پرانی تکنیک سے نقشے بنانے والے چکوال کے ماسٹر فدا حسین


 ماسٹر فدا حسین چکوال کے نواحی قصبہ بہکڑی کی ایک بزرگ شخصیت ہیں۔ ان کی زندگی بارے جاننے کے لیے ان سے چند ہفتے قبل ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گاؤں کے متعلق بہت سی پرانی باتیں بھی بتایئں جو انھوں نے اپنے بچپن میں اپنے بزرگوں سے سن رکھیں تھیں مگر آج ہمارا موضوع صرف محترم ماسٹر فدا حسین کی شخصیت ہی ہے۔ماسٹر فدا حسین 1937ء میں بہکڑی گاؤں میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن گاؤں میں ہی گزرا۔
پرائمری تک تعلیم گاؤں میں واقع سکول سے حاصل کی۔ یہ سکول گاؤں کے پہلے آرمی آفیسر لیفٹننٹ ٹوانہ خان مرحوم کے حویلی نما گھر میں واقع تھا۔ قیام پاکستان سے قبل اس سکول میں پرائمری تک ہی تعلیم دی جاتی تھی اس سکول میں لڑکیاں اور لڑکے اکھٹے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ماسٹر فدا حسین کے والد 1941ء میں فوت ہوئے۔1949ء میں اسلامیہ ہائی سکول چکوال سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ ان کے ساتھ گاؤں کے دیگر کئی لڑکے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے جن میں راقم الحروف کے دادا چوہدری محمد شفیع مرحوم بھی بھی شامل تھے۔ وہ ان کے کلاس فیلو تھے۔ یہ سب روزانہ پیدل اسلامیہ سکول چکوال جاتے تھے۔

آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد گھریلو حالات کچھ خراب ہونے کی بنا پر تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی اور گھر کے پاس ہی اپنی زمینوں پر کیھتی باڑی کا کام کرنے لگ گئے۔ چند ہی ماہ بعد والدہ کے بے حد اصرار پر دوبارہ تعلیم حاصل کرنے لگے اور 1955ء میں سولہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کیا۔ذہانت کی وجہ سے کلاس کے مانیٹر بھی رہے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد تقریباً پھر دو سال کاشتکاری کی۔

1957ء میں پاکستان آرمی کے آرٹلری محکمہ میں بھرتی ہوئے اور سرویئر ٹریڈ لیا۔ وہ آرمی کے ہر مقابلے میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتے تھے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر جلد ہی پروموشن حاصل کیا۔ انھوں نے بطور سرویئر آفیسر 6 سال سروس کی۔بریگیڈ سنٹر کمانڈنٹ میں اپنی مرضی کے مطابق ڈرافٹنگ کی اور اپنے مرضی کے ڈرافٹ مین رکھتے تھے۔

پاکستان آرمی میں سروس کے دوران ہر آفیسر ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہ اپنی یونٹ میں ٹیم کمانڈر بھی رہے۔ان کی سالانہ رپورٹ سب سے بہترین ہوتی تھی۔

دوران سروس مختلف جگہ پوسٹنگ رہی نوشہرہ میں سرویئر کورس ٹاپ کیا۔ملک بھر میں جہاں بھی مقابلے ہوتے ان کی یونٹ کورس ٹاپ کرتی تھی۔ دوران سروس مری لوئر ٹوپہ میں ایجوکیشن کورس ٹاپ کیا اور مری ہیڈ کوارٹرز میں حوالدار بنے۔ دو سال سروس رہنے کے بعد نظر کمزور ہونے کی وجہ سے چشمہ بھی لگانا پڑا۔
چشمہ لگنے کے بعد ان کے آفیسر کرنل جب انھیں 100 گز دور سے دیکھتے تو کہتے کہ پروفیسر صاحب آ رہے ہیں۔ سروس ختم ہونے سے دو سال قبل ڈسچارج کی درخواست دی جو سنٹر کمانڈنٹ نے مسترد کردی لیکن وہ اب مزید نوکری کرنے کی بجائے ڈسچارج لینا چاہتے تھے اپنے آفیسرز سے ناراضگی کے بعد بالاخر 24 مئی 1979ء کو بطور سرویئر آفیسر ریٹائرڈ ہوئے۔22 سال پاکستان آرمی میں سروس کی۔ پاکستان آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ کاشتکاری کی۔

محکمہ ایجوکیشن میں سکول ٹیچرز کی جگہ خالی ہونے کی وجہ سے اپنے دوست ماسٹر فضل داد تترال والے کے اصرار پر نومبر 1979ء میں گورنمنٹ ہائی سکول جنگا میں چارج سنبھال لیا۔ محکمہ تعلیم سے بھرتی کے بعد چکوال کے مختلف دیہاتوں میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔اس دوران ماسٹر فدا حسین ڈھڈیال، چک عمرا، نوروال اور بہکڑی میں تعینات رہے۔ وہ 1986ء سے 1997ء تک گورنمنٹ پرائمری سکول بہکڑی میں پڑھاتے رہے ان کے ساتھ ماسٹر ظفر اقبال اور ماسٹر نصیر ڈھاب بھی رہے۔

1990ء میں ڈی سی چکوال بہکڑی تالاب کا فنڈ دینے کے سلسلے میں آئے تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے بنا بہکڑی گاؤں کا نقشہ انھیں پیش کیا۔ ڈی سی بہکڑی کا اتنی ترتیب سے بنے نقشے کو دیکھ کے حیران ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس طریقے سے نقشہ سو سال پہلے بنایا جاتا تھا اور یہ انتہائی مشکل کام ہوتا تھا۔ ڈی سی چکوال نے ان سے کہا کہ آپ کیا کرتے ہیں آپ تو انھوں نے بتایا کہ میں ٹیچر ہوں۔ اس پر ڈی سی نے انھیں کہا کہ آپ اتنے ہنر مند ہیں آپ میرے دفتر آئیں تو میں آپ کو نقشہ نویس کا لائسنس جاری کرتا ہوں۔

اس وقت چکوال میں کوئی نقشہ نویس نہیں تھا۔ 1985ء میں جب ضلع چکوال بنا تو راولپنڈی ڈویژن کا نقشہ آیا تو مختلف تحصیلوں کے نقشے میں رودبدل بھی کیا۔
ڈی او ایجوکیشن میں مختلف سکولز کے نقشے بھی ماسڑ فدا حسین نے ہی بنائے تھے۔ ان میں تلہ گنگ چکوال چواسیدن شاہ کے نقشے شامل تھے۔ اپریل 1997ء میں محکمہ ایجوکیشن سے ریٹائرڈ ہوئے اور مئی 1997ء میں ہی ٹاؤن پلاننگ آفیسر چکوال نے نقشہ نویس کا لائسنس جاری کیا۔ وہ 2015ء تک نقشہ نویسی کا کام کرتے رہے۔ ان کا دفتر جناح سکول چکوال کے سامنے تھا۔

نظر کمزور ہونے کی وجہ سے اب انھوں نے نقشہ نویسی کے کام کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اپنی زندگی بھرپور انداز سے جی رہے۔ 85 سال عمر ہونے کے باوجود مکمل طور صحت مند ہیں۔
ان کے ایک بیٹے ہومیو ڈاکٹر فاضل ناز نے گاؤں میں ہی اپنا کلینک بنا رکھا ہے جس سے وہ گاؤں کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے مختار حسین کراچی پورٹ قاسم پر ملازم ہیں۔
ماسٹر فدا حسین کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ اپنے ایک جوان بیٹے قیصر عباس کی ناگہانی وفات تھی۔ اس بیٹےکا ارمان اپنے سینے میں لیے وہ آج بھی اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے ماسٹر فدا حسین کی آنکھیں نم ہوئیں اور وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔

ماسڑ فدا حسین آف بہکڑی نے اپنی زندگی میں پاکستان آرمی میں خدمات کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے کے بچوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ کیا ہے چنانچہ ان کا اس پورے علاقے میں بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ ماسٹر فدا حسین جیسے بزرگ علاقے اور گاؤں کا سرمایہ افتخار ہوا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments