عمران خان کی سیاست تقسیم ڈال رہی ہے


دو قوتیں ہیں جو کسی بھی معاشرے کو تقسیم کرنے یا متحد کرنے میں سب سے آگے ہوتی ہیں، مذہب اور سیاست۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے لیکن پاکستان میں کئی سالوں سے مذہبی تقسیم کا شکار ہے شیعہ سنی، وہابی بریلوی اور ایسے بہت سے فرقے پاکستان میں تقسیم کا باعث بن رہے ہیں۔

2011 میں چیئرمین پی ٹی آئی کا عروج شروع ہونے سے پہلے سیاست پاکستان میں ایک مثبت طاقت تھی جس نے معاشرے میں یکجا کر رکھا تھا۔ تاہم، عمران خان نے سیاست میں ایسے رجحان متعارف کرائے ہیں جو اپنے پورے منفی انداز میں پاکستانی معاشرے پر حاوی ہو رہے ہیں۔ ایک مخصوص پلاننگ کے تحت عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کے نام پر بھرے جلسوں میں ان کا مذاق اڑانا شروع، ان کے نام بگاڑنے کا ٹرینڈ شروع کیا۔ پچھلے 12 سال سے وہ یہ کام اتنی تواتر سے کر رہے ہیں کہ عمران خان کے فالورز کے دلوں میں وہ تنقید اب نفرت میں بدل چکی ہے اور ان سب میں عمران خان کے مبینہ ہینڈلرز نے ان کا کھل کر ساتھ دیا، ان کی سہولت کاری کی۔

مسلم لیگ نون کی مقبولیت کا توڑ کرنے کے لیے پاکستانی قوم کو ایک زہریلے پراپیگنڈا کی نذر کر دیا گیا اور اس پراپیگنڈا کے لیے عام پاکستانی ہی نہیں سپورٹس، شوبز اور ادب کی سلیبرٹیز کا بھی کھل کر استعمال کیا گیا۔

حال ہی میں اداکارہ ماہرہ خان اور رائٹر انور مقصود کا ایک ویڈیو کلپ اس سوچ کی واضح مثال ہے۔ کلپ میں ماہرہ خان اور انور مقصود کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ مریم نواز اور مریم اورنگ زیب کا مذاق اڑا رہے ہیں اور ان کے سامنے بیٹھے سامعین اس پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ عمران خان کے حق میں پراپیگنڈا کی اس کی جنگ میں نہ پیادوں نے کسی اصول کو خاطر میں لایا اور نہ ہی ہینڈلرز نے اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہر ذی شعور شہری سیاسی وابستگی رکھتا ہے اور اسے اپنی پسندیدہ پارٹی کو سپورٹ کرنے کا حق ہے لیکن ادب، آرٹس اور سپورٹس سلیبرٹیز کھلے عام اپنی سیاسی وابستگی کا اظہار کرنے لگیں تو نہ معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے، متعلقہ شعبہ تقسیم ہو جاتا ہے۔

ماہرہ خان اور انور مقصود پہلی سلیبرٹیز نہیں ہیں جو اس پراپیگنڈا جنگ میں استعمال ہوئے۔ اس سے پہلے خلیل الرحمان قمر، سنگر سلمان احمد، بشری انصاری، مشی خان، کبری خان، ثمینہ پیرزادہ اور ایسی بے شمار شخصیات کے ذریعے عمران خان کی شخصیت کو سیاست میں قابل قبول بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمران خان کو پسند کرنے والوں کو سمجھ دار، مہذب اور دوسروں سے بہتر دکھایا گیا جبکہ دیگر جماعتوں کے ووٹرز کو جاہل اور نا سمجھ ظاہر کیا گیا۔ ان شخصیات نے نہ صرف کھلے عام اپنی سیاسی وابستگی کا پرچار کیا بلکہ عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے میمز اور جملوں سے مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو مذاق کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم کا حصہ بنتے رہے۔

شوبز شخصیات کی سیاست پر اعتراض کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ بھارت میں بہت سے فنکار وہاں کی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ لیکن اس دلیل میں یہ بات نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ ان شخصیات میں مخالف جماعتوں اور انہیں ووٹ دینے والوں کا مذاق نہیں اڑایا جاتا، لوگوں کو ان سے نفرت کرنا نہیں سکھایا جاتا

عمران خان اپنی اس روش پر اب بھی قائم ہیں اور اسے سیاسی شعور کا نام دیتے ہیں تاہم، وہ یہ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ ان کا انداز سیاست پاکستان کو تقسیم کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments