مر کے بھی چین نہ پایا تو…


پچھلے ایک ہفتے سے ہمارے سیاسی افق پر جو رنگ چھائے ہیں ان میں سے ایک بھی نیا نہیں مگر ہمارے لوگوں کی مستقل مزاجی ملاحظہ کیجیے کہ پوری پوری رات سابق وزیراعظم کے حق میں اور کہیں کہیں ان کے خلاف اور گرفتاری کے انتظار والی پوسٹس سوشل میڈیا پر ٹرینڈ تھیں۔ اب شاید ہی کوئی سیاسی پارٹی ہو جس نے اپنے سوشل میڈیا ٹیم کو ایکٹو نہ کر رکھا ہو جن کو یقیناً پارٹی بجٹ سے ادائیگی کی جاتی ہو گی۔ اسی کے ساتھ کہیں کہیں ہمیں گندم کی حد سے تجاوز کرتی قیمتیں اور مہنگائی کی جانب توجہ دلاؤ پوسٹس بھی دکھائی دیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔

آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں ہوا تھا جبکہ پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا تھا۔ جب یہ بات میرے علم میں آئی تو میں سوچ میں پڑ گئی کہ اتنی جلدی تو ہمارے ملک کا آئین نہیں بنا تھا جتنی جلدی ہم جھولی پھیلا کر انہی لوگوں کے سامنے چلے گئے جن سے ہم نے ابھی ابھی آزادی حاصل ہی کی تھی۔

کچھ مزید مطالعہ اور چھان بین کے بعد مجھے پتہ چلا کہ آئی ایم ایف 190 رکن ممالک پر مشتمل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ سب مل کر عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی بھی ملک تقاضے پورے کر کے اس میں شمولیت کی درخواست دے سکتا ہے۔ ان تقاضوں میں معیشت سے متعلق معلومات اور کوٹا سبسکرپشن کہلائی جانے والی واجب ادا رقم شامل ہے۔ سبسکرپشن کے لیے جو ملک جتنا امیر ہوتا ہے، اسے اتنے زیادہ پیسے ادا کرنے ہوتے ہیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر معیشت بنجامن فریڈ مین کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ ’آیا اس کی مداخلت نے کسی ملک میں معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر اور اس کا متبادل کیا ہو سکتا تھا۔‘

بہرحال کسی معیشت کی نگرانی اور اس کی حمایت کے لیے آئی ایم ایف تین کام کرتا ہے :

1: معاشی و مالی معاملات کی ٹریکنگ۔ یہ دیکھتا ہے کہ ایک ملک کی کارکردگی کیسی ہے اور اسے کن خطرات کا سامنا ہے، جیسے برطانیہ میں بریگزیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے بعد تجارتی تنازعات اور پاکستان میں شدت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں کے معاشی اثرات۔

2: رکن ممالک کو تجاویز دی جاتی ہیں کہ وہ اپنی معیشت کیسے بہتر بنا سکتے ہیں۔
3: ان ملکوں کے لیے قلیل مدتی قرضے اور مالی معاونت جو مشکلات سے دوچار ہیں۔

جب ہم یہ تمام تفصیلات پڑھتے ہیں تو یہ ہمیں کسی ملک کی حکومت کی ذمہ داریاں معلوم ہوتی ہیں مگر جب کسی ملک کی حکومت ناکام ہو جاتی ہے تو آئی ایم ایف کو قرض کے حصول کا ’آخری راستہ‘ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اب جو آپ کو پیسے دے گا، وہ آپ کی معاشی ہی نہیں دیگر کئی پالیسیوں کو بھی نہ صرف دیکھے گا بلکہ بھرپور اثر انداز بھی ہو گا اور یہی ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اور مستقبل قریب تک اس میں تبدیلی کے کوئی آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔

مگر اسی کے ساتھ ساتھ دنیا میں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے قرض لیا اور وقت سے پہلے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنی پابندیاں اور بندشیں ختم کروائیں، ان میں ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے اور اس کے علاوہ سال 2002 میں برازیل نے اپنے قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ (دیوالیہ) ہونے سے قبل آئی ایم ایف کا قرض حاصل کیا۔ اس کی حکومت جلد ہی معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئی اور اس نے دو سال قبل ہی اپنا تمام قرضہ ادا کر دیا۔

سوال یہ نہیں ہے کہ ہمیں قرضہ مل رہا ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ قرض لینے والی حکومت کے پاس ہمارے لئے کیا منصوبہ بندی ہے جس پر عملدرآمد سے ہم قرضوں کے اس گھن چکر سے باہر آ سکیں۔ ہم ایسا کیا کریں کہ ہماری معیشت میں استحکام آتا ہوا دکھائی دے۔ ہم ایسی کون سی چیزیں ترک کریں کہ بین الاقوامی برادری میں ہمارا وقار بحال ہو سکے۔ آخر ہم کب تک اقتدار کی کرسی کے لئے لگے اکھاڑے میں موجود سیاسی نوٹنکیوں کی بڑھکیں سنتے رہیں گے؟

جس طرح ہمارے پالیسی میکرز نے اپنے فرائض کو پورا نہیں کیا ٹھیک ویسے ہی ہم نے بھی بطور شہری اپنی ذمہ داریوں اور اپنی افرادی ترقی کے لئے کوئی خاص پیش رفت نہیں کی جس کی وجہ سے ہمارے ساتھ کبھی مذہبی کارڈ کھیلا گیا تو کبھی الزامات اور اخلاق سوز ہتھکنڈوں کے ذریعے اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا۔ اقتدار کے ایوانوں میں بے حسی بال کھولے سوئی رہی اور تاریخ نے فقط دائرے کا چکر مکمل کیا۔ غریب کبھی غربت، کبھی نا انصافی، کبھی بیماری تو کبھی سماجی بد انتظامی کی نذر ہوتا رہا۔

بے شعوری اور جاہلیت تالیوں اور نعروں میں بدمست رہی اور سفاکیت کا راج رہا جس نے غلام گردش کو طول دیا اور امیر مزید امیر تر ہوتے گئے۔ سرکار کی مسند سے فرمان جاری ہوا کہ سکون تو صرف قبر میں ہے مگر اس میں جانے کے لئے مرنا پڑتا ہے اور مر بھی جائیں تو تصدیق سرٹیفکیٹ ہی سے ہوتی ہے جس کی قیمت حالیہ دنوں میں مزید بڑھا کر غریب کی پہنچ سے تقریباً دور کر دی گئی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ پانچ چھے ہزار روپے کی من گندم لے یا مرے ہوئے کا سرٹیفیکیٹ بنوائے اور اسی سوچ میں وہ تقریباً مر جاتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ مر کے بھی چین نہ آیا تو کدھر جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments