آخری حد کے پاس نصب، تخت یا تختہ


آپ کو انیس سو اکہتر کچھ یاد ہے۔ سرینڈر سے دو دن قبل جنرل نیازی نے ڈھاکہ انٹر کانٹیننٹل ہوٹل میں آ کر عالمی پریس کے سامنے سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ دشمن کے ٹینک میرے سینے سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتے ہیں ہم ادھر خوش ہو گئے کہ کچھ نہیں ہو سکتا۔ نہ کچھ برا ہو گا۔ کیونکہ ہم صدق دل سے یہ کہا اور سمجھا کرتے کہ۔ پاکستان للہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے گا اور کر رہا ہے۔ دو دن کے بعد سرینڈر ہو گیا۔

حالات خدانخواستہ بہت خراب اور خطرناک ہو چکے ہیں۔ عالمی طاقتیں اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لیے پاکستان میں انسٹال کئیے اپنے وفادار کارندوں اور نام نہاد سیاسی رہنماؤں کی مدد کے لیے کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف چھیڑی گئی اس سکستھ جنریشن وار کے تمام کومپونینٹس اپنی اپنی جگہ پہنچا کر مکمل صلاحیت کے مطابق ایکٹو کئیے جا چکے ہیں۔ عالمی پریس زمان پارک میں بیٹھے عمران خان نیازی کے، ان کی پسند کے سوالات پر مبنی انٹرویوز لے اور نشر کر رہے ہیں۔

اور موجودہ بدترین صورتحال کی وجوہات کے بارے میں ان کے صریحاً جھوٹے موقف کو یک طرفہ طور پر عالمی پریس میں رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ اور تو اور لندن میں بیٹھیں۔ موصوف کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈ سمتھ بھی اس مہم کے ضمن میں سرگرم اور شامل بلکہ معروف امریکی اصطلاح کے مطابق ”آن بورڈ“ دکھائی دے رہی ہیں، اور بیرون ملک سے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف جھوٹے زہریلے پراپیگنڈے میں ملوث کرداروں سے ملاقاتیں اور ان کی سرپرستی کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔

وزیرستان میں ہمیں وارننگ دینے کے لیے ڈرون حملے شروع ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا اقتصادی طور پر سانس روک کر کھل کر دفاعی اثاثوں سے دستبردار ہونے کی وارننگ دی جا چکی ہے۔ جو لوگ اور جن کے ادارے آج تک اس کٹھ پتلی کو پال کر اس کی مسلسل کھلی غیر آئینی مدد اور سرپرستی کر کے حالات کو یہاں تک آئے ہیں۔ خطرناک مسلح دہشت گردوں کی بھاری تعداد کو ملک میں لا کر دوبارہ پاکستان۔ اس کے آئین و قانون کو یرغمال بنا کر پاکستان کے پرامن عوام کو خوفزدہ کر کے خاموش رہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اور بدستور ان دہشت گردوں کی سرپرستی اور کھل کر ان کے موقف کی وکالت بھی اپنے پیش کردہ ہیرو سے عوامی طور پر کروائی جا رہی ہے۔

جنہوں نے اس صورتحال کو درست کرنا تھا۔ وہ گھونگھٹ نکال کر منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ گئے ہیں۔ کہ ہمارا تو نہ اس صورتحال سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی یہ ہمارا کام ہے ہم ملک و قوم کے (خدانخواستہ) آخری دموں اور آخری سانسوں تک ”غیر جانبدار“ رہیں گے، گویا یہ ”غیر جانب داری“ اپنے ملک کے مفاد اور سلامتی سے بھی بالاتر کوئی اور زاویہ ہے۔ جس کا کوئی تعلق اپنے وطن میں پیدا ہو جانے والی کسی بدترین صورتحال سے بھی نہیں ہے۔

ورنہ جب ان کی طرف سے سنہ 2014 میں ہی یہ جنرل (ر) حمید گل کے برین چائلڈ پراجیکٹ کو باقاعدہ طور پرلانچ کیا جا رہا تھا۔ تو کبھی باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے اپنی ہی ریاست پاکستان کی حکومت کو دھمکی دی جاتی کہ ناٹ ایکسپیکٹڈ جب ملک کی ترقی کی شرح چھ فی صد کے نزدیک پہنچ چکی تھی اور تعمیر و ترقی کی رفتار دیکھ کر دنیا کے معاشی ادارے پاکستان کو مستقبل کی اقتصادی طاقت اور ایشین ٹائیگر قرار دے رہے تھے۔ اس وقت ہماری ریاست کے ملازم باجوہ صاحب اپنا اصل کام چھوڑ کر کراچی میں بڑے صنعت کاروں اور تاجروں کو بلا کر اپنی ہی ریاست کی حکومت کو دھمکیاں اور وارننگ دیتے اور ملک کے اقتصادی طور پر تباہ ہو جانے کی نوید سنایا کرتے تھے تو کوئی ان سے کچھ پوچھنے کی جراٰت نہیں کرتا تھا۔

ففتھ جنریشن وار فیئر کے نام پر قوم کے ہی دیے ہوئے وسائل سے اپنی ہی قوم اور ملک کے خلاف ایک بہت بڑی ہمہ جہت منظم میڈیا مہم چھیڑ دی گئی۔ جس کی بہت سی باقیات حیرت انگیز اور پراسرار طور پر اب تک سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ محب الوطن عوام اندھے نہیں ہیں۔ نہ ذہنی طور پر مفلوج زومبیز ہیں۔ وہ یہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ اور کسی حد تک سمجھ رہے ہیں وہ ان سوالات کے جوابات جاننا اور پوچھنا چاہتے ہیں۔

لیکن آج کوئی ان کے ان سوالات کا جواب دینے کو تیار نہیں۔ اب تو صورتحال بدل چکی۔ تو اب بھی یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ اور کون اور کس طرح یہ سب کر رہا ہے۔ کہ ہمارا تو کام ہی نہیں۔ انھی کے بھگوڑے ملک کے غدار ریٹائرڈ ملازمین بیرون ملک اور اندرون ملک کھلے عام میڈیا پر بیٹھ کر مملکت پاکستان۔ اور اپنے ہی ادارے کے خلاف انتہائی زہریلا جھوٹا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی ان کو پوچھنے یا روکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

محسوس ایسا ہوتا ہے۔ کہ عدلیہ سمیت مقتدر ادارے اس گروہ کے ساتھ مل کر اپنے ماضی میں کئیے مجرمانہ اور غیر آئینی اقدامات میں حصہ دار اور ذمہ دار ہونے کی وجہ سے اس مافیا اور عمران نیازی کے ہاتھوں واضح طور پر بلیک میل اور خوفزدہ ہو کر بری طرح پسپائی کا شکار ہو کر اس خونخوار مافیا کے مددگار بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر عمران خان نیازی اپنے ہزاروں کارکنوں کے ہمراہ وکلاء کی ایک بھاری تعداد کی قیادت میں ہائی کورٹ کے احاطے میں طوفان بدتمیزی برپا کئیے ہوئے تھے۔ اور عدالت کی دیواروں تک پر چڑھ رہے تھے، ہمیں یہاں راولپنڈی کی عدالت میں جنرل (ر ) پرویز مشرف کی پیشی کا منظر یاد آ رہا تھا۔ جب وہاں ان کی پیشی کے موقع پر وکلاء کی ایک بھاری تعداد جمع ہو گئی کہ اچانک ٹرکوں اور سرکاری گاڑیوں میں سوٹ اور سول ڈریس میں ملبوس سینکڑوں چاق و چوبند نوجوان وہاں پہنچے۔ اور ان نعرہ زن وکلاء کی پٹائی شروع کر دی۔ وکلاء سے سنبھلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کا کوئی بس نہیں چلا۔ ہم نے راولپنڈی کی کچہری سے مریڑ کی طرف آنے والی سڑک پر اپنے آفیشل ڈریس میں ملبوس وکلاء کو دیوانہ وار دوڑتے ہوئے دیکھا۔ جن کو ان کے پیچھے دوڑتے سوٹوں اور سول لباس میں ملبوس نوجوان مسلسل ٹھوکریں مارتے ہوئے دوڑا رہے تھے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔

اب کئی روز سے عمران خان کی طرف سے ڈنڈوں۔ غلیلوں۔ پیٹرول بموں اور آتشین اسلحہ سے مسلح جتھے۔ صوبائی دارالحکومت میں خیمہ زن اور جمع کر کے ملک میں خانہ جنگی کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ جن کے پاس اس انارکی اور دہشت گردی کے سدباب کی بنیادی ذمہ داری اور صلاحیت ہے۔ وہ کچھ موثر اقدامات کرنے کے بجائے مفلوج بلکہ مظلوم بنے دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ معزز اداروں میں بیٹھے۔ ریٹائرڈ اور موجود کردار۔ جیسے ثاقب نثار۔ جسٹس کھوسہ و دیگر جو وہ خود اس مافیا کا ایکٹو حصہ ہیں۔

کیا آپ یہ توقع فرما رہے ہیں۔ کہ ان کے کوئی ضمیر ہیں۔ جو پہلے سوئے ہوئے تھے۔ اب بیدار ہو جائیں گے۔ یہ خونخوار مافیا اپنی پوری طاقت سے اپنی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ اور صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے۔ کہ ان کے عالمی سرپرستوں کو بھی کھل کر ان کی مدد کو سامنے آنا پڑ گیا ہے۔ زلمے خلیل زاد کا بیان اور وزیرستان پر ڈرون حملہ اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسایا جا چکا پاکستان اپنے دفاعی اثاثوں سے محرومی کے بیرونی مطالبات تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اس مافیا کے ایک طرف تخت ہے۔ اور دوسری طرف تختہ۔ یہ بات یہ خود بھی بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ پاکستان کی اور اس کے باشندوں کی حفاظت فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments