نقلیات پر ایک نظر


برصغیر میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی ادبی خدمات ایسٹ انڈیا کمپنی کے برعکس ہیں۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں اردو لسانیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج میں اپنی تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ کئی کتابیں مرتب بھی کی ہیں۔ لسانیات پر کئی منشیوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو انہوں نے مرتب کیا ہے۔ محمد عتیق صدیقی نے اپنی کتاب ”گلکرسٹ اور اس کا عہد“ میں گلکرسٹ کے تفصیلی و تحقیقی احوال بیان کیے ہیں۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی ”نقلیات“ سے منسلک ہے۔ یہ کتاب میر بہادر علی حسینی نے دیگر منشیوں کے ساتھ مل کر لکھی تھی۔ اس کتاب کے سرورق کی غیر موجودگی کے سبب معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کتاب کس نے لکھی ہے۔ بعد ازاں گلکرسٹ کے ایک خط سے تصدیق ہوئی۔ کیونکہ کتاب کا اختتامیہ گلکرسٹ نے لکھا تھا اس لئے غلط فہمی ہوئی کہ کتاب بھی اسی نے لکھی ہے، لیکن اس نے مرتب ہی کی تھی۔

اس کتاب کے ذریعے انگریزوں کو اردو زبان و ادب سے آشنائی کروانے کی سعی کی گئی۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ کے ساتھ اس کام میں دیگر اردو ادب کے مصنفین کی مدد بھی شامل حال رہی۔ کتاب تین متون پر مشتمل ہے۔ پہلا انگریزی متن جو رومن میں ہے، دوسرا ہندی جو دیوناگری میں اور تیسرا اردو جو کہ نستعلیق میں ہے۔ اس کتاب کا مقصد چونکہ انگریزوں کو اردو پڑھانا تھا لہذا اسی کے متعلق لکھا گیا ہے۔ کتاب کے مضامین لسانیات کے متعلق ہیں، ان مضامین کی فہرست درج ذیل ہے۔

1۔ اردو زبان و بیان
2۔ اردو، ہندی، پنجابی اور فارسی محاورات
3۔ تہذیبی و معاشرتی کہاوتیں
4۔ اردو املا
5۔ تلفظ (علاقائی تفرقات کے حوالے سے )
6۔ الفاظ کے مرادفات اور ان کی اہمیت
7۔ علامات کی مدد سے الفاظ کی پہچان

زبان و بیان کے حوالے سے نقلیات کے لکھنے میں کسی قسم کا تردد نہیں کیا گیا۔ یعنی غیر مانوس الفاظ کو استعمال نہیں کیا گیا۔ کیونکہ مقصد زبان و بیان سے واقفیت کروانا تھا لہذا بیان آسان اور روزمرہ نوعیت کا ہونا از حد ضروری سمجھا گیا۔ جس طرح عام بول چال میں لوگ کسی قسم کے تکلف میں نہیں پڑتے اور روزمرہ گفتگو میں استعمال ہونے والے الفاظ کو زبان سے بیان کر دیتے ہیں۔ اس کی مثالیں کتاب میں جابجا ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نقل ہے۔

”ایک بڑے آدمی نے اپنے کسی دوست سے کہا کہ جتنے ناموں میں ’بان‘ آتا ہے، مثل فیل بان، ساربان وغیرہ سب بدذات ہیں۔ اس نے کہا ہاں مہربان! سچ کہتے ہو“ ۔

اس نقل کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ الفاظ اور بیان عام گفتگو کے بالکل قریب ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی پڑھنے والے کو لطیفہ بھی مل جاتا ہے۔

ان نقلیات میں سے کئی اردو، ہندی، پنجابی اور فارسی زبان سے جڑی ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان میں بات کو بخوبی سمجھانے کے لئے مختلف زبانوں کے محاورے بیان کیے ہیں۔ اور یہ تہذیب و معاشرت کی آمیزش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مثلاً فارسی زبان کے حوالے سے ایک نقل ہے۔

”فیضی کو کتوں سے بہت شوق تھا۔ اکثر اوقات گردوپیش بیٹھے رہتے تھے۔ ایک دن اسی حالت میں عرفی آوارد ہوا اور ظرافت سے پوچھا۔ ایں صاحب زادگاں چہ نام دارند۔ فیضی نے جواب دیا کہ ہمیں عرفی۔ بہ مجرد عرفی نے کہا ’مبارک‘ ۔ فیضی خجل ہو چپ ہو رہا، اس واسطے کہ اس کے باپ کا یہی نام تھا“ ۔

تہذیبی و معاشری حوالے سے بھی یہ نقلیات بڑی اہم ہیں۔ کیونکہ عام بول چال سے ہی معاشرے میں رائج رسم و رواج کا پتا چلتا ہے۔ اور کچھ کہاوتیں ایسی ہیں جن سے اخلاقی سبق بھی ملتا ہے۔ لہذا کسی بھی قوم کی زبان کی کہاوتیں اور محاورے زبان اور لوگوں کی زرخیزی کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں۔

مثلاً ایک نقل ہے۔ ”ایک صاحب مروت کا بھائی نہایت شریر بدذات تھا۔ جب تب ایسا کام کرتا کہ حاکم کے یہاں پکڑا جاتا۔ دوسرا بھائی کچھ اپنا خرچ کر کے اسے چھڑا لاتا۔ یہاں تک کہ وہ غریب مفلس ہو گیا۔ ایک نے اس سے کہا کہ بابا تونے عبث بھائی کے واسطے اپنے تئیں برباد کیا۔ اسے نکال کیوں نہیں دیتا۔ اس نے کہا کیا تم نے یہ مثل نہیں سنی ہے ’ٹوٹی بانہہ گل جندڑے‘ “ ۔

درست تلفظ کے لئے نقلیات میں الفاظ پر خاص طور پر ( عربی و فارسی) اعراب لگائے گئے ہیں۔ ان اعراب کے علاوہ کئی علامتوں کے ذریعے بھی الفاظ کی ادائیگی کو آسان بنانے کے حربے استعمال کیے گئے ہیں۔ کسی کسی جگہ ن غنہ (ں ) کو نہیں لکھا گیا یعنی ماں کا مال کو ، ما کا مال لکھا ہے۔ اور علامتوں میں خاص طور پر ان علامات کا (^ 1 °) استعمال کیا گیا ہے۔

لفظ ایک، نیک اور دیگ میں (ے ) سے برآمد ہونے والی آواز کے لئے چھوٹے سے حلقے ° کی علامت استعمال کی گئی ہے۔

مثلاً کرے °گا اور فریب° وغیرہ۔

دوسری طرف ایسا، کیسا، ویسا اور جیسا کی (ے ) سے برآمد ہونے والی آواز کے لئے جزم کا نشان ^ استعمال ہوا ہے۔

مثلاً تیرا^، پیسہ^ اور خیرات^ وغیرہ۔
کئی الفاظ کو ہمزہ کے بغیر ہی لکھا گیا ہے۔ جیسے آئے کی بجائے آئے یا گئے کی بجائے گے وغیرہ۔

فعل ماضی اور حرف استفہام میں سے حرف استفہام کی (ی) کے نیچے ایک لمبی لکیر کھینچی گئی ہے۔ مثلاً کیا، فعل ماضی اور کیا، حرف استفہام 1۔

اسکے علاوہ بھی کئی الفاظ کی پہچان کروانے کے لئے مختلف علامتوں کا سہارا لیا گیا ہے۔ اور کئی نقلیات میں الفاظ کے ساتھ ان کے تین تین مرادفات بھی لکھے ہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک ہی نقل الفاظ بدل کئی مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے۔

کتاب کو پڑھنے کے بعد میر بہادر علی حسینی اور جان گلکرسٹ کی اردو زبان و ادب سے لگن اور محبت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی پتا چلتی ہے کہ اردو زبان کس قدر زرخیز ہے کہ قارئین کو سہلانے کے لئے اس کا دامن بڑا وسیع ہے۔ نیز جان گلکرسٹ نے عملی زندگی کا آغاز طب سے کیا تھا اور جس دور میں اس نے قلم اٹھایا اس وقت وہ تلوار بھی اٹھا سکتا تھا۔ لہذا اردو ادب کے دوسرے اکابر علماء و فضلاء سے گلکرسٹ کا موازنہ کیے بغیر اس کی اپنی اہمیت مسلم ہے۔

ماخذ
• میر بہادر علی حسینی، نقلیات، مرتب از پروفیسر سید وقار عظیم، مجلس ترقی ادب، لاہور، طبع دوم 1966 ء۔
• محمد عتیق صدیقی، گلکرسٹ اور اس کا عہد، انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، طبع دوم 1979 ء۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments