ایک ناکام منصوبہ اور ایک بے ہودہ نظیر


وہ سب پہلے بھی بے سمت تھے اور اب بھی انجان اور خطرناک راہوں کی طرف رواں دواں ہیں اگر ہوشمندی سے کام نہ لایا گیا تو تباہی دور نہیں۔

یہ کہانی 2011 میں لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسہ عام سے شروع ہوئی جب عمران خان کو واحد نجات دہندہ اور مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا، جہاں طاقتور حلقوں کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کرنے والے باقی سیاستدانوں کو کرپٹ کے طور پر پیش کر کے انہیں تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

اگلی کڑی 2014 کا دھرنا تھا جہاں عمران خان اور طاہر القادری نے ایک بار پھر جمہوریت کے خلاف دھرنا دے رکھا تھا۔ یہ منصوبہ سازی 2018 میں اپنے عروج پر پہنچی جب عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں کامیابی دلوائی گئی اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران خان اور اس کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں کو کرپٹ اور غدار قرار دے کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ جب عمران خان کو سفارتی غلطیوں اور ملکی معیشت کی بدحالی کی وجہ سے ہٹایا گیا تو انہوں نے ان لوگوں کو للکار نا شروع کیا جنہوں نے انہیں پالا تھا۔ اس دوران، ان معزز ججوں کو بھی جنہوں نے طاقتور حلقوں اور عمران خان کی پالیسیوں میں ہاں نہیں ملائی، ان کے خلاف کیمپین شروع کی گئی۔ جس نے بہت بڑا ادارہ جاتی تنزل اور خلیج پیدا کر دی۔

اب بھی کچھ حلقے اس کی حمایت کر رہے ہوں گے جو کہ زمان پارک لاہور میں عمران خان کے کارکنوں کی قانون ہاتھ میں لینے سے واضح نظر آتی ہے جنہوں نے پیٹرول بم پھینکے، پتھر برسائے اور درجنوں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو زخمی کر دیا جو عمران خان کی گرفتاری کے لیے عدالت کے وارنٹ احکامات کی تعمیل میں گئے تھے۔

عمران خان یہ کہہ کر خود کو عدالت میں پیش کرنے سے گریزاں ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں ہر صورت ضمانت فراہم کی جائے۔ جبکہ اسی دوران وہ لاہور میں جلسوں سے خطاب بھی کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی مثال قائم کر رہا ہے؟ اگر کوئی مسلح جتھا لے کر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرے تو اسے عدالتوں میں پیش ہونے سے روک دیا جائے گا اور عدالتی سمن کو مسترد کر دیا جائے گا؟ اسی دوران پولیس والوں سے کہا گیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال نہ کریں اور انہیں پرسکون اور صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی علاقہ افراتفری اور انارکی کا شکار ہو تو کیا ریاست کو خاموش تماشائی رہنا چاہیے؟ قانون ریاست اور اس کے اداروں کے تحفظ کے لیے بنایا جاتا ہے اور اگر اسے خطرہ ہو تو کیا اسے اپنا راستہ نہیں بنانا چاہیے؟ یہ بے سمت پالیسیاں جو عمران خان کے تحفظ کے لیے اختیار کی گئی ہیں، کچھ اہم سوالات کا باعث بنی ہیں۔

1۔ اسٹیبلشمنٹ سمیت باقی اداروں کی طرف سے پالیسیوں کی وضاحت کا فقدان ہے کہ عمران خان کو کیسے لانچ کیا گیا، ؟ ان کو کیسے لاڈلا بنا کر قانون ہاتھ میں لینے سے نہیں روکا گیا؟

بڑی سفارتی غلطیوں کا ارتکاب کرنے، اداروں کو متنازع بنانے اور ملک میں تشدد کا کلچر پیدا کرنے کے بعد اداروں پر الزام تراشی کر کے اسے اب تک کیوں برداشت کیا جا رہا ہے اور اس کے خلاف مقدمات میں ضمانت پر ضمانتیں کیوں دی جا رہی ہیں؟ سوشل میڈیا پر سوالوں کی بھرمار ہے کہ اگر علی وزیر کو محض تنقید کرنے پر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف پرتشدد مزاحمت کرنے والے عمران خان کو کیسے گرفتار نہیں کیا گیا؟ اگر وہ چھوٹے صوبے سے ہوتے تو کیا ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا جس سے وہ اب لطف اندوز ہو رہے ہیں؟

2۔ تجزیہ کار 2017 میں فیض آباد میں ٹی ٹی پی کے دھرنے کے ساتھ زمان پارک کے واقعہ کو مشابہ رہے ہیں۔ جب ٹی ٹی پی کے کارکنوں نے پولیس کو مارا پیٹا اور قتل بھی کیا لیکن ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اسے محفوظ راہ دی گئی۔ ایسے واقعات قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے حوصلے پست کرتے ہیں اور ریاست کی رٹ کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور تحریک انصاف کو ایسا کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ریاست ایسے گرو کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکنے اور جواب دینے کی پابند ہے

3۔ موجودہ بحران عدلیہ میں ابہام اور تقسیم کی عکاسی کرتا ہے جو اس کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان کی قانونی ٹیم نے ان کی گرفتاری کو روکنے کے لیے مختلف عدالتوں سے رجوع کیا۔ مختلف عدالتی احکامات نے ابہام پیدا کر دیا۔

4۔ یہ بحران یہ واضح کرتا ہے کہ جمہوریت ہی ہمارے مسائل کا حل اور اسے پروان چڑھنے میں ہی ترقی پوشیدہ۔ یہ کہ سیاست دانوں کو اپنے مسائل کا فیصلہ کرنے دیں، اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے کو سیاست میں ملوث نہ ہونے دیں اور یہ کہ عدالتی نظام کی کامیابی کی ضمانت اس کے فیصلے دے۔

یہ منظر نامے یہ بتاتے ہیں کہ اس تمام واقعات میں نقصان اداروں کا ہوا ہیں جن پر مختلف پارٹیاں جانبداری کا الزام لگاتی رہی ہیں، اس ہے ساتھ ساتھ ریاست سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، اور عوام اس کی قیمت ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ بے سمت پالیسیاں تباہ کن ہیں۔ پالیسی سازوں اور طاقت ور اداروں کو سوچنا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments