نطشے نے کیا کہا تھا؟ مکمل کالم


انقلاب روس کے بعد سزا پانے والے تین افراد کو جب جیل لے جایا جا رہا تھا تو تینوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ انہیں کس جرم کی سزا ملی۔ پہلے شخص نے بتایا کہ ’میں فیکٹری دیر سے پہنچتا تھا اِس لیے انہوں نے مجھ پر انقلاب اور پرولتاریہ کی فتح کو سست کرنے کا الزام لگایا۔‘ دوسرے نے کہا کہ ’میں وقت سے پہلے فیکٹری پہنچ جاتا تھا اِس لیے انہوں نے مجھے اپنے ساتھی کارکنوں کی حمایت کا الزام لگا کر سزا سنا دی۔‘ پھر اُن دونوں نے تیسرے سے سوال کیا کہ ’تمہیں کس بات کی سزا ملی؟‘ تیسرے شخص نے ٹھنڈی آہ بھر کر جواب دیا : ’میں ہمیشہ ٹھیک وقت پر فیکٹری پہنچتا تھا اِس لیے انہوں نے مجھ پر مغرب سے گھڑی لانے کا الزام لگا دیا۔‘

اتوار کو کسی خشک موضوع پر کالم لکھنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی نوجوان اپنی محبوبہ کو ویلنٹائن ڈے پر پھولوں اور چاکلیٹ کا تحفہ دینے کی بجائے مہینے کا راشن ڈلوا دے۔ اتوار کی مناسبت سے کالم کا موضوع چونکہ قدرے خشک ہے اِس لیے حفظ ما تقدم کے طور پر میں نے آغاز میں لطیفہ سنا دیا ہے جو اتفاق سے برمحل بھی ہے۔ عنوان میں نطشے کا نام شامل ہے، اُس کا ذکر آخر میں ہو گا۔ پہلے پاکستان کے مردِ آہن فیلڈ مارشل (خود ساختہ) حضرت ایوب خان کی بات کر لیں جنہوں نے ملک میں پہلا مارشل لا لگانے کی سعادت حاصل کی تھی۔

سنہ 1958 میں ’دوسو کیس‘ عدالت عظمی ٰ میں زیر غور تھا، اِس مقدمے کے، جو بعد میں تاریخی اہمیت حاصل کر گیا، حقائق کچھ یوں ہیں کہ دوسو نامی ایک شخص نے قبائلی علاقے میں کسی کو قتل کر دیا، اُس پر ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلا اور قبائلی جرگے نے اسے سزا سنا دی۔ دوسو نے اِس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی، ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ایف سی آر 1956 کے آئین سے متصادم ہے لہذا جرگے کا فیصلہ خلاف قانون ہے۔ وفاق نے اِس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی، یہ اپیل 13 اکتوبر 1958 کو سنی جانی تھی مگر اِس سے پہلے ملک میں ’انقلاب‘ آ گیا اور 7 اکتوبر 1958 کو ملک کا آئین منسوخ کر دیا گیا اور ایوب خان صاحب، خدا اُن کے آستانہ عالیہ کی حفاظت فرمائے، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔

سپریم کورٹ کے لیے مشکل یہ آن پڑی کہ اگر وہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی تو اِس کا مطلب ہوتا کہ 1956 کے آئین کی توثیق کردی گئی ہے جس کے تحت ہائی کورٹ نے ایف سی آر کو کالعدم قرار دیا تھا۔ ضرورت سے زیادہ عزت مآب جسٹس منیر نے اِس کا حل نظریہ ضرورت کے ذریعے نکالا اور ایوب خان کے انقلاب کو جائز قرار دے کر آئین کی منسوخی پر مہر ثبت کردی، اعلیٰ حضرت نے اپنے فیصلے میں یہ تاریخی فقرہ لکھا

 ”A victorious revolution or a successful coup d ’E‘ tat is an internationally recognised legal method of changing a Constitution.“

(ایک کامیاب انقلاب یا بغاوت، آئین کو تبدیل کرنے کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ قانونی طریقہ ہے ) ۔

اب ایک اور لطیفہ بھی سُن لیں، ہانز کیلسن نامی جس قانون دان سے نظریہ ضرورت منسوب ہے، وہ اِس فیصلے کے وقت زندہ تھا، اُس نے اعلان کیا کہ نظریہ ضرورت کی جو تشریح جسٹس منیر نے کی ہے وہ درست نہیں۔ دنیا کے کسی انقلاب کو عدالت سے تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی، جسٹس منیر کے استدلال میں یہی سقم تھا، اگر کوئی حقیقی انقلاب ہوتا تو اُس صورت میں نہ کوئی ہائی کورٹ ہوتی اور نہ سپریم کورٹ اور نہ کسی وفاقی حکومت کی کوئی درخواست، اُس صورت میں وہی ہوتا جو انقلاب روس یا انقلاب فرانس کے بعد ہوا تھا، وہاں کسی انقلابی نے عدالت سے اپنے اقدامات کے جائز ہونے کی سند نہیں لی تھی کیونکہ ظاہر ہے کہ یہ بات ہی مضحکہ خیز ہوتی، انقلاب کا تو مقصد ہی پورے نظام کو لپیٹ کر ایک نیا سیاسی آرڈر قائم کرنا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس کارنیلیس نے اِس فیصلے میں جسٹس منیر سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

دنیا میں قانونی حکومت کا ایک ہی ماڈل ہے، اِس ماڈل میں عوام انتخابات کے ذریعے اپنی حکومت بناتے ہیں، آئین تشکیل پاتا ہے، ادارے وجود میں آتے ہیں، حقوق و فرائض کا تعین کیا جاتا ہے اور ہر شہری پر قانون کا یکساں اطلاق کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے کیس میں بھی ایسا ہی ہے، 1973 کا متفقہ آئین موجود ہے، اِس آئین کے تحت اگر آج ایمرجنسی لگا کر چند یا تمام بنیادی حقوق معطل بھی کر دیے جائیں تو بھی آئین کی پہلی چھ شقیں معطل نہیں ہوں گی، اِن میں سے شق چار اور پانچ سب سے اہم ہیں۔ شق چار کہتی ہے کہ ہر شہری کو قانون کا تحفظ حاصل ہو گا اور اُس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا جو ایک ناقابل تنسیخ حق ہے۔  شق پانچ کہتی ہے کہ آئین اور قانون کی پاسداری ہر شہری کی غیر مشروط ذمہ داری ہے چاہے وہ کہیں بھی موجود ہو۔

یہ قوانین جو آئین کے تحت بنائے جاتے ہیں یا وہ فیصلے جو عدالتیں اِن قوانین کے تحت کرتی ہیں، اُس وقت تک غیر موثر رہتے ہیں جب تک انہیں قوت کے ذریعے نافذ نہیں کیا جاتا اور صرف ریاست کے پاس ہی یہ قوت نافذہ ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو پھر ریاست کے قوانین اور کسی واعظ کے کہے ہوئے الفاظ میں کوئی فرق نہ رہے۔ محض اخلاقیات کے بل بوتے پر ریاست یا حکومت کا نظام نہیں چلایا جا سکتا ہے اسی لیے تشدد کا کامل اختیار صرف ریاست کے پاس ہی رہتا ہے۔ لیکن یہ اِس معاملے کا ایک رُخ ہے، دوسرا رُخ قدرے پیچیدہ اور خطرناک ہے۔

اگر دنیا میں صرف مروجہ قوانین کی تابعداری کرنا ہی انسانیت کی معراج ہوتا تو پھر آج بھی معاشروں میں غلامی اور نسل پرستی جائز ہوتی کیونکہ کسی زمانے میں اِن خرافات کو بھی قانونی تحفظ حاصل تھا۔ گویا مروجہ قوانین کے خلاف آواز اٹھانا، اُن کے خلاف ڈٹ جانا، نظام کو للکارنا اور اُن ان دیکھی قوتوں کے خلاف برسرپیکار ہونا جو کسی نظام کو اپنے مفادات کے تحت چلاتی ہیں، نہ صرف جائز ہے بلکہ لوگ ایسے شخص کو مہاتما مان لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا میں قانونی حکومت کا تو ایک لگا بندھا ماڈل موجود ہے مگر انقلاب کا کوئی ایک ماڈل نہیں۔ بھگت سنگھ کی جد و جہد ماؤ زے تنگ سے مختلف تھی اور فرانز فانن کا فلسفہ مہاتما گاندھی کے فلسفے سے بالکل الٹ تھا۔ لہذا کسی شخص پر یہ الزام لگا کر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کہ وہ قانون کی پاسداری نہیں کرتا یا خود کو قانون سے ماورا سمجھتا ہے، یہ اُس شخص کی مرضی ہے کہ وہ کون سا ماڈل کس وقت آزماتا ہے۔

نطشے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے Übermensch (سپر مین) کا تصور دے کر ہٹلر کو ایک بیانیہ فراہم کیا جس کے بعد جرمن قوم ہٹلر کو سپر مین سمجھنے لگی۔ اِس بات سے قطع نظر کہ نطشے نے یہ کام ہٹلر کے لیے کیا یا نہیں، سپر مین کا تصور بہرحال ایک ایسے شخص کاہے جو خود کو عظمت کے اُس مینار پر فائز کر لے گا جہاں وہ اچھائی اور برائی سے بالاتر ہو جائے گا، ایسا شخص اپنا قانون اور اخلاقیات خود بنائے گا، وہ کسی اخلاقیات کا پابند نہیں ہو گا، کسی دکھ اور خوشی سے متاثر نہیں ہو گا، وہ مافوق البشر انسان ہو گا، وہ بے درد ہو گا، اگر دنیا اُس کی مرضی پر نہ چلی تو وہ دنیا کو ہی پاش پاش کر دے گا، وہ روایتی کہانیوں کی دھجیاں اڑا دے گا اور اُس کا کہا ہوا حرف آخر ہو گا۔ نطشے نے جو لکھا، ہٹلر نے وہ عملاً کر کے دکھا دیا۔

آج پاکستان کے حالات 1933 کے جرمنی جیسے تو نہیں مگر کچھ مماثلت بہرحال ہے، ایک طرف Übermensch کا بیانیہ ہے تو دوسری طرف ہلکی ہلکی ڈھولکی ہے۔ اِس ڈھولکی سے بھی ایک لطیفہ یاد آ گیا مگر وہ پھر کبھی، فی الحال عوام لطیفے سے زیادہ اچھی خبریں سننے کے لیے بیتاب ہیں مگر بدقسمتی سے اچھی خبروں نے پاکستان سے منہ ہی موڑ لیا ہے۔ آج کی واحد اچھی خبر یہ ہے کہ یہ کالم ختم ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments