عمران خان کی پیشی، کنٹینرز، جھڑپیں، گاڑی سے لپٹے کارکنان اور قصہ گمشدہ فائل کا


Imran Khan
لاہور کے زمان پارک سے جب میں رات گئے واپس اسلام آباد آباد پہنچی تو پھر اگلی صبح منزل جوڈیشل کمپلیکس تھی۔ ابھی حالیہ گذرے دنوں میں پیش آئے واقعات میرے ذہن میں تازہ تھے، جس میں زمان پارک کی رہائش گاہ پر عمران خان کے ساتھ انٹرویو اور پھر ان کے ذہن میں پائے جانے والے خدشات بھی میری یادداشت کو اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔

میں جب سنیچر کی صبح دس بجے ہی اس کمپلیکس میں پہنچی تو یہ وہی جگہ تھی جہاں اس سے قبل مختلف عدالتوں کے سامنے پیش ہونے خود عمران خان، راجہ پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری بھی آ چکے ہیں۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں میں نے چند برس قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ پانامہ ریفرنسز میں پیشیاں بھگتتے دیکھا۔

مگر آج فرق یہ تھا کہ آج مجھے انتظار تھا تو وہ ایک اور وزیر اعظم کی پیشی کا۔ اب یہ بھی محض اتفاق تھا کہ دارالحکومت کی ایف ایٹ کچہری سے جو عدالت اس جوڈیشل کمپلیکس میں منتقل کی گئی تو وہ نیب کی اس احتساب عدالت میں سجی جہاں سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس میں اڈیالہ جیل میں قیام کا پروانہ ملا تھا۔

بس یہ اور بات ہے کہ آج اس وقت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اب عمران خان کے وکیل کی حیثیت سے فائلیں درست کر رہے تھے۔

اس وقت تو مجھے سب معمول کے مطابق ہی لگ رہا تھا۔ مگر پھر جو ہوا وہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی نظر بھی ہوا۔

https://www.youtube.com/watch?v=9MYLFErg2VY

جوڈیشل کمپلیکس کا سناٹا اور عمران خان کی گرفتاری کی افواہ

جوڈیشل کمپلیکس ایک وقت پر اتنا خاموش تھا کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ شاید آج عمران خان عدالت تک نہ پہنچ سکیں۔ اس کےساتھ ہی سنیچرکی صبح سے یہ افواہ زور پکڑ گئی کہ عمران خان کو آج عدالت کے باہر سے گرفتار کرلیا جائے گا۔

اب یہ کارکنان کسی صورت عمران خان سے دور رہنے کو تیار نظر نہیں آ رہے تھے پھر جوڈیشل کمپلیکس کے باہر ماحول ایسا کشیدہ ہوا کہ پتھراؤ، شیلنگ، ڈنڈے، گھیراؤ، جلاؤ جیسے سب ایک ہی جملے میں صف آرا نظر آئے۔

سنیچر کی صبح سے ہی جوڈیشل کمپلیکس کو چاروں طرف سے کنٹینرز لگا کر بند کردیا گیا تھا۔ عمران خان کے کارکنان میں سے تو کوئی عدالت کے احاطے تک نہیں پہنچ سکا لیکن دوپہر تک یہاں پر کارکنان کی بھاری تعداد کنٹینرز کی دوسری جانب پہنچ چکی تھی۔

اور پولیس کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں تھے اور یوں متعدد مواقع پر پولیس پسپائی بھی اختیار کرنے پر مجبور نظر آئی۔

پھر باقاعدہ طور پر پتھراؤ کا سلسلہ شروع ہوا جو کنٹینرز کی دوسری جانب سے کیا گیا۔ اس دوران پولیس، وکلا، اور میڈیا عدالت کے گرد لگے کنٹینرز کے بیچ میں پھنس کر رہ گئے۔

تحریکِ انصاف کے کارکنان کے مشتعل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آج عمران خان کے لاہور سے نکلنے کے بعد پولیس سرچ وارنٹ لے کر زمان پارک میں ان کی رہائشگاہ پر پہنچ گئی، جس کے بعد اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کشیدگی مزید بڑھ گئی۔

Judicial Complex

یہ بھی پڑھیے

عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش، کیا سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے بات چیت ممکن؟

عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات کے بیچ وہ مقدمہ جو حالات کو اس نہج تک پہنچانے کا باعث بنا

’پاکستان میں سیاسی بحران جتنا بڑھے گا، بدامنی اور انتشار میں اتنا ہی اضافہ ہو گا‘

اس دوران پولیس اہلکار، سپیشل برانچ اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کی ایک بڑی تعداد عدالت کے احاطے اور گیٹ کے باہر موجود رہی۔ مشتعل کارکنان کی ناراضگی سب کے حصے میں جیسے برابر آئی ہو اور یہاں جیسے ناراض کارکنان نے بالکل کوئی ناانصافی نہ کی ہو۔

میں نے پولیس کے پاس ڈنڈوں اور ڈھال کے علاوہ آنسو گیس کے شیل بھی دیکھے۔ پولیس اور کارکنان کے درمیان چھڑپوں کے دوران ہی عمران خان کی گاڑی عدالت کے باہر پہنچی اور پھر ایسے پڑاؤ ڈالا کہ جیسے یہ گاڑی خودکار نظام سے ہی پہیہ جام ہڑتال پر چلی گئی ہو۔

یہ چلتی بھی کیسے۔ اس کا بس بھی تو نہیں چل رہا تھا۔ اس گاڑی کے چاروں طرف پی ٹی آئی کے کارکنان لپٹے ہوئے تھے۔

اس کے بعد تقریباً 20 منٹ تک پولیس اور عمران خان کے کارکنان کے درمیان بحث جاری رہی۔

پولیس کا مؤقف تھا کہ عمران خان گاڑی سے نکل کر عدالت میں پیشی کے لیے آئیں جبکہ کارکنان کا اصرار تھا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے وہ انھیں تنہا کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان کے یہ کارکنان آج کسی صورت کسی بات کو ماننے کو تیار نہیں تھے۔

PTI

جب فائل ’دستخط‘ کے لیے گاڑی میں پہنچی

ایسے میں جہاں پہلے عمران خان کے لیے عدالت کا مقام تبدیل ہوا اب ان کے لیے عدالتی پیشی پر دستخط کے لیے فائل بھی ان کی گاڑی تک لے جانے کی اجازت دی گئی۔ انھوں نے عدالتی اجازت کے بعد گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی فائل پر دستخط ثبت کر کے وہاں سے واپسی کا سفر اختیار کر لیا۔

عمران خان کی واپسی کے بعد بھی پولیس اورکارکنان کے درمیان جھڑپوں میں کوئی کمی واقع نہیں آئی۔ جوڈیشل کمپلیکس کے چاروں طرف سے پتھروں کی بوچھاڑ اور کارکنان کی گالم گلوچ جاری رہی۔

اطراف میں چند لوگ ایسے بھی تھے جو ان دونوں کے درمیان جھڑپ دیکھنے کی غرض سے آئے تھے اور پھر بعد میں خود بھی اس تنازعے کا حصہ بن گئے۔ نعروں اور گالیوں کی گونج میں پولیس اہلکار خود کو اور ساتھ کھڑے دیگر افراد کو بچانے کی کوشش کرتے رہے۔

جاتے ہوئےایک سرکاری گاڑی کو جلتے دیکھا جس کو بعد میں اُلٹا دیا گیا۔ جبکہ ایک شخص نے خالی شیلوں کے خول سے بھری ایک تھیلی دکھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ دیکھو کہ یہ نہتے لوگوں کو کیسے مارتے ہیں!‘

جہاں ایک طرف جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں کشیدگی بدستور جاری تھی وہیں عدالتی سماعت کے دوران عمران خان کی حاضری کی دستاویز کے گم ہونے کا معاملہ بھی سامنے آیا جب عدالت کے استفسار پر یہ بات پتہ چلی کہ پولیس اور عمران خان کے وکلا دونوں میں سے کسی کے پاس بھی وہ فائل موجود نہیں ہے۔

عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کی بات پر یقین کیا جائے تو پھر اسلام آباد پولیس یہ فائل جلد یا بدیر عدالت میں پیش کر دے گی۔

اب میرے ذہن میں یہی چل رہا تھا کہ اس چپقلش کا زیادہ ذمہ دار کون ہے، اس بحث میں نہ پڑا جائے تو بہتر ہے۔ اب ٹی وی سکرین پر حکومتی ترجمانوں سمیت ہر کوئی اپنے نکتہ نظر سے ان حالات کی تعبیر کر رہا تھا، جن کی میں آج عینی شاید بن کر دفتر میں پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments