھی کہ نور بانو کی تباہی کا اصل ذمہ دار اس کا باپ ہی تھا۔ وہ باپ کو اور تو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا مگر اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں کر کے اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کرتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ خود کو مالی طور پر طاقتور بنانے کی تگ و دو میں بھی مصروف تھا۔ باپ کو یہ سب اچھا تو نہیں لگ رہا تھا لیکن ابھی تک اسے بیٹے کی نیت کے بارے میں شک بھی نہیں ہوا تھا۔

ملک جہانداد اپنی جوانی سے لے کر اب تک اپنی زمینوں کے سیاہ و سفید کا مالک چلا آ رہا تھا۔ وہاں کے کسان، کھیت مزدور اور منشی چراغ دین جیسے سب لوگ جیسے اس کی رعایا تھے۔ نا فرمانی تو دور کی بات ہے کسی نے کبھی اس کے حکم کو ٹالنے تک کی جرات بھی نہیں کی تھی۔ چہ جائیکہ اب اس کا بیٹا خاندانی رسم و رواج کے خلاف ایسا کر رہا تھا۔ اوپر سے فضل داد کی ماں بھی چاہتی تھی کہ وہ جمیلہ جان سے ملتا رہا کرے۔ ایک تو بیٹی کا پیار اور دوسرے اسے اپنا ماضی یاد آتا تھا کہ کیسے اس کے ماں باپ اور بھائی وغیرہ شادی کے بعد اس سے دور دور رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے سسرال میں اپنا مقام بنانے میں اسے بہت مشکل پیش آئی تھی۔ اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب اس کی

بیٹیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔

ملک جہانداد کے لیے ایک اور مسئلہ یہ تھا کہ گھر کے معاملات کے ضمن میں، جو وہ ایک دکھاوے کی حد تک کمانڈ کرتا نظر آتا تھا، وہ کمانڈ بھی اب اس کی بیوی نے چھین لی تھی۔ وہ اب اس کی زیادہ پروا بھی نہیں کرتی تھی۔ گھر میں جو کبھی اس کا رعب و دبدبہ ہوتا تھا، سب خاک میں مل چکا تھا۔ زمینوں کے معاملات بھی اب بڑی حد تک فضل داد نے ہی سنبھال لئے تھے۔ پھر ملک جہانداد کے آس پاس کوئی ایسا شخص بھی نہیں تھا جس سے وہ اپنا دکھ بانٹ سکتا۔ دل ہی دل میں ان معاملات پر کڑھتا، ملک جہانداد بیمار رہنے لگا۔ ڈاکٹروں کو کسی خاص بیماری کی کوئی علامت نہیں مل رہی تھیں۔ ان کے خیال میں زیادہ سے زیادہ ڈپریشن کی طرح کا کچھ معاملہ تھا۔ لیکن اس کی بھی کوئی وجوہات نظر نہیں آ رہی تھیں، نہ ہی کسی اور بیماری کی کوئی تشخیص ہو پا رہی تھی۔

انہی حالات میں ثریا جان کی بھی شادی ہو گئی۔ اس شادی کے زیادہ تر معاملات بھی فضل داد اور گوہر جان نے ہی سنبھالے۔ ملک جہانداد تو بس نمائش کی حد تک ہی اس میں حصہ لے سکا۔ جس کے بعد ملک جہانداد نے پھر سے خود کو ایکٹو کرنے کی کوشش کی اور چاہا کہ وہ ملک پور کے معاملات میں خود کو مصروف کرے۔ لیکن جب وہ ملک پور جاتا تو وہاں بھی اس کی زندگی حویلی تک محدود رہتی۔ زمینوں کے سارے کام اب چونکہ فضل داد ہی سنبھال رہا تھا، چنانچہ کسان اور کھیت مزدور سب، اس ضمن میں اب تمام ہدایات بھی فضل داد سے ہی لیتے تھے۔

(اچھی یا بری لیکن تبدیلیاں تو آتی ہی رہتی ہیں، چاہے ہم ان میں شامل ہوں یا ان کی مخالفت کریں۔ فضل داد کا کہا ہوا یہ جملہ بھی اب اکثر اسے ہانٹ کرتا رہتا) ملک جہانداد کو کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ پھر اس کی جنسی مشاغل جیسی سر گرمیاں بھی جمود کا شکار تھیں کہ اس شعبہ میں بھی وہ پہلے جیسا فعال نہیں رہ گیا تھا۔ یہ سب اعمال مل جل کر اس کے دماغ پر دباؤ بڑھاتے، جن سے اس کا معدہ بھی متاثر ہوتا اور وہ شہر کو پلٹ آتا۔

جہاں ڈاکٹروں کی نگہداشت پوری شد و مد سے جاری تھی اور اب تک سینکڑوں قسم کے ٹیسٹ اور ایکسرے وغیرہ ہو چکے تھے۔ مگر مرض تھا کہ تشخیص ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ گھر میں نوکر چاکر تھے، بیوی تھی، بیٹا بھی حال چال پوچھتا رہتا اور رشتہ دار بھی مزاج پرسی کے لیے آتے رہتے تھے۔ پھر بھی چار کنال کے اس بڑے سے محل نما گھر میں وہ تنہا تھا۔ اب وہ کبھی کبھی اکیلا بیٹھا خود سے ہی باتیں کرنے لگتا۔ کوئی ملازم یہ سمجھ کر کہ شاید وہ کسی کو بلا رہا ہے، اس کے پاس جاتا تو ملک جہانداد ہکا بکا اس کی شکل دیکھنے لگتا۔ کچھ کہنے کی کوشش کرتا تو الفاظ ہی اکٹھے نہ کر پاتا۔

ان حالات سے گزرتے ہوئے جہانداد کو ایک رات پہلا اور آخری ہارٹ اٹیک ہوا۔ اور وہ بھی ایسا کہ اسے کسی کو آواز تک دینے کی مہلت نہ مل سکی۔ ساتھ والے کمرے میں موجود نرس کے کانوں میں بھی کسی صوت نے کوئی ارتعاش پیدا نہ کیا اور وہ آرام سے سوتی

رہی۔ یوں اگلے دن دوسرے لوگوں کے جاگنے سے پہلے ہی وہ ابدی نیند سو چکا تھا۔ ڈاکٹروں نے آ کر کافی دیر تک معائنہ کیا کہ شاید کوئی کوشش کی جا سکے، لیکن سب بے سود۔ کئی گھنٹے پہلے اس کی موت واقع ہو چکی تھی۔

حالانکہ سب متعلقہ لوگوں کو خطرہ تھا کہ جہانداد اب زیادہ دن جی نہ سکے گا، پھر بھی پورے ملک پور میں جہانداد کی موت سے زبردست سوگ کا عالم طاری تھا۔ بے شک جہانداد نے جمیلہ اور ثریا کو کبھی بھی وہ پیار نہیں دیا تھا کہ جس کی امید عام طور پر ہر بیٹی کو ہوتی ہے، مگر پھر بھی وہ باپ کی موت پر گہرے صدمے کی حالت میں تھیں۔ گوہر جان اور فضل داد کہ جو جہانداد کی موت کے بعد اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آزاد ہو چکے تھے، غم کی چادر انہوں نے بھی اوڑھی ہوئی تھی۔

کفن دفن کی تمام نہایت شاندار طریقے سے ادا کی گئیں۔ کئی دنوں تک غریبوں کو کھانا کھلایا گیا اور ان میں کپڑے بھی تقسیم کیے گئے، مگر پھر آہستہ آہستہ سوگ کے ماحول میں کمی آنے لگی۔ ملک پور کے علاوہ بھی علاقے کے لوگ اب اپنے تمام معاملات کے لئے فضل داد سے ہی رجوع کرنے لگے۔ یوں ملک پور کا ایک پرانا باب جہانداد کی موت کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گیا۔ اب یہاں ایک نئی تاریخ لکھی جانی تھی اور یہ کام انجام دینا تھا ملک فضل داد نے۔ پیر علیم الدین شاہ اور اس کے بھائی بے شک اس خطرے کو کسی حد تک بھانپ چکے تھے مگر ان پر ٹوٹنے والے قہر کا مکمل ادراک انہیں ابھی بھی نہیں تھا۔

۔ ۔
{جاری ہے }


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments