سمیسٹر سسٹم طلبہ کے لئے مسیحا یا وبال جان ؟


پاکستان میں سمیسٹر سسٹم کے حامی ماہرین اسے طلبہ کے لئے مفید قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس نظام میں متعلمین ہر مضمون کو یکساں وقت اور توجہ دے پاتے ہیں۔ یہ نظام نوجوانوں میں اسٹریس اور ٹائم مینجمنٹ کی استعداد پیدا کرنے کے لیے بہترین ہے۔

یونیورسٹیز کے طلبہ اور اساتذہ کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو سمیسٹر سسٹم کی افادیت کو قبول تو کرتا ہے البتہ اس نظام کو پاکستان کے معاشی و معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں پاتا۔ طلبہ کا یہ طبقہ سمیسٹر سسٹم کو جامعات انتظامیہ کے لئے کمائی کا ایک ذریعہ اور نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ قرار دیتا ہے۔

ڈاکٹر امتیاز احمد شعبہ قانون جامعہ ساہیوال کے بانی سربراہ ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ طلبہ کا سمیسٹر سسٹم کے حوالہ سے بڑا گلہ بچوں کو ناجائز فیل کرنے کے بارے ہوتا ہے۔ کیا یہ سسٹم کی خرابی ہے یا وجہ کچھ اور ہے؟

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ ہر نظام اچھائیوں کے ساتھ نقائص رکھتا ہے کوئی نظام صد فیصد درست نہیں ہوا کرتا۔ اساتذہ بچوں کے دشمن نہیں۔ ایک بچے کو ناجائز فیل کرتے وقت استاد کا ضمیر بارہا ملامت کرتا ہے۔ بچوں کی جانب سے اکثر اوقات سخت زیادتی کی جاتی ہے۔ طالبعلم اپنی غلطی سے فیل ہوتے ہیں جس کا ملبہ استاد پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک کو اگر فیل کیا جائے تو وہ کبھی اپنی خطا کی ذمہ داری قبول نہ کرے گا بلکہ اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی ساکھ بچانے کے لئے ساتھی طالبعلموں کے سامنے ٹیچر کو مورد الزام ٹھہرا دے۔ پاکستان میں جس طرح ہر شعبہ کے روشن پہلوؤں سے زیادہ خامیوں کا پرچار کیا جاتا ہے ویسے ہی پڑھائی پر توجہ نہ دینے والے طلبہ اس نظام کی برائیاں اچھال کے اپنی سبکی دور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

پنجاب کی تین مختلف سرکاری جامعات کے معلمین سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک سمیسٹر سسٹم میں اساتذہ اکرام کا رویہ طلبہ کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے اور کیا تنہا طالب علم ہی امتحان میں اپنی ناکامی کے ذمہ دار ہیں؟

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ یقیناً طلبہ اپنے فیل ہونے کے قصور وار خود ہیں البتہ ہم اساتذہ بھی کسی حد تک شریک جرم ہیں۔

سمیسٹر سسٹم میں نووارد طلبہ مختلف تعلیمی و طبقاتی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے کچھ گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں ہم اساتذہ کو سمجھنا چاہیے کہ مہنگائی کے دور میں جو بچہ امتحان میں پاس ہونے قریب پہنچ جاتا ہے اس کو فیل کرنے سے قبل بچے کی ذہنی استعداد کو مد نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ ”ری پیٹ“ (مضمون دہرانے) میں دی جانے والی بھاری فیس کا اثر والدین کی جیب پر پڑتا ہے طالبعلم بجائے اصلاح کے اساتذہ سے متنفر ہو جاتے ہیں۔ معلم کی نظر کمرہ جماعت میں موجود ہر بچے پر ہونی چاہیے اور پیپر تیار کرتے وقت اس بات کو مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ کلاس میں جو پڑھایا گیا ہے آخری بینچ پر بیٹھا طالب علم اس کو سمجھ بھی پایا ہے یا نہیں۔ بحیثیت استاد ہماری اولین ترجیح بچے کو پاس کرنے کی ہی ہوتی ہے۔

یونی ورسٹی کے مختلف درجات پے موجود طلبہ سے بات کی گئی تو ان کا موقف تھا کہ اساتذہ پیپر جانچنے کے دوران بچے کی قابلیت کو قطعاً مد نظر نہیں رکھتے بلکہ بچوں کی یادداشت (رٹے ) کا امتحان لیا جاتا ہے۔ جس کی یادداشت زیادہ قوی ہوتی ہے وہ زیادہ نمبر لے اڑتا ہے برعکس اس کے ”منطقی و کریٹیکل“ ذہن رکھنے والا طالبعلم پیچھے رہ جاتا ہے۔ کچھ اساتذہ ایسے بھی ہیں جو محض انشائیہ سوالات پر مبنی پیپر دیتے ہیں جبکہ پرچہ چیک کرتے وقت پڑھنا ہی مناسب نہیں جانا جاتا بلکہ پیپر ”پریزینٹیشن“ کی بنیاد پر نمبروں کی تقسیم کردی جاتی ہے۔

اساتذہ جس بچے سے بغض رکھتے ہوں پیپر میں اس کی کمزوریوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اتنی سخت چیکنگ کرتے ہیں کہ اس کا مستقبل تاریک ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ بعینہ کچھ اساتذہ ایسے ہیں جو پیپر کے نمبر تو دیتے ہیں البتہ سیشنل نمبر انفرادی صلاحیتوں کی بجائے پوری جماعت کو ایک ہی عدد میں دیتے پائے جاتے ہیں جس سے ”جی پی اے“ شدید متاثر ہوتا ہے۔ طلبہ چند اساتذہ پر جنسی بنیادوں پر تفریق کا الزام بھی عائد کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ بعض اساتذہ طالبات کو نمبر دیتے وقت از مانند حاتم طائی سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ لڑکیوں سے زیادہ قابل لڑکوں کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی متعصبانہ رہتا ہے۔ طالبات کی جانب سے اساتذہ پر جنسی ہراسانی کے الزامات کچھ نئے نہیں۔

سمیسٹر سسٹم میں کچھ طلبہ کو تیسرے یا پانچویں سمیسٹر میں ڈراپ کر دیا جاتا ہے کیا یہ معمہ حل طلب نہیں کہ یونی ورسٹی میں ڈیڑھ یا اڑھائی سال کا عرصہ گزار جانے کے بعد طالبعلم اچانک سے کچھ مضامین میں فیل ہو جس پر اسے بغیر دوسرا موقع دیے گھر کی راہ لینا پڑتی ہے اس بچے کے اڑھائی برس اور لاکھوں روپوں کی فیس کے ضیاع کا ذمہ دار آخر کون ہے؟ وہ طالبعلم جو اس نظام کے تقاضوں کو نہ سمجھ پایا یا وہ اساتذہ جو اڑھائی سال اپنے زیر اثر رہنے والے طالبعلم کی درست تربیت نہ کر سکے؟

اساتذہ اور طلبہ دونوں کی آراء کو میزان میں رکھا جائے تو یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست کہتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ اپنے درمیان موجود کالی بھیڑوں سے اظہار لاتعلقی اور ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ان کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ٹیچرز کو بچوں کی نفسیاتی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اساتذہ کی جانب سے طلبہ کے ساتھ ناروا و جابرانہ سلوک کی زیادہ تر شکایات نو تعمیر خصوصاً چھوٹے شہروں کی جامعات سے موصول ہوتی ہیں جہاں احساس کمتری عام اور خود اعتمادی کا فقدان ہے۔ اساتذہ کو طلبہ کی خود اعتمادی میں اضافہ کے لئے مناسب ماحول فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سمیسٹر سسٹم میں معلم و متعلم کے تعلقات ”خوف“ اور استاد کی افتاد طبع اور مزاج پر منحصر ہوتے ہیں جس کو تبدیل کر کے باہمی احترام کا رشتہ قائم کرنا ناگزیر ہے۔

سمیسٹر سسٹم میں چند تبدیلیاں کر کے اس کو ایسا بنانا چاہیے کہ شاگردوں کا رجحان خوش آمد اور ٹیچر کی ہاں میں ہاں ملا کر زیادہ ”سی جی پی اے“ کے حصول کی بجائے کچھ نیا سیکھنے اور استاد کے تحقیقی کام کو علمی بنیادوں پر رد کر کے کچھ نیا تخلیق کرنے کی جانب مبذول ہو۔ بعینہ اساتذہ کا کام محض پڑھانے کی حد تک ہونا چاہیے امتحانات کی انعقاد اور پیپرز کی چیکنگ کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ”سیکنڈری بورڈ“ طرز کا اپنا ایک تعلیمی بورڈ تشکیل دینا چاہیے جس میں کسی تیسرے خود مختار و غیر جانبدار فریق سے پیپر چیک کروا کے اساتذہ اور طلبہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جا سکے۔ سیشنل نمبروں کے لئے بھی مبنی بر انصاف و حقیقت نظام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس تعلیمی نظام پر موجود سوالیہ نشانات مندمل ہو سکیں۔

طلبہ کو اپنی خامیوں کی درستگی پر توجہ دینے اور اپنی اغلاط سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا سیکھنا چاہیے۔ حکومت پاکستان جامعات کے بجٹ اور اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کرے تاکہ ”سمر“ کے نام پر بچوں کا تعلیمی استحصال بند ہو۔ جامعات کا بجٹ بڑھنے سے سہولیات میں اضافہ ہو گا جس سے سمیسٹر سسٹم کی افادیت طلبہ تک پہنچے گی بدقسمتی سے ہم نے یہ نظام یورپ سے درآمد تو کر لیا البتہ اس کے ساتھ جڑے دیگر لوازمات جامعات تک پہنچانے میں ناکام رہے۔

حکومت کو جامعات میں ”اسٹوڈنٹ باڈیز“ کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے سرکاری جامعات میں ”تعلیمی سوسائٹیز“ سرکاری فنڈز ہڑپ کرنے کا محض اک بہانہ ہے۔ طلبہ اس سے کچھ نہی‍ں سیکھ پاتے طلبہ یونین کی بحالی سے اول تو جامعات میں طاقت کا پلڑا متوازن ہو گا جس سے نوجوانوں کے آدھ سے زائد مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے دوئم پاکستان کے سیاسی نظام میں اچھے تربیت یافتہ اور شفاف کردار کے حامل سیاستدانوں کی آمد ہوگی۔ جب تک اسٹوڈنٹ یونینز بحال نہیں ہو جاتیں تب تلک جامعات کے عزت مآب وائس چانسلرز صاحبان کو بچوں سے مل کر ان کے مسائل پوچھنا چاہئیں اور جامعہ میں طلبہ و اساتذہ پر مشتمل ایسی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے جس میں طلبہ و طالبات سمیت اساتذہ اکرام اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بلا خوف و خطر بیان کرسکیں اور یہ کمیٹی اس قدر با اختیار ہو کہ کسی ایک فریق کی غلطی پر اسے سزا دے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments