امضان المبارک کا بابرکت مہینہ


اسلامی کیلنڈر کا نواں با برکت مہینہ جس میں روزے فرض کیے گئے رمضان المبارک کا مہینہ ہے جو فیوز و برکات سے بھرپور ہے۔ اسی مہینے میں قرآن کا نزول ہوا۔ روزہ دین اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس کا مقصد انسان کی بدنی و روحانی تربیت کرنا مقصود ہے۔ روزے کا یہ مقصد بالکل نہیں کہ بھوکا و پیاسا رہا جائے اور انسان تمام دوسرے گناہوں میں لتھڑا رہے۔ یہ ایک ایسا احساس پیدا کرتا ہے جو انسان کو اس بات کا احساس دلائے کہ اس کے اردگرد کتنے لوگ ایسے ہیں جو آسودہ حال نہیں ہیں اور بھوک و پیاس ان کو بھی ستاتی ہو گی۔

اگر یہ احساس انسانی زندگی میں گر کر جائے اور اردگرد کے لوگوں کی مدد کرنے کے ساتھ اپنی تمام برائیوں کا قلع قمع کیا جائے تو انسان روزے کی معراج کو پا گیا۔ قرآن پاک کی انیسویں سورہ مریم آیت چھبیس میں روزے کو صوم کہا گیا جس کا مطلب رکنا ہے۔ حضرت مریم لوگوں سے فرماتی ہیں میں اللہ تعالٰی کے حکم سے روزے سے ہوں اور آج میں کسی سے گفتگو نہیں کروں گی۔ شریعت میں روزہ صبح صادق سے لے کر غروب شمس تک ان تمام امور سے رکے رہنا جن سے منع کیا گیا، کی نیت سے رکے رہنا ہی روزہ ہے۔

سورہ بقرہ آیت ایک سو تراسی میں فرمایا گیا۔ اے ایمان والو! روزے تم پر فرض کیے گئے جیسا کہ پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تا کہ تم تقوی اختیار کرو۔ تقوی حاصل کرنا ایک ایسی صفت ہے جس سے انسان میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی اسے ہر وقت اور ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔ اور وہ ہر برے عمل سے اجتناب کرتے ہوئے اللہ تعالٰی کی خوشنودی میں جت جاتا ہے۔ اس میں صبرو استقامت پیدا ہو جاتی ہے۔ فرمان رسول ہے۔ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں۔

روز قیامت صرف روزہ دار اس سے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کے سوا کوئی دوسرا اس سے جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا اس سے کوئی اور اندر نہیں جانے پائے گا۔ اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر اس میں کوئی اور اندر نہ جا سکے گا۔

خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی روزے کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے ”روزہ ڈھال ہے“ ۔ روزہ انسان کو گناہوں اور ہوس سے دور کرتا ہے۔ روزے کا مقصد بھوکا و پیاسا رہنا ہر گز نہیں بلکہ ایک فرض سمجھتے ہوئے زندگی کو اسلام کے سنہری اصولوں پر کاربند رہنے کی جستجو میں لگ جانا ہے۔ روزے دوسری ہجری میں مسلمانوں پر فرض کیے گئے۔ اور اسی مہینے میں با برکت کتاب قرآن کو بھی نازل کیا گیا۔ اس مہینے میں نیکیوں کی جزا کو بڑھا دیا جاتا ہے۔

اس بات پر مسلم امہ کا اجماع ہے کہ ہر بالغ انسان پر روزے فرض ہیں۔ اس میں کچھ استثنائی سورتیں بھی ہیں جن میں بیمار، حاملہ عورت، سفر کی حالت اور ذہنی مریض وغیرہ۔ بیمار اپنی بیماری سے شفایاب ہونے کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں یہی سورت حال سفر والوں کے لیے بھی ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے سحری کھانے کو با برکت قرار دیا خاص کر آخری آدھے گھنٹے میں۔ اسی طرح روزہ جلد کھولنے کے لئے بھی کہا گیا ہے ۔ جان بوجھ کر پانی پینا، کھانا یا ممنوع اشیاء کا استعمال مثلاً سگریٹ وغیرہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح روزے کے درمیان بیوی سے ہمبستری بھی روزہ ٹوٹنے کا باعث ہوگی۔ روزہ میں جان بوجھ کر ممنوع عمل کا کرنا کفارہ کا باعث ہوگی جس کی قضاء لازم ہے۔

روزے صرف ہم پر ہی فرض نہیں کیے گئے بلکہ اس سے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے۔

شمالی امریکہ میں کچھ معاشرے گناہوں کے کفارے یا قدرتی آفات کے ٹلنے کے لئے روزے رکھتے ہیں۔ اسی طرح پیرو، میکسیکو اور امریکہ کے مقامی باشندے بھی اپنے خداؤں کو خوش رکھنے کے لئے روزے رکھتے ہیں۔ روزہ کی جزا اللہ تعالٰی خود عطا فرماتے ہیں۔ روزہ مومن کے لئے ایک اہم ورزش بھی ہے جس میں انسان خود کو کھانے پینے سے اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے پرہیز کرتے ہوئے اپنی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے۔ روزہ صرف بھوک کا نام نہیں اس میں لغو باتوں سے پرہیز، لوگوں کی دل آزاری نہ کرنا، لڑائی جھگڑے سے پرہیز، بحث و مباحثے سے پرہیز کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔

ماہ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کا اجر بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں دل کھول کر غرباء کی خدمت کرنی چاہیے تا کہ وہ اس ماہ مبارک سے لطف اندوز ہو سکیں تو دوسری طرف انسان اپنے رب کی قربت حاصل کر سکے۔ روزہ نہ صرف انسان کی روحانیت میں اضافہ کرتا ہے بلکہ یہ اس کی صحت پر خوشگوار اثرات چھوڑتا ہے۔ صحت مند انسان کے لئے روزہ رکھنے سے کوئی بھی منفی اثر نہیں پڑتا اگر وہ ماہ رمضان المبارک میں سحری و افطاری کے علاوہ پانی کی مقدار کا بھی خیال رکھتا ہے۔

اس سے فاضل مادے جن کی مقدار بقیہ ایام میں زیادہ ہو جاتی ہے کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ بیمار افراد اپنے ڈاکٹر کے مشورہ سے روزے رکھنے کے بارے میں فیصلہ کریں۔ اسلام کا فلسفہ حیات زندگی کو خطرے میں ڈالنا نہیں ہے۔ روزہ نہ رکھ سکنے کی صورت میں فدیہ ادا کر دینا چاہیے۔ روزہ وزن کم کرنے، خون میں چکنائی کم کرنے کے علاوہ کینسر کی بعض اقسام کا مقابلہ کرنے اور یاداشت بڑھانے میں بھی اکسیر ہے۔ جنوبی کیلیفورنیا کی یونیورسٹی نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس کے تحت روزہ انسانی مدافعتی نظام کے لئے بہت مفید ہے اس سے خلیوں کی پیداوار بڑھتی ہے۔

روزے کے دوران خلیوں کی مرمت کا عمل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ روزے کے دوران ورزش بھی کی جا سکتی ہے اس سے پٹھوں کی مضبوطی اور وزن میں کمی کا عمل بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے آتے ہی لوگوں میں کھانے کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور ساتھ ساتھ مرغن غذائیں کچھ زیادہ ہی مقدار میں زیر استعمال رہتی ہیں جو انسانی جسم کے لئے غیر منفعت ہونے کے علاوہ منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ روزہ انسانی جسم میں سوزش کو بھی کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ انسان کو ہر بات میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے۔ روزہ انسان کے تزکیہ نفس کا نام ہے۔ جس نے ماہ رمضان المبارک میں اپنا تزکیہ کر لیا وہ ہی کامیاب ٹھہرا۔

سائنسی نقطہ نگاہ سے روزے سے انسان کے دل کی صحت، سوزش کا کم ہونا اور خلیوں کی توڑ پھوڑ کی مرمت کا ہونا ہے۔ یہ جسم کی فالتو چربی کو بھی ختم کرتا ہے بشرطیکہ کھانے پینے میں اعتدال پسندی کے سنہری اصولوں پر کاربند رہیں۔ روزے سے انسانی جسم میں کئی طرح کی تبدیلیاں ظاہر ہوتی ہیں۔ جن میں انسولین کے لیول کا گرنا چو چربی کے گھلنے سے ہوتا ہے۔ ہیومن گروتھ ہارمون لیول (ایچ جی ایچ) جسم میں اپنی مقدار بڑھا لیتا ہے جو انسانی صحت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

اسی طرح کئی جینز اور مالیکیولز میں بھی مرمت کا کام چلتا ہے جو بعد میں بیماریوں کے دفاع میں کام آتا ہے۔ جو بھی روزے کو اس کی صحیح روح کے مطابق رکھتا ہے اس سے وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ظاہری بات ہے کہ انسان روزے کے دوران کم کھانا کھاتا ہے جس سے اس کے بدن کو کیلوریز کی کم مقدار حاصل ہوتی ہے اور اس کا میٹابولزم (غذا کا جزو بدن ہونا) بڑھ جاتا ہے۔ روزہ وزن کم کرنے کا ایک احسن سائنسی طریقہ ہے۔

ذیابیطس کی ٹائپ بی آج کل ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اس سے انسانی جسم کے خون میں شکر کی مقدار کا بڑھنا ہوتا ہے جو بھی چیز انسولین کو کم کرے شکر کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ روزہ انسانی جسم کے لئے کافی مفید ہے جس میں اس کے افشار خون (بلڈ پریشر) ، کولیسٹرول، ٹرائی گلاسرائیڈز کا کم ہونا اور

سوزش کا کم ہونا شامل ہے۔ روزے سے میٹابولزم نظام کے فعال ہونے سے خلیوں سے فاسد مادوں کا اخراج ہوتا ہے جو انسانی جسم کے لئے انتہائی اہم ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ازحد ضروری ہے کہ آیا آپ روزہ رکھنے کے قابل ہیں کہ نہیں۔ اللہ تعالٰی نے کوئی بھی عبادت اس لئے نہیں رکھی کہ کسی کی جان کو خطرہ درپیش ہو۔ انسانی جان عطیہ خداوندی ہے جس کی حفاظت انسانی فرض ہے۔ کسی بھی عمل کا دارو مدار اس کی نیت پر ہے یہی فرمان رسول ہے۔

نبی مکرم کا فرمان ہے جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ لیکن یہ بات لکھتے ہوئے دلی رنج ہوتا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے ابتداء سے ہی ہمارے تاجر اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ مغرب میں غیر مسلم تاجر ماہ رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل اپنی تمام اشیاء پر سیل لگا دیتے ہیں اور اپنے مسلمان گاہکوں کو ارزاں نرخوں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں جب کہ ہمارے رویے اس کے بر عکس ہیں ہمارے تاجر ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں جو اسلام کے اصولوں کے سراسر منافی ہے۔

ہم میں خوف خدا نہیں۔ ہمیں ہمسایوں، غربا و مساکین اور یتیم و بیواؤں کا بھی خیال رکھنا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ و زبان کو بھی کنٹرول کرنا چاہیے ورنہ بھوکے تو جانور بھی رہ لیتے ہیں۔ وہ جینا بھی کیا جینا جس میں دوسروں کا خیال نہ رکھا جائے۔ ہمیں اپنے معاملات خاص کر حقوق العباد کا بہت خیال رکھنا چاہیے جس کی پکڑ کی سخت وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اس ماہ مبارک مہینے کی فیوز و برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments