مناظر عباس شہید


اس کی عمر تیس سال تھی تین معصوم بیٹیاں اور ایک شیر خوار ڈیڑھ ماہ کا بیٹا اس کی کل کائنات تھی ایک چھت تلے وہ اپنے والدین بہن ’بھائیوں اور بیوی بچوں کے ساتھ عاجزی و انکساری کے ساتھ رب کی رضا پر راضی ہنسی خوشی شب و روز بتا رہا تھا۔ وہ عرصہ چھ سال سے ضلع حافظ آباد کے قدیمی قصبہ کالیکی منڈی کے نواحی علاقہ ہیڈ نانوآنہ پنج پلہ پر واقع ایک دکان پر مزدوری کر رہا تھا اور حسب معمول وہ روزانہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتا اور شام ڈھلے گھر لوٹتا اس کے پاس کوئی سواری نہیں تھی لیکن اپنے بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کا بوجھ سر پر اٹھائے روزانہ صبح پیدل گھر سے مزدوری کی غرض سے نکلتا اور راستے میں کبھی کسی سے لفٹ مل جاتی تو کبھی پیدل ہی اپنے کام پر مقررہ وقت پر پہنچ جاتا۔

وہ اپنا کام بڑی ایمانداری اور تندہی کے ساتھ انجام دیتا یہی وجہ تھی کہ مالک دکان بھی اس کے انہی اوصاف کا گرویدہ ہو چکا تھا اور دکان کا تمام حساب مناظر عباس کے ہاتھ میں دے رکھا تھا مناظر عباس بھی بڑے احسن انداز میں دکان پر مزدوری کے امور ذمہ داری کے ساتھ انجام دیتا تھا کیوں کہ وہ سمجھتا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ دکان اس کے رزق کا ذریعہ بنائی ہے۔ سادہ لوح غریب والدین کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ مناظر عباس گھر کی چار دیواری اور اپنے حلقہ احباب میں اپنی خوش گفتاری‘ ملنساری ’عاجزی و انکساری میں یکساں مقبول تھا والدین ہمہ وقت اس کے لئے دعاؤں کا دامن پھیلائے رکھتے اور دوستوں کے لئے اس کا ہنس مکھ چہرہ انہیں ایک تازگی کا احساس دلاتا تھا۔

مناظر عباس گو ایک غریب نوجوان تھا لیکن کبھی کسی کو اس سے کوئی شکایت نہیں تھی گھر کی چار دیواری اور گھر سے باہر اس کے معمولات زندگی سے سب مطمئن اور وہ سب سے راضی تھا۔ موت زندگی کے اختتام کا نام نہیں بلکہ لا محدود زندگی کے آغاز کا نام ہے ہر ذی روح نے اس رب کے حضور پیش ہونا ہے اس دنیا سے اس دنیا کی طرف سب نے سفر کرنا ہے جہاں راحت یا تکلیف کا انحصار ہمارے اعمال پر ہے۔ جو لوگ زندگی جیسی نعمت کو کسی عظم مقصد کے لئے قربان کر دیتے ہیں وہ حیات جاوداں پا لیتے ہیں۔

کسی کی جان بچانا ایسے ہی ہے جیسے پوری انسانیت میں نئی روح پھونک دینا کسی کی زندگی کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی کا چراغ بجھانے والے شہید ہوتے ہیں، مناظر عباس معاشرے کا ایسا کردار ہے جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دو معصوم بچوں کو بچا کر ان کی زندگی کو جلا بخشی اور اس کے اس کردار نے جذبہ انسانیت کی نئی سمت کا تعین کیا جو اس معاشرے میں بسنے والے افراد کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ مناظر عباس اپنے مالک کی دکان پر حسب معمول کام مصروف تھا جس دکان پر وہ کام کرتا تھا اس کے سامنے سے ایک بڑی نہر گزرتی تھی دو بچے جن کی عمر دس سے چودہ سال تھی نہر کنارے لگے نلکے سے پانی پی رہے تھے کہ اسی اثناء میں یکے بعد دیگرے دیکھتے ہی دیکھتے پاؤں پھسلنے کے باعث نہر میں جا گرے مناظر عباس یہ منظر اپنی آنکھوں کے سامنے دکان میں موجود دیکھ رہا تھا۔

جونہی دونوں بچے نہر میں گرے مناظر عباس نے ان بچوں کو بچانے کی غرض سے نہر میں چھلانگ لگا دی اور دونوں بچوں کو بحفاظت پانی سے آزاد کرواتے ہوئے کنارے پر پہنچا دیا بچے تو بچ گئے لیکن مناظر عباس کا پاؤں پھسلا تو وہ نہر کے تیز رفتار پانی کے بھنور میں پھنس گیا لیکن پھر فرشتہ اجل نے اتنا موقع نہ دیا کہ وہ نہر کی بے رحم موجوں کا مقابلہ کر سکتا مناظر عباس موت و حیات کی کشمکش میں پانی کے تھپیڑوں سے جنگ لڑتا رہا یہاں تک کہ اس کے اعصاب جواب دے گئے اور اس کو نہر کے تیز رفتار پانی نے ایک آسیب کی طرح نگل لیا۔

واقعہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح علاقہ میں پھیل گئی لوگوں کا جم غفیر نہر کے پانی کی جانب سوگوار نظروں سے دیکھ رہا تھا لیکن مناظر عباس اس دنیا فانی سے رخصت ہو کر خود کو پانی کی آغوش میں دے چکا تھا۔ ریسکیو کی ٹیم نے امدادی کارروائی کرتے ہوئے کئی گھنٹوں کے بعد مناظر شہید کی نعش نہر سے نکال لی اور نعش ورثاء کے حوالے کر دی اس المناک حادثہ پر پورا علاقہ پر سوگ کی چادر تن گئی مرحوم مناظر کی نماز جنازہ ریلوے پارک گراؤنڈ میں ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ادا کی گئی مناظر عباس کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

مناظر تو رخصت ہوا لیکن معاشرے کے لئے ایسی مثال قائم کر کے دلوں میں امر ہو گیا جو تا دیر یاد رکھی جائے گی اب سوال یہ ہے کہ اس کے معصوم بچوں کے سر پر دست شفقت کا ہاتھ کون رکھے گا اس خاندان کو مستقبل میں پیش آنے والی معاشی ناہمواری کو ہموار کرنے میں کون مددگار ہو گا اس سلسلہ میں کالیکی منڈی کے مقامی صحافیوں نے اپنے فرائض بطریق احسن انجام دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر حافظ آباد منتخب نمائندوں اور علاقہ کے صاحب ثروت افراد کے سامنے آواز بلند کرتے ہوئے اپیل کی ہے کہ وہ مناظر عباس کے بے سر و سامان خاندان کے لئے مالی معاونت کرتے ہوئے اس کے بچوں کے روشن مستقبل کا بھی بیڑا اٹھائیں یقیناً یہ قابل تقلید اور قابل ستائش عمل ہے جو مقامی صحافیوں نے اٹھایا ہے۔

مقامی صحافی جن میں احمد رضا خان شاہد یعقوب عامر اور دیگر شامل ہیں ان صحافیوں نے اپنی آواز سے ضلعی انتظامیہ اور معاشرے کے صاحب اختیار اور مخیر حضرات کے علاوہ اوور سیز پاکستانیوں کے سامنے اس خاندان کی مالی معاونت کے دست دراز کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں آج جب ملک کے حالات اس نہج پر ہیں کہ بے روزگاری‘ مہنگائی اپنے بام عروج پر ہے عام آدمی کے لئے دو وقت روٹی کا حصول انتہائی مشکل ہے ایسے میں مناظر عباس کے خاندان کی کفالت کے لئے کسی کا آگے بڑھنا اور اس خاندان کی کفالت اور اس کے بچوں کی تربیت کا بیڑہ اٹھانا بڑا مستحسن اقدام ہو گا جس سے جگ بھی راضی اور رب بھی راضی ہو گا اگر صاحب ثروت افراد اپنے ارد گرد ایسے خاندانوں پر نظر رکھیں اور ان کے لئے مددگار ثابت ہو کر انہیں معاشرے کا کار آمد اور باوقار شہری بنانے میں معاونت کریں تو یقیناً معاشرہ نکھر کر دیگر معاشروں کے لئے ایک بہترین دلیل ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments