قدیم مصر: اولین انسانی تہذیب کا دوسرا مرکز


میسوپوٹیمیا (دجلہ و فرات کی وادی) میں ہوئی جس کے بعد انسانی تہذیب کا دوسرا بڑا مرکز مصر کے دریا “نیل کی وادی” کو قرار دیا جاتا ہے۔قدیم مصر اپنے مخصوص جغرافیہ اردگرد صحراؤں) کے طفیل بیرونی حملوں سے زیادہ تر محفوظ ریا اور یوں یہاں کا معاشرہ اور تہذیب اپنی طویل تاریخ میں زیادہ تر تسلسل اور انفرادیت کا حامل رہا

قدیم مصر کی تاریخ 5000 ق م سے 525 ق م تک پھیلی ہوئی ہے۔اس عرصے کے دوران مصر کی طرز زندگی ابتدائی حجری کلچر سے ابھر کر پھلتی پھولتی منفرد تہذیب میں متشکل ہوئی۔جہاں “فراغنہ مصر “پوری مطلق العنانیت کے ساتھ حاکم تھے۔دیومالائی مذہب زندگی کے ہر پہلو پر حاوی تھا۔زراعت اور تجارت نے ترقی کر لی۔اعلی آرٹ ،عظیم عبادت گاہیں اور عمارتیں معرض وجود آئیں۔تحریری زبان ،میتیمیٹکس، اور طب وغیرہ میں کئی اہم پیشرفتوں کے علاوہ تاریخ کا پہلا اور کافی حد تک درست تقویم (کیلینڈر) بنایا گیا

پھر اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور فراغنہ مصر کی یہ مغرور سر زمین 525 ق م میں ایرانیوں کے زیر تسلط آ جانے سے مصریوں کی قدیم تاریخ کا یہ طویل باب بند ہونے لگتا ہے۔اس کے بعد اگلے دو ہزار سے زیادہ عرصے کے دوران دوسری اقوام ( یونانی۔رومن،عرب اور ترکوں) نے مصر پر حکومت کی۔ آخری غیر ملکی حکومت انگریزوں کی تھی۔جن کا براہ راست کنٹرول 1937 میں ختم ہوا۔

یہاں قدیم مصری تاریخ کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ( قدیم تاریخ میں سالوں کو وثوق سے متعین نہیں کیا جا سکتا ہے۔ قدیم مصری تاریخ کے بعض”سنین” کے بارے مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔نئی تحقیقات آنے سے ان میں ردوبدل ہوتا رہا ہے)

 تاہم قدیم مصری تاریخ کے بارے یہاں مضمون میں درج کردہ ترتیب اور “سنین “بیشتر مورخین کے نزدیک تاحال نسبتا زیادہ صیحح سمجھے جاتے ہیں۔

3100 ق م سے پہلےکی مصری تاریخ “قبل شاہی

کہی جاتی ہے۔ جبکہ3100 ق م کے بعد کا دور(جب مصر ایک مرکزی حکومت کے تحت ہو گیا) کو شاہی زمانہ کہا جاتا ہے۔جو مزید کئی ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے

قبل شاہی دور۔ (ابتدا سے 3100 ق م تک)

مصری مقبروں سے جو باقیات دریافت ہوئے ہیں وہ 15000 ق م تک کے جاتے ہیں۔ان باقیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی مصر پرانےاور نئے دور حجری کے مراحل سے گزرا ہے۔اور شاہی دور سے چند صدیاں پہلے ( 3500 ق م کے لگ بھگ) جنوبی اور شمالی مصر میں”باداری” اور “ناقادہ ” نام سے جانے والے ادوار میں الگ الگ کلچر پنپنے تھے۔ان ادوار میں تانبے کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔ترقی کی رفتار تیز تھی۔اور لوگ کچے اینٹوں کے مکانات بنانے لگے تھے۔تانبے اور چقماق کے آوزار اور ہتھیار کا استعمال کرنے لگے تھے۔زراعت میں کافی ترقی کر گئے تھے

ابتدائی مصری(جن کی نسل کے بارے درست معلومات کا تاحال تعین نہیں ہوا ہے) سوتی لباس پہنتے تھے اور اپنی آرٹسٹک مہارت خاص کر ظروف سازی میں کافی پیشرفت کی تھی۔

اس دور میں مصریوں کا میسوپوٹیمیا کے باشندوں کے ساتھ تجارتی روابط قائم ہونے لگے تھے .جن سے انہوں نے کئی چیزیں سیکھ لیں ہوں گی۔اس قبل شاہی کے طویل دور میں نہروں کی تعمیر اور آب پاشی کے کاموں میں تعاون کی ضرورت کے تحت چھوٹی سیاسی اکائیاں ( قبیلے) بتدریج بڑے یونٹس میں مدغم ہو گئیں جس سے نتیجتا دو حکومتیں۔جنوب کی”بالائی مصر “اور “شمال کی زیریں مصر” متشکل ہوئیں۔یہ شاید 5000ق م کے لگ بھگ ہو چکی ہوں گی۔

پہلا قومی نظام آب پاشی کی تعمیر کے علاوہ اس عرصے میں تحریر( تصویری کندہ کاری) کے سلسلے میں بھی پیشرفت ہوئی۔ ابتدائی کاغذ ( پیپرس) اور پہلا تقویم (کیلینڈر) بنائے جانے کا کریڈٹ بھی اس قبل شاہی دور کو دیا جاتا ہے۔

شاہی زمانہ کو پھر ذیل کےتین بڑے ادوار اور تنزلی و پستی کے درمیانی یا عبوری ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے

 1 ابتدائی شاہی دور 3100 تا 2686 ق م۔

2۔پرانی بادشاہت 2680 ق م سے 2180 ق م تک

۔عبوری فیوڈل دور2180 ق م تا 2080 ق م

4۔۔درمیانی بادشاہت 2080 ق م تا 1640 ق م۔

5۔۔دوسرا درمیانی یا عبوری دور۔(ہائیکوسس تسلط)۔1640 ق م تا 1570ق م

۔6۔نئی بادشاہت (سلطنت) 1570 ق م 1075 ق م

7۔افریقی(لیبیائی) دور 945 تا 727 ق م

8۔ افریقی( کوش دور 727 تا 525 ق م

۔8۔ آخری دور۔525 تا 332 ق م

3100 ق م کے لگ بھگ بالائی (جنوبی) مصر میں مینس (Menes) نامی ایک طاقت ور لیڈر ابھرا .جس نے ڈیلٹا اور نچلے (شمالی) مصر فتح کرلیا (مورخین کے مطابق یہ بادشاہ مینس نہیں بلکہ “نرمر” تھااس نے دونوں ریاستوں کو سیاسی طور پر متحد کیا اور “تھیبس” کے بجائے دونوں حصوں کے درمیانی شہر “میمپس” کو دارلحکومت بنایا۔ یہاں سے قدیم مصر کے “شاہی دور “کا آغاز ہوتا ہے۔ اگلے 2500 سال تک مصری امور کو شاہی خاندانوں کے طویل سلسلے نبھاتے رہے۔ جس کی کل تعداد ایرانی دور تک 31 شمار کی جاتی ہے)

1.”ابتدائی شاہی دور

3100 تا 2680 ق م تک عرصے کو ابتدائی دور شاہی کہا جاتا ہے۔جس کے دوران آوائل دو شاہی سلسلے برسراقتدار رہے۔ان کے بارے میں تفصیلی تاریخی ریکارڈ کم ہے۔اس کے بعد سے ریکارڈ بہتر صورت میں دستیاب ہے۔2680 کے لگ بھگ (تیسرے شاہی” سلسلے سے یہاں مضبوط مرکزی حکومت کا آغاز ہو گیا جس سے مستقل شاہی دور کی ابتدا ہوتی ہے۔مورخین تیسرے شاہی سلسلے سے شروع ہونےوالے اس دور کو پرانی بادشاہت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

 2.پرانی بادشاہت۔: 2680 تا 2180 ق م

اس دور میں مصری تہذیب کے کئی اہم عناصر یا بنیادیں تشکیل پائے۔ اسی کے دوران مصر میں دھات کا زمانہ باقاعدہ طور پر شروع ہوا۔ تجارت کی ترقی ہوئی۔شام سے کشتیوں میں شہتیر منگوانے جاتے تھے۔ کاغذ سازی میں پیشرفتیں ہوئیں منقش ظروف۔شیشہ کے اشیاء اور خوبصورت زیورات بنائے جانے لگے۔قدیم بادشاہت کے دور میں تہذیبی ترقی کی بڑی علامت ” اہرام “ہیں۔ جو آج تک عجائبات میں شمار ہوتے ہیں۔یہاں پہلا اہرام ” ایمانوپ زوسر” بادشاہ کا تعمیر کردہ بتایا جاتا ہے۔آج کل اس کو “ترچھا اہرام “کہا جاتا ہے۔پرانی بادشاہت کے چھ خاندانوں میں چوتھا سب سے زیادہ طاقتور اور امیر تھا۔اسی وجہ سے اس کے تعمیر کردہ اہرام بھی زیادہ شاندار ہیں۔ان میں سب سے بڑا “ھوفو فرعون” کا مقبرہ ہے۔جو 481 فٹ اونچا ہے

ان اہراموں کی تعمیر سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل مصر علم جیومیٹری ،ترچھی پلان کے اصول کا علم اور بڑے پتھروں کے کاٹنے کے آوزار رکھتے تھے۔

پہلا عبوری یا فیوڈل دور(2180 ق م تا2080ق م)

پرانی بادشاہت کے بادشاہوں کے چھٹے شاہی خاندان کے دور میں خودمختار اور مہم جو صوبائی گورنروں کے منظر عامہ پر آنے سے

مرکزی حکومت کمزورہو گئی۔2190 ق م میں طویل عرصے (90 سال سے زیادہ) تک بادشاہ رہنے والے “پیپی دوم (Pipi II)کی موت کے بعد خانہ جنگی شروع ہوئی اور فرعونوں کی مرکزی حثیت معدوم ہو گئی اگلی صدی چھوٹی حکومتوں، معاشی بد حالی ،خانہ جنگی اور استبداد کا دور رہا۔قدیم بادشاہت کے خاتمہ کے بعد تقریبا ایک صدی پر محیط (2180 ق م تا 2080 ق م) انتشار کا یہ عرصہ فیوڈل عہد بھی کہلاتا ہے۔ یہ مصری تہذیب کے دوسرے بڑے دور( وسطی بادشاہت) کے لیے عبوری حثیت رکھتا ہے۔اس عبوری دور میں انتشار کی وجہ سے تہذیبی ترقی عملا رک گئی تھی۔اس دور کو فیوڈل عہد زیادہ تر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس دور میں مرکزی اقتدار غائب تھا۔ مختلف جگہوں پر مقامی جاگیرداروں کا غلبہ تھا۔ اس عرصے میں فرعونوں کے چار شاہی سلسلوں کا اقتدار برائے نام تھا

4۔مصرکی درمیانی بادشاہت۔(2080 تا 1640ق م)۔مصر میں ایک سو سال نااتفاقی اور انتشار کے بعد بالائی نیل کے شہر”تھیبس کا حکمران “مینتوہوتپ دوم( Mentuhtep II(جس کا تعلق 11 ویں شاہی سلسلہ سے تھا) نے مصر کوپھر سے ایک بادشاہ کے تحت مرکزی حکومت اور قومی اتحاد کے از سر نو بحالی میں کامیاب ہوگیا۔ یہاں سے درمیانی بادشاہت کے دور کا آغاز یوا۔اس شاہی سلسلے کے”مینتوحوطب دوم” اور اس کےبیٹے اور جانشین “مینتو حوطپ سوم” اور ان کے بعد 12 ویں شاہی خاندان کے تحت وسطی بادشاہت نے جارحانہ خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے جنوب میں واقع “نوبیا” ( دریا نیل کے ساحل پر جنوبی مصر کے شہر “اسوان “کے جنوب سے لے کر نیلے اور سفید نیل کے مقام اتصال حرطوم( وسطی سوڈان) تک کا علاقہ) میں کالونی قائم کی۔ اور پہلے عبوری دور کے دوران مصر میں وارد ہونے والے بدوی قبائل کو نکال باہر کیا۔اس کے علاوہ شام ،فلسطین اور دوسرے ممالک سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ساتھ تعمیراتی پراجیکٹس بشمول فوجی قلعے اور کان کنی شروع کئے

12ویں سلسلہ شاہی نے دو سو سال حکومت کی (جس نے اپنا نیا دارالحکومت شمال میں ایجتاوے( Itjtaway کے مقام پر قائم کیا تھااس کے حکمرانوں کے تحت حکومت مضبوط مرکز، نظم و ضبط اور معاشی خوشحالی اور تہذیبی ترقی کا، پھر سے احیا ہو گیا، اس کے بادشاہ امینمہت سوم“(Amenemhat III) کے دور میں درمیانی بادشاہت عروج پر پہنچی۔

 اگر قدیم بادشاہت اپنے “اہراموں” کے لیے مشہور ہے تو وسطی بادشاہت اپنے ادب و فن کے میدان میں شہرت رکھتی ہے۔ان کے آرٹسٹک کارناموں پر قدیم مصر کا اگلا کوئی دور سبقت نہ لے جا سکا۔

5۔دوسرا عبوری یا دور انتشار اور ہائیکوس(Hyksos) تسلط:

وسطی بادشاہت کی ترقی اور خوشحالی کا شاندار دور بھی مستقل نہ رہا۔سرزمین مصر کو ایک دوسرے دور انتشار کا سامنا کرنا پڑا .

امنمہمت سوم” کے بعد 12 شاہی سلسلہ کا زوال ہونے لگا۔اس سلسلے کی آخری حکمران ملکہ سوبیکنیفرو(Sobekneferu) تھی جو مصری تاریخ کی پہلی خاتون حکمران تھی۔12ویں سلسلہ شاہی کے خاتمے کے بعد اگلے تین شاہی خاندانوں(14،13 اور 15ویں) کے دور میں وادی نیل چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا حلقہ ہائے اثر میں بٹ گئی۔جو آپس میں بر سر پیکار تھیں۔اندرونی انتشاراور خانہ,جنگی نے بیرونی حملوں کو شہہ دی۔ان میں ایک “ہائیکوس” تھے یہ ایشیائی لوگ، (جن کو مصری چرواہے یا غیر ملکی حملہ آور کہتے تھے) 1800 ق م کے بعد “کنعان” سے مصر آ کر ڈیلٹا میں رہائش پذیر ہونے لگے تھے۔

انہوں نے مصر کے انتشار سے فائدہ اٹھا کر اپنے بہتر ہتھیاروں( نئے قسم کے نیزوں ،تیر کمان تلواروں اور گھوڑوں کے رتھوں) اور جنگی تیکنیکس سے ڈیلٹا کے علاقے پر قبضہ کر کے مقامی حکمرانوں کو “تھیبس”کی طرف دھکیل دیا۔ڈیلٹا کے شمال مشرقی حصے میں واقع شہر “ایوریس“(Avaris)کے مرکز سے حکومت کرنے لگے۔1650 ق م تک” میمپس” کو فتح کرنے سے وسطی مصر تک تسلط بڑھا گئے

 1580 ق م تک ان غیر ملکیوں نے مصریوں کو مغلوب رکھا۔ ان کو ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنائے رکھا۔وادی نیل کی دولت کو لوٹتے رہے۔اگرچہ اس دور میں مصریوں نے ان سے کچھ اہم ہنر بالخصوص نئی جنگی تیکنیکس اور تنطیم بھی سیکھ لیے مگر ان کے تحت غلام رہنا پسند نہیں تھا۔اور یوں مصری جو پر امن تھے،شدید قوم پرستانہ جذبے اور غاصبوں کے خلاف نفرت سے لبریز ہوتے گئے۔اور ہر طرف ہائیکوس(جو مصری طرز حکومت اور فرعون کا لقب بھی اختیار کر چکے تھے) کے خلاف قوم پرستانہ بغاوتیں پھوٹ پڑیں۔

 ہائیکوس کے علاوہ جنوبی مصر میں “نوبیا” کے “کوش حکمران “بھی درانداز ہو گئے تھے۔

بالآخر مصر کے مقامی حکمرانوں نے ان چھٹکارہ پانے کی ٹھان لی” تھیبس” کے مقام پر جنوب کے شہزادوں “سیقنینرے دوم” اور “کاموس” نے 30 سال جنگ کے بعد 1555 ق م میں افریقہ کے “کوشوں” کو شکست دی جبکہ شمالی مصر سے ہائیکوس کو “کاموس” کے جانشین ” اہموس اول ” نکالنے میں کامیاب ہوا۔:اہموس”کے دور حکومت (1570 تا 1557ق م) سے مصر میں نئی بادشاہت کاآغاز ہوتا ہے

6۔نئی بادشاہت(دورسلطنت)1570ق م تا 1075ق م) قدیم مصر کا تیسرا اور آخری شاندار دور تھا۔دولت اور طاقت کے لحاظ سے یہ پہلے ادوار کے مقابلے میں زیادہ کامیاب تھا

ہائیکوس” دراندازی سے مصریوں نے یہ سبق سیکھا کہ دشمنوں سے حفاظت کے حوالے سے مصر کے گرد صحراؤں پر ہمیشہ تکیہ نہیں کیا جا سکتا ہے اس لیے نئی بادشاہت کے حکمرانوں نے مصری دفاع اور استحکام کے لیے سلطنت قائم کرنے کی پالیسی اختیار کی۔کانسی کے بنے جدید ہتھیاروں اور گھوڑوں کے رتھوں سے لیس ہوکر مصری بیرونی فتوحات پر اتر آئے

نئی بادشاہت میں اٹھارویں شاہی سلسلہ (1570 تا 1365 ق م) نے پیشہ ورانہ فوج بنا لی۔سرحدوں کو محفوظ بنانے اور اپنے ہمسائیوں، میتنی ( شرق اردن کی ایک قبائلی ریاست)،اشوریوں اور فلسطینیوں) سے سفارتی و تجارتی تعلقات مستحکم کرنے سے مصر میں بے مثل ترقی اور خوشحالی آئی

فتوحات کے سلسلے میں پہلا نام “تت موس اول (Thumtmose1) 1493 تا 1482 ق م) کا آتا ہے۔جس نے جنوب میں افریقہ(سوڈان) کی”کیرما ریاست” کو زیر کیا اور شمال میں شام اور دریا فرات تک فوجی مہم شروع کی۔افریقہ اور مشرقی وسطی کے ان فتوحات کو بعد میں اس کا پوتا “تت موس سوم” استحکام اور وسعت دیتا ہے جو 1479 ق م میں تخت نشین ہوا مگر کمسنی کی وجہ سے 20 سال تک اس کی سوتیلی ماں “ہت شیت سوت “( Hatshpsut) اس کی نائب کی حثیت سے حکومت کی نگران رہی۔جس کے دوران مصر نے کافی تجارتی اور کلچرل ترقی کر لی۔

 “تت موس سوم” نے اختیارات سنبھالنے کے بعد اپنی کامیاب مہمات سے مصر کے ایشائی مقبوضات کو استحکام اور وسعت دی۔شام کی شہری ریاست” کادیش”کو شکست دی۔پھر شمال کی جانب دمشق تک اثر بڑھایا

۔”بیبولینیہ”، “اشاریہ” اور “حطی”حکمرانوں نے خراج دیا۔جنوب میں نوبیا (شمالی سوڈان) کو زیر کیا

دارلحکومت کو” تھیبس”سے”میمپس” منتقل کیا۔

۔1425 ق م میں اپنی موت تک مصری سلطنت کو شمال مغربی شام “سے لے کر جنوب میں “نوبیا” تک وسعت دی۔اپنی فتوحات اور عسکری مہمات کے سبب اس کو مصر کا نیپولین بھی کہا جاتا۔

مشرقی بحیرہ روم پر کنٹرول حاصل کرنے سے مصر ایک طاقتور سامراجی طاقت بن گیا۔زیر تسلط علاقوں سے بے پناہ دولت حاصل کرنے لگا

اس دور میں مصر ،اپنی تہزیب، سیاسی طاقت، امن امان ،قانون کی حکمرانی، تجارت ،فوجی فتوحات وغیرہ ہر لحاظ سے بے حد کامیاب تھا۔فرعونوں کا شاہی شہر” تھیبس” بڑی عبادت گاہوں، خوبصورت باغات و محلات اور دولت کی ریل پیل کے باعث دنیا کا شاندار شہر تھا۔ تھیبس میں “کارنک”کا سب سے بڑا مندر اسی دور میں تعمیر کیا گیا۔

اہمن ہوطپ چہارم( Amenhotep IV)”کے دور( 1353تا 1336 ق م) میں سلطنت عروج پر پہنچی تاہم اس دور میں اس کے بعض مذہبی اصلاحات نے نئی بادشاہت کے استحکام کو خطرے میں ڈالا اس نے دیوتا ‘آمن را” سمیت مصر کے تمام روائیتی دیوتاوں، ان سے وابستہ مذہبی طبقے اور رسومات تقریبات اور عبادت گاہوں کو ختم کر کےصرف “آتن”دیوتا”( سورج) کو واحد حقیقی دیوتا قرار دیا۔

۔”ایمن ہوطپ”سے اپنا نام تبدیل کر کے اخناتون یا اخن آتان ( بمعنی”جس سے آتن خوش ہو”یا آتن کا مظہر) رکھ لیا۔تھیبس سے دارلحکومت نئے شہر اختاتن( موجودہ العمارانہ) منتقل کیا۔تاہم اس کی یہ کوشش دیرپا نہ رہ سکی۔1336 میں اس کی موت کے بعد اس کے جانشین” طو طنع آمن” ( Tutankhamon) نے پرانے عقائد بحال کر دیے گئے۔ (طوطنع آمن” کی شہرت کی ایک وجہ 1922 عیسوی میں دریافت ہونے والے اس کے مقبرے سے ملنی والی قیمتی اشیاء ہیں)۔تاہم اس کے بعد مذہبی جھگڑوں اور جارح دشمنوں کی سازشوں کے باعث مصر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

19ویں شاہی خاندان کے رامیسس دوم“(Ramses II)1279 ق م تا 1212ق م) ،جو بعض روایات کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام کے وقت کا مشہور فرعون کہا جاتا ہے) نئی بادشاہت دور کا ایک عظیم معمار اور مصر کا آخری بڑا فرعون تھا۔اپنی 67 دور حکمرانی میں اس نے سلطنت کی شان برقرار رکھنےکی قدرے کامیاب کوشش کی۔

13ویں صدی ق م میں شام اور فلسطین میں مصر کا ایشیائے کوچک کے “حتیوں” کے ساتھ جنگی معرکے شروع ہوگئے۔1274 میں کادیش (موجودہ شام) کے مقام پر “رامیسس دوم “اور “حتی” مملکت کے حکمران “موواتالی دوم” کے درمیان مشہور لڑائی ہوئی۔ رامیسس دوم نے اپنے تعمیر کردہ “ابو سمبیل” نامی عظیم مندر میں کی گئی کندہ کاری اور نقاشی سے اس لڑائی میں مصر کی فتح کا تاثر دیا ہے۔ مگر یہ لڑائی بے نتیجہ رہی تھی۔اس کا خاتمہ معاہدہ امن پر ہوا جس میں سرحدوں کے حدود مقرر کی گئیں(یہ تاریخ کا پہلا امن معاہدہ گردانا جاتا ہے)

ابو سمبیل” کے علاوہ تھیبس میں”کارناک ” کا مشہور مندر بھی”رامیسس” نے تعمیر کرایا تھا۔

رامیسس دوم” کے دور تک مصری سلطنت کافی مظبوط تھی مگر 1200 ق م کے بعد “توموس سوم “کی قائم کردہ سلطنت “اور رامیسس دوم” کی شاندار حکومت کےبعد مصری سلطنت میں زوال کے آثار بھی ظاہر ہونے لگے۔

 اسی زمانے میں سارے مشرق قریب میں نئی طاقتیں ابھر رہی تھیں۔شمال مشرق میں”حطی “سلطنت متحرک تھی۔شمال مغربی جانب سے انڈو یوریئین “ایشیا کوچک پر حملہ آور تھے۔مشرق قریب کے تجارتی راستوں پر “آرمینی “اپنا تسلط جما رہے تھے۔فلسطین میں اسرائیلی خود کو مستحکم کر رہے تھے .جنوبی فلسطین میں فلسطینیوں کی مضبوط ریاست بنی تھی۔ ” دورئین( یونانی) جزیرہ نما یونان اور بحیرہ ایجیئن کے جزیروں میں اپنی الگ تہذیب کی بیل ڈال رہے تھے۔یہ صورت حال مصری سلطنت کے لیے بھی خطرناک بن رہی تھی

 ان طاقتوں کے ابھرنے سے مصر کا اپنی سرحدوں سے باہر اپنی سلطنت کا دفاع کرنا دشوار ہونے لگا۔فلسطینی اکثر بغاوت کرنے لگے۔مغربی صحرا کی جانب سے لیبیا کے قبائل حملہ آور ہوئے۔”رامیسس دوم” کی موت کے کچھ عرصے بعد مشرقی بحیرہ روم کے اردگرد حملوں کی شدید لہر اٹھی جس نے بہت ساری بادشاہتوں کو تباہ کیا۔

.مصری ریکارڈ میں ان کو “سمندری باشندے کہا گیا ہے”بحیرہ ایجیئن “کی طرف سے آئے گئے ان پراسرار حملہ آوروں کے بارے مفصل معلومات تو کم ہیں مگر مصری سلطنت اور “حتی” بادشاہت ان کی غارت گرہوں کا شکار ہو ئے۔جس کی وجہ سے مصر اپنی طاقت پھر سے بازیاب نہ کر سکا۔ان معاندانہ حالات میں مصر کا اثر بالخصوص شام وغیرہ سے ختم ہونے لگا اور فرغانہ کا مصر بین الاقومی طاقت نہیں رہا۔

 19 سلسلہ کے شہنشاہ “رامیسس سوم ” 1198 تا 1167ق م نے سلطنت کو وقتی طور پر بچا لیا مگر اس کی موت کے بعد اس کی سابقہ شان و شوکت بازیافت نہ ہو سکی۔نئی بادشاہت کا آخری حکمران 20 ویں شاہی سلسلے کا رامیسس دہم(1107تا 1078ق م)تھا

اس کے بعد 1078 سے”مندیس” (21 واں شاہی خاندان کا بانی) نے”تائیس”شہرکو مرکز بنا کر شمالی مصر پر تسلط قائم کرلیا جبکہ جنوبی مصر پر تھیبس کے”آمن دیوتا “کے پروہتوں کا کنٹرول تھا۔

7۔ افریقی لیبیائی دور 945 تا 727 ق م

اسی زمانے میں مغربی ڈیلٹا میں 20 ویں شاہی سلسلہ کے دور سے رہائش پذیر “میش ویش” قبائل( قدیم لیبیائی باشندے) اپنی خود مختاری بڑھانے لگے تھے۔945 ق م میں انہوں نے اپنے سردار “شوشینق اول ” کے زیر کمان 22 ویں شاہی سلسلہ قائم کیا۔جو اپنے پہلے مرکز کی نسبت “بوباسیت( Bubastite)”شاہی سلسلہ کہلایا جاتا ہے

جبکہ جنوبی مصر میں اپنے خاندان کے افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کر کے تسلط جما لیا .ان کے تحت کافی عرصے تک ملک مستحکم ریا۔اس سلسلے کے پانچویں بادشاہ Osorkon II کی موت (837 ق م) کے بعد ریاست دو حصوں میں بٹ گئی۔

شمالی مصر پر اس کے جانشین “شو شینق سوم ” کی حکومت رہی۔جبکہ وسطی اور جنوبی مصر پر “میش ویش “قبیلے کے ایک حریف خاندان کے Takelot II نے الگ سلسلے سے بادشاہت قائم کی۔اس کا یہ متوازی سلسلہ جو 23 واں گردانا جاتا ہے 837 تا 728 ق م تک رہا۔

جبکہ شمالی مصر میں 22 ویں سلسلے کے عدم استحکام کے بعد مغربی ڈیلٹا میں”سیاسی”مرکز سے 12 سال کے مختصر عرصے( 732 تا 720ق م) تک رہنے والے افریقی “میش ویش” قبیلے کے دو حکمرانوں کا دور 24 واں شاہی سلسلہ شمار کیا جاتا ہے

۔ لیبیائی تسلط کے ان تین شاہی خاندانوں/ سلسلوں کا مجموعی دور تقریبا 200 سال رہا۔

8 افریقی کوش حکمرانوں کا دور ( 727 تا 525 ق م)۔

 نوبیا کے کوش مملکت (حبشہ/شمالی سوڈان) کے بادشاہ “پائی(Payi(جو جنوبی مصر پر تسلط قائم کر گیا تھا) نے 727 ق م کے لگ بھگ شمال پر حملہ کر کے “تھیبس” اور بالآخر ڈیلٹا پر کنٹرول حاصل کر کے 25 ویں سلسلہ شاہی کا آغاز کر دیا ( یہ کوش سلطنت ،حبشی فرعونوں یا ناپاتانی بادشاہوں کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے) کوش بادشاہوں نے مصری زبان ،طرز تحریر اور طرز حکومت اور معاشرت کو اپنایا۔اس سلسلے کے ایک فرعون ” تاہارقہ”(690 تا 664 ق م)نے سلطنت کو کافی وسعت دی۔ان کے بادشاہوں نے وادی نیل میں تھیبس کارناک ،جیبل بارکال، کاوا وغیرہ کے مندر اور یادگاریں مرمت کرانے کے ساتھ نئے تعمیرات بھی کئے۔وسطی بادشاہت کے بعد اسی دور میں زیادہ وسیع پیمانے پر وادی نیل میں اہرام تعمیر کرائے گئے۔جبکہ بعض سوڈان میں بھی بنائے گئے۔

اسی دوران مشرق بعید کے”اشوری”ان کے مدمقابل آگئے۔جو 671 تا 667 ق م کے درمیان مصر کو فتح کرنے پر اتر آئے”تاہارقہ”اور اس کے جانشین” تانوتامون” نےاشوریوں کے خلاف مسلسل برسرپیکار رہے مگر بالآخر” اشوری بانی پال” نے “کوشوں” کو نہ صرف شمال مصر سے نکال دیا بلکہ “نوبیا ” کی طرف دھکیل کر” میمپس” پر قبضہ کر لیا۔ تھیبس کے مقبروں کو تاراج کیا۔اشوریوں نے مصر کو براہ راست کنٹرول کرنےکے بجائے باجگزار مقامی حکمرانوں کے تحویل میں دیا۔جن کا شاہی سلسلہ(26 واں) سیت” (Saite) بادشاہوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔653 ق م میں”سیت “بادشاہ “سامتک اول” نے مصری بحریہ کے لیے بھرتی کردہ یونانیوں کی مدد سے اشوریوں کو نکال کر مصر کو متحد کیا “سیت” بادشاہ اپنے نئے مرکز “سیاس“( Sais) سے مصری معشیت اور تہذیب کے احیاء کرنے لگے مگر یہ عرصہ مختصر رہا۔

9۔آخری دور۔525 تا 332 ق م

اس کے بعد سے قدیم مصر کا آخری دور شروع ہوتا ہے .525 ق م میں فارس( ایران) کے شہنشاہ “کمبائیس دوم( کمبوجیہ) نے”سامتک دوم “کو شکست دے کر مصر کو سلطنت ایران کا حصہ بنا دیا۔اس نے فرعون کا لقب اختیار کرلیا اور مصر پر اپنے تقرر کردہ گورنر کے ذریعے ایران سے حکو مت کرنے لگا،۔مصر پر ایرانی حکومت کا یہ دور 27 واں سلسلہ شاہی گردانا جاتا ہے۔

 اگرچہ 402 ق م میں مصر کو ایرانیوں کے تسلط سے کچھ عرصے( 60 سال)کے لیے بازیاب کرایا گیا۔ اور اسی دوران مصر کسی حد تک تین مقامی سلسلہ ہائے کے تحت رہا۔ ان میں30 واں سلسلہ قدیم مصر کا آخری ملکی شاہی خاندان ثابت ہوا جب 343 ق م میں ایران نے اپنا تسلط دوبارہ بحال کیا۔ایرانی حکومت کے اس دوسرے دور کو بعض مورخین قدیم مصری تاریخ کا31 واں اور آخری سلسلہ شاہی کہتے ہیں۔جو 332 ق م تک قائم رہا۔

3100 ق م میں” بالائی اور زیریں مصر ” کے اوغام سے شروع ہونے والا قومی زندگی کا چکر ڈھائی ہزار سال سے زیادہ تک رہا۔6 ویں صدی ق م کے بعد ایرانیوں کے تسلط سے لےکر 20

صدی عیسوی تک مصر کی سیاسی آزادی غائب رہی۔اس طویل دور تسلط میں اگرچہ مصر قومی آزادی سے محروم رہا تاہم اس کو مصر کا تہذیبی زوال قرار نہیں کہاجا سکتا ہے۔ کیونکہ اس عرصے کے دوران بیرونی فاتحوں کے باعث اس کا تہذیبی ارتقاء ہوتا رہا۔

332 ق م میں سکندر اعظم کا ایرانیوں کو شکست دینے سے مصر ہر تسلط جمانے سے یونانی دور شروع ہو تا ہے۔جس کے دوران مصر میں یونانی تصورات متعارف ہوئے۔ سکندر کےجانشین”ٹولومی” نے مصر کے شہر اسکندریہ کو سائنسی علوم کا ممتاز شہر بنا دیا

یونانیوں کے بعد رومن آتے ہیں جنہوں نے 30 ق م میں مصرکی آخری یونانی حکمران ملکہ “قلوپطرہ” کو شکست دے کر مصر کو رومی سلطنت میں شامل کر دیا۔رومیوں کی آمد تک مصر کا پرانا کلچر خاص کر دیو مالائی مذہب برقرار رہا تھا۔

چوتھی صدی عیسوی میں رومنوں کا عیسائی مذہب اختیار کرنے سے یہاں عیسائیت متعارف ہوا۔جو 7 ویں صدی تک پھیلتا رہا۔تاآنکہ 646 عیسوی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دور خلافت میں مسلمانوں نے مصر کو مشرقی رومنوں (بازنطینوں) سے چھین کر اسلامی حکومت میں شامل کر دیا

یونانیوں اور مشرقی رومنوں کے تسلط کے دوران مصری زبان کی جگہ یونانی نے لی تھی۔ مسلمانوں کی آمد سے عربی سرکاری زبان بن گئی۔مسلمانوں کی فتح کے بعد مصری خود کو عرب سمجھنے لگے اور اپنے بہت ساری قدیم روایات کو ترک کر کے مسلم مذہب کو قبول کیا۔مختلف مراحل سے ہو کر گزر نے والے مصر کی موجودہ تہزیب و تمدن ،طرزحکومت ،معاشرت ،زبان اور مذہب وغیرہ قدیم دور کے مصر سے مختلف ہیں۔مگر آوائل انسانی تہذیب کا دوسرا بڑا مرکز رہنے والے مصر کی پہچان اور شہرت کا سبب اس کے قدیم دور کے وہ عظیم الشان اہرام اور مجسمے ہیں جو آج تک ذہنوں کو ورطہ حیرت میں ڈال رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments