زلمے اور عمران : لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ


کس کا یقین کیجیے کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے یار خبر الگ الگ

داغ دہلوی کا یہ شعر زلمے خلیل زاد کی طرف سے عمران خان کی حمایت پر ’ہم کوئی غلام ہیں ”کا ورد کرنے والوں کی خوشی کے اظہار پر یاد آیا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے عمران خان کی پاکستان سے نفرت کرنے والے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ایک مہرے کی طرف سے حمایت کس بنیاد پر کی جا رہی ہے؟

زلمے خلیل زاد پختون افغان ہیں، وہ 1951 میں شمالی افغانستان کے ازبک شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے، کابل میں پلے بڑھے، اسکالرشپ پر تعلیم کے لئے امریکہ گئے اور پھر امریکہ ہی کے ہو کر رہ گئے۔ پشتو کے ساتھ دری زبان بھی بول سکتے ہیں لیکن وہ امریکی اسٹائل میں انگریزی بولنا پسند کرتے ہیں۔

انہوں نے بیروت (لبنان) کی امریکن یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔ 1979 ء میں شکاگو یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد خلیل زاد نے کولمبیا یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس پڑھائی۔ وہ مختلف حیثیتوں میں امریکی محکمہ ٔدفاع اور محکمۂ خارجہ کے لئے کام کرتے رہے۔ عمل کے لحاظ سے وہ سرتاپا امریکی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے انہیں زیادہ تر مسلم ممالک میں امریکی پالیسی سازی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔ انہوں نے امریکی مفادات کے لئے اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ وزارت خارجہ سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں وزارت دفاع نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا۔

وہ پہلے مسلمان تھے جنہیں ان کی خدمات کے صلے میں اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔ 1985 میں پال وولفووٹز کے ماتحت کام کرتے ہوئے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کی اور فیصلہ ساز حلقوں میں اپنا مقام بنایا اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران زلمے نے اپنی توجہ ایران اور عراق کے ان ارادوں پر مبذول رکھی جن کے تحت وہ ایٹمی قوت بن کر ناقابل تسخیر ہونے کے خواہش مند تھے اس ان کے متعلق معلومات کو خلیل زاد نے ”داشتہ بکار آید“ کے طور پر ریپبلکن صدور کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی میں رسائی کے لئے مہارت سے استعمال کیا۔

بش انتظامیہ نے انہیں اپنے ”مسلمان خفیہ ہتھیار“ کے طور پر استعمال کیا۔ وائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ اور پینٹاگون میں امریکی پالیسی تشکیل دینے والی کمیٹیوں کا رکن بنایا۔ اور کئی سالوں تک امریکی نسل پرستوں کی پسندیدہ جماعت ری پبلکن کے منتخب صدور کی آنکھوں کا تارا بنے رہے۔

یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں سیاسیات کے پروفیسر رچرڈ ڈیک مجیان کے بقول ایک اسلامی ملک سے تعلق رکھنے والا زلمے، عراقیوں اور مشرق وسطیٰ کے لوگوں کے لئے کسی سفید فام آدمی کے مقابلے میں زیادہ قابل قبول تھا۔ خصوصی ایلچی بننے سے پہلے وہ قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس کے ماتحت بھی کام کرتے رہے۔

نائن الیون کے بعد افغانستان پر اپنے زعم کے مطابق قبضے کے بعد بش ایٹمی پروگرام کو جواز بنا کر عراق پر حملہ آور ہوئے۔ عراق کی تعمیر نو اور جمہوریت کے قیام کے لئے زلمے خلیل زاد بغداد میں امریکی سفیر تعینات ہوئے۔ ان کے مشورے پر ہی گوانتاناموبے اور بگرام کے عقوبت خانے قائم ہوئے۔ 2007 تک وہ عراق میں سفیر رہے جہاں امریکی مقاصد پورے کرنے کے بعد انہیں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقرر کیا گیا انہی کی ”مساعی“ سے داعش ’برآمد ہوئی تو انہیں افغانستان میں امریکی سفیر بنا دیا گیا تا کہ وہ عراقی تجربات دہرا کر طالبان کے خلاف ایسا ہی کوئی کارنامہ انجام دیں مگر وہ مکمل ناکام رہے۔ زلمے افغانستان سے امریکی انخلاء میں اپنی ندامت کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں، پاکستان سے نفرت ان کی گھٹی میں ہے۔ پاکستان کے خلاف ان کا رویہ ہمیشہ جارحانہ رہا۔

اس وقت وہ سرکاری عہدے دار نہیں لیکن عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد وہ خفیہ طور پر بنی گالہ میں عمران خان سے ملے، اسی طرح آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں عمران خان کے ساتھ صلح کے لئے کہا۔

جنرل باجوہ کی عمران خان سے ایوان صدر میں ملاقات بھی انہی کی ٹیلی فونک کوششوں سے ہوئی۔ امریکہ افغانستان سے نکلنے لگا تو صدر ٹرمپ نے خلیل زاد کو 5 ستمبر 2018 کو افغانستان میں مصالحت کے لئے خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔ دوحہ مذاکرات میں نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے سی آئی اے، پنٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ بھی صدر کے حکم پر ان کے ماتحت تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے ہاں ان کی کیا اہمیت ہے۔ وہ واحد ری پبلکن تھے جنہیں ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن نے طالبان کے ساتھ ڈیل کو منطقی انجام تک پہنچانے تک اس عہدے پر برقرار رکھا عمران خان کہتے تھے کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی ہے لیکن اب زلمے کی جانب سے ان کی حمایت کوئی اور پیغام دے رہی ہے۔

پس پردہ کردار ادا کرنے والے زلمے خلیل زاد عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کے حق میں ایسی ٹویٹ کی کہ جیسے وہ پاکستان کے وائس سرائے ہیں۔

عمران خان نے حکومت سے سبکدوشی پر امریکہ کو آنکھیں دکھائیں لیکن امریکی مفادات کے سب سے بڑے محافظ زلمے خلیل زاد ان کے لئے آخر سب سے زیادہ پریشان کیوں ہیں؟

گوانتاناموبے، ابو غریب اور بگرام کے عقوبت خانوں میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی وکالت کرنے والے زلمے خلیل زاد پی ٹی آئی والوں کے لیے کیسے ٹسوے بہا رہے ہیں۔

زلمے خلیل زاد اپنی ٹویٹ میں پاکستان کو دھمکی آمیز لہجے میں سیاسی بحران کے سنگین ہو جانے اور جون میں الیکشن کرانے کی ”ہدایات“ دے رہے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنا ’پھانسی دینا یا قتل کرانا غلط روش ہے خرابی کو روکنے کے لیے پاکستان میں جون کے اوائل میں قومی انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کی جائے۔ اس وقت کو اہم سیاسی جماعتیں اس کام کے لیے استعمال کریں کہ کیا غلط ہوا ہے۔ ملک کے استحکام، سلامتی اور خوشحالی کے لیے منصوبہ تجویز کریں۔ جو بھی پارٹی الیکشن جیتے، اسے اقتدار سونپ دیا جائے۔

ان کے خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے تاہم یہ سوال کرنا بھی ضروری ہے۔ کہ چار سالہ عمران حکومت میں سیاسی رہنماؤں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ’جھوٹے مقدمات پر انہیں جیلوں میں ڈالا اور عدالتوں سے نا اہل کرایا گیا اس وقت موصوف کہاں تھے؟ انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ متعلقہ ادارے ہی کر سکتے ہیں، کسی کی بے جا مداخلت اور ہدایات پر نہیں۔ زلمے کی دانست میں عمران خان پاکستان مقبول ترین رہ نما ہیں۔ انہیں گرفتار کرنا حماقت ہوگی۔

ان کا راستہ روکنے کے بجائے جون میں انتخابات کا انعقاد ہو ان کا خیال ہے کہ انتخابات کا انعقاد عمران خان کی اقتدار میں واپسی یقینی بنا سکتا ہے۔ زلمے خلیل زاد ہمیشہ امریکہ بہادر کی ہی خدمت میں مصروف رہے۔ امریکی خادم زلمے کا امریکہ مخالف عمران کی حمایت میں دھمکی آمیز ٹویٹ کرنا محب وطنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاسی کرتا دھرتا ذات، پارٹی اور کرسی سے ماورا ہو کر ملک و قوم کا سوچیں اور چور سپاہی کا یہ کھیل ختم کریں۔ آخر کب تک ہم ناعاقبت اندیشیوں سے اپنی جگ ہنسائی کا سامان کرتے رہیں گے؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments