ادب، شعوری زندگی کا عکس!


طویل مدت بعد ادب زار فورم نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کر کے تخلیقی سرگرمیوں کی بحالی اور ہماری دم توڑتی ثقافت کو حیات نو عطاء کی، اس یادگار مشاعرہ میں خاص طور پہ بنوں اور جنوبی وزیرستان جیسے پیش پا افتادہ علاقوں کے نوجوان شعراء کی اردو شاعری اور کلاسیکی ادب سے والہانہ وابستگی سامعین کے لئے حیرتوں کے کئی در وا کر گئی۔ اسلام آباد کے معروف شاعر و نثر نگار ڈاکٹر وحید کی صدارت میں سجائے گئے مشاعرہ میں جنوبی وزیرستان، ٹانک، کوہاٹ، میانوالی، بھکر، لیہ اور ملحقہ اضلاع کے نوجوان شعراء کی توانا غزلیں ہماری اجڑی تہذیب کی بازگشت تھیں۔

پچھلے چالیس سالوں میں یہاں پراکسی جنگووں کے نتیجہ میں پروان چڑھتی انتہا پسندی اور مسلح گروہوں کی پرتشدد کارروائیوں نے جہاں ہمارے معاشی اور سیاسی عوامل کو پراگندہ رکھا، وہاں اسی آشوب کی مہیب لہروں نے معاشرے کے فکری وظائف اور ادبی رجحانات پہ بھی منفی اثرات مرتب کیے ، بالخصوص وہ تخلیقی ادب جو کسی بھی سوسائٹی کے فطری تنوع اور اجتماعی زندگی کے اظہار کا وسیلہ بنتا ہے، خوف کی تیرگی میں سسک کے رہ گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے کہا ”جب کسی سوسائٹی میں ادب پیدا ہونا رک جائے تو سمجھ لو وہ معاشرہ اندر سے مر چکا ہے“ ۔

تشدد کی خونخوار لہروں نے چار دہائیوں تک مغربی سرحدات سے وابستہ اضلاع خاص کر ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور جنوبی وزیرستان کے معاشرتی دھارے کو وقف اضطراب رکھا، جہاں روایتی میلوں ٹھیلوں، موسمی تہواروں، شادی بیاہ کی رسومات، علاقائی رقص و موسیقی اور مقامی ثقافتوں کی آبیاری کرنے والے شاعروں، ادیبوں اور گلوکاروں کو چن چن کے نشانہ بنایا گیا، وہاں تخلیقی آداب کا زندہ رہنا کسی معجزہ سے کم نہیں۔ ادب کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہے؟

لٹریچر کی اہمیت کو کتابوں اور کہانیوں کے بغیر سمجھنا ناممکن تو نہیں لیکن لٹریچر ہمیں بتاتا ہے کہ معاشرے کے لئے ادب کا وجود کتنا ضروری ہے۔ آسکر وائلڈ نے کہا تھا، ادب ہمیشہ زندگی کی توقع رکھتا ہے، یہ اس کی نقل نہیں کرتا بلکہ اسے اپنے مقصد کے مطابق ڈھالتا ہے ”۔ ادب کی خوبصورتی یہی ہے کہ وہ آپ کو اس بات کا ادراک دیتا ہے کہ انسانی خواہشات عالمگیر ہیں، آپ تنہا اور دوسروں سے الگ تھلگ نہیں بلکہ پوری نوع انسانی سے وابستہ ہیں۔

ایف سکاٹ فٹز جیرالڈ نے لکھا“ شاید تمام انسانی ایجادات میں سب سے بڑی ایجاد ادب ہے، جس نے ان لوگوں کو جو ایک دوسرے کو کبھی نہ جان پاتے باہم روشناس کرایا، مختلف ادوار کی کتابیں وقت کی بیڑیاں توڑ دیتی ہیں ”۔ اگر ہم 21 ویں صدی کے معاشروں میں ادب کے کردار کو سمجھنا چاہیں تو ہمیں ادب کے اصل معنی اور اہمیت کو جاننا پڑے گا۔ یوں تو ادب کی بہت سی تعریفیں ہیں لیکن میرے نزدیک ادب“ حسن بیان اور زور بیاں ”کو کہتے ہیں۔

عام طور پہ تحریری متن کا ہر وہ ٹکڑا ادب ہے جو کبھی تخلیق کیا گیا۔ متن کے ان شہ پاروں میں سے ہر ایک زندگی کے مقاصد کی تفہیم، یعنی مطلع کرنا، قائل کرنا یا تفریح طبع کی تکمیل کرتا ہے۔ ادب کی تعریف کسی زبان یا ثقافت سے تعلق رکھنے والی تمام تحریروں کے طور پر ملتی ہے، جیسا کہ انگریزی ادب یا وہ تحریر جو کسی خاص موضوع سے متعلق ہو، جیسے بچوں کا ادب۔ لغت میں ادب کی تعریف ہے“ وہ تحریریں جن میں اظہار اور شکل، مستقل اور عارضی دلچسپی کے سلاسل میں ضروری خصوصیات ہوں، جیسے شاعری، ناول، تاریخ، سوانح اور مضامین وغیرہ ”۔

اگرچہ یہ کافی وسیع تعریف ہے لیکن یہ ہمیں ادب کی کچھ اہم خصوصیات دکھاتی ہے۔ جیسا کہ مستقل اور ہمہ گیر دلچسپی کے خیالات کا تصور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ادب ہماری زندگیوں میں کیسے شامل ہوا، چاہے وہ صدیوں پہلے لکھی گئی کہانی کیوں نہ ہو۔ ادب میں کئی موضوعات پائیدار ہیں تاہم تمام ادب، چاہے حقیقی ہو یا افسانوی، کہانی سنانے کے تصور سے پیدا ہوا۔ یہ تقریباً اتنی ہی پرانی روایت ہے جتنی خود انسانیت اور جب تک انسان زندہ رہے گا، ہمیں اپنی زندگیوں اور اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کے لئے منظوم یا نثری کہانیوں کی ضرورت پڑے گی، شاید فطرت کی مشیت بھی یہی تھی کہ اولین انسان کے لئے اگلی نسلوں تک روایات اور اخلاقی موضوعات کو منتقل کرنے کا وسیلہ بصری و تحریری مواد کو بننا تھا۔

غار کی پینٹنگز ہمیں کہانی سنانے کی روایت کا ابتدائی ثبوت فراہم کرتی ہیں، فرانس میں 30,000 سال پرانی غار پینٹنگز میں جانوروں کی تصویریں اور زندہ رہنے کی داستان بیان کی گئی۔ اس زمانہ میں شاید انسانوں کے پاس کوئی تحریری زبان نہیں تھی، اس لیے تصویریں ان کی کہانیوں کو بصری طور پہ دوسروں کو آگاہ کرنے اور تعلیم دینے کا واحد ذریعہ تھیں۔ اگر ہم قدیم مصری ہیروگلیفس کو دیکھیں تو ہمیں یہ تصویریں زبان و بیان کی زیادہ نفیس شکل نظر آتی ہیں۔

قدیم یونانی تہذیب تک، تحریری زبان اتنی ترقی کر چکی تھی جہاں یہ کہانیاں لکھی جا سکتی تھیں، چنانچہ ہومر کی“ ایلیڈ ”کو اسی فروغ پذیر ادب کا ابتدائی نمونہ سمجھا گیا لیکن یہ کہانی بجائے خود سینکڑوں سالوں سے نوع انسانی میں موجود تھی، جنہیں تقریباً 700 قبل مسیح میں نظم کی شکل میں لکھا گیا، اس میں ٹروجن جنگوں کی داستانیں شامل تھیں جن میں لوگوں کو ہیروز کے بارے ولولہ انگیز افسانے سنا کر جوش دلایا جاتا تھا۔

صدیوں بعد ، سماجی اور صنعتی ترقی کے باوجود ادب کی افادیت اور مقبولیت میں کمی نہیں آئی بلکہ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے ادب کو وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے کے قابل بنایا، تعلیم تک بہتر رسائی کا مطلب بھی دراصل یہی تھا کہ زیادہ تر آبادی پڑھی لکھی ہو تاکہ ادب انسانی زندگیوں میں بڑا کردار ادا کر سکے۔ آج ہمارے پاس پڑھنے کے مواد کا وسیع انتخاب موجود ہے لیکن ہم پھر بھی قدیم مقاصد کے لئے ادب کا استعمال کرتے ہیں، کہانیوں کی ضرورت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی ہزاروں سال پہلے قدیم انسان کو تھی، اگر ہم صدیوں میں ادب کی ترقی دیکھیں تو ادب انسانی زندگی میں اہم کردار نظر آئے گا۔

ادب ہمیں اپنے خیالات کے اظہار میں مدد دیتا ہے، پڑھنے کا ایک اہم ترین کام یہ تھا کہ ہمارے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہو۔ جتنے زیادہ الفاظ ہم جانتے ہیں، اتنا ہی ہماری فکر وسیع اور زبانی و تحریری اظہار موثر ہوتا ہے۔ انسانوں کو چیزوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ہمیشہ ضرورت رہی، اسی لئے زبان نے تصویروں سے الفاظ میں ترقی کی منزلیں طے کیں۔ بچوں کے لئے تعلیم اس لئے ضروری ہے کہ یہی الفاظ اسے اپنے جیسے انسانوں سے مربوط رہنے اور احساسات کے باہمی تال میل سے نئے حقائق کو جاننے کے لئے فکر و خیال کے ارتقاء کا زینہ مہیا کرتے ہیں۔

اگر ہم کسی موضوع بارے مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو سب سے تیز طریقہ اس کے متعلق پڑھنا ہے، چاہے ہم کسی کتاب کو پڑھنے کا انتخاب کریں یا آن لائن معلومات تلاش کریں، ہمیں درکار تمام جوابات لٹریچر سے ملتے ہیں۔ ادب ہمیں تاریخ و ثقافت بارے سکھاتا ہے، تمام کتابیں، جب اور جہاں بھی مرتب ہوئیں، اس عہد کے حالات اور مشاغل و حوادث کی مصنوعات تھیں۔ بہت سے مصنفین نے اپنی کتابوں کو عصری معاشرے پر تبصرہ کرنے کے طریقے کے طور پر استعمال کیا، ہم انہیں پڑھنے سے تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف ثقافتوں بارے آگاہی لیتے ہیں۔

اس کی سب سے مشہور مثالیں، میکاولی کے ناول“ پرنس ”میں برطانوی اور ٹالسٹائی کے ناول، وار اینڈ پیس، جن میں روسی اشرافیہ کے فکری رجحانات کی عکاسی کی گئی، یا پھر انیسویں صدی کے مرزا محمد ہادی رسوا کے ناول، امراؤ جان ادا، جس میں طوائف کے کوٹھے پہ بیٹھ کر لکھنو کی گداز معاشرت اور اشرافیہ کے طرز زندگی کی منفرد وضاحت کی گئی۔ بلاشبہ ادب ہمیں ایک متبادل نقطہ نظر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے گویا دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، ادب اسی کی عکاسی کرتا ہے۔

بہت سی کہانیاں جو ہم بچپن میں پڑھتے تھے، ان کا مضبوط اخلاقی سبق، جیسے برائی پر قابو پانے کے لئے اچھائی کا پیغام لیکن ہم بڑی عمر میں ایسی کتابیں پڑھتے ہیں جن میں ہمیں تمام کرداروں کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی ترغیب ملے، یہاں تک کہ وہ جن سے ہم متفق نہیں یا جو اخلاقی طور پر زیادہ متنازعہ ہوں، جیسے طوائف یا کوٹھے کی تہذیب۔ مثلاً ہندوستانی ادب میں جہاں محمد حسین آزاد کی کتابوں میں ہمیں انسانوں کی دکھوں سے لبریز زندگی کے تاریک اور روشن پہلو دکھائے گئے، وہاں سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں انسان کی اس جبلی زندگی کے وظائف کو نمایاں کیا گیا جنہیں ہم ابھی تک عقلی ہدایت کے تابع نہیں لا سکے۔

ادب محض دوسروں کو سمجھنے میں ہماری مدد نہیں کرتا بلکہ یہ ہماری تنقیدی شعور کو بھی گداز بناتا ہے، زیست بارے صحیح سوالات پوچھنے اور تمام معلومات کو پراسس کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ادب زار فورم کے مشاعرہ میں بنوں کے جوان سال اویس قرنی اور جنوبی وزیرستان کے نوخیز شاعر عدنان محسود کی اردو شاعری میں اس خطہ پہ وارد ہونے والے مصائب کا برجستہ اظہار ہمیں اپنی اور آس پاس کی دنیا کو سمجھنے کے لئے بہتر نقطہ نظر اپنانے کے قابل بناتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments