کھلے تضاد اور امتیازات سے بھرا معاشرہ


عام مشاہدے کی بات ہے کہ ایک انسان کی زندگی کے رہن سہن میں توازن نہ ہو اور اسی طرح کسی ریاست کی پالیسیوں میں ”مساوات اور عدل“ نہ ہو تو دونوں جگہوں پر تباہی و بربادی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ مشرق و مغرب کے معاشرے کے اندر کے فرق کی یہ جان کاری جرمنی پہنچ کر ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ پاکستان میں دوران قیام تعلیم اداروں اور درسی کتب سے وہ سبق نہیں ملے تھے جو جرمنی کے طرز معاشرے سے ملے ہیں۔ حقیقت یہی کھلی کہ کسی بھی ملک کے نظام تعلیم اور تدریسی نصاب میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، اسی کا عکس معاشرے میں دکھائی دیتا ہے۔

اگر کتب کے اندر محبت ہے تو معاشرے میں جا بجا محبت کے نظارے دیکھنے کو ملیں گے اور اگر نفرت و جھوٹ ہے تو پھر معاشرے میں دنگا، فساد اور شر کو فروغ ملے گا۔ پاکستانی سیاست و معاشرے کا دیگر خطوں کے ساتھ اگر موازنہ کیا جائے تو ایک نمایاں فرق ”جذباتی“ اور ”غیر جذباتی“ ہونے کا نظر آئے گا۔ مغربی ممالک کے معاشروں میں امن و سکون کی جو لہر ہے اور ترقی و خوشحالی کا جو دور دورہ ہے، وہ محض غیر جذباتی ہونے کے سبب ہے جو ملک میں قانون کی بالادستی کی وجہ بنتی ہے۔

مغربی معاشروں میں کسی فرد واحد یا سیاست دان کی ملکی و قومی خدمت کو اس کا فرض جانا جاتا ہے جس کی اس کو تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاں ایسے کاموں کو ملک و قوم پر ایک احسان سمجھ کر جتایا جاتا ہے اور اس کی اوقات سے کہیں زیادہ قیمت بھی وصول کی جاتی ہے۔ یہ پلاٹوں، کیش اور دیگر شکلوں میں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے اندر انتہائی دولت مند اور انتہائی غریب کی تقسیم ہو چکی ہے ان کی الگ الگ دو کالونیاں بن چکی ہیں۔ درمیان میں کوئی طبقہ زندہ نہیں رہا۔

2014 میں مجھے جرمنی پہنچے ایک سال ہوا تھا۔ جولائی میں جرمنی نے فٹ بال ورلڈ ٹائٹل جیتا تھا۔ لاہور کے دوست افنان خان لودھی کے گھر میں لنچ انجوائے کرنے اور یہ فائنل دیکھنے کے بعد جب گھر کو واپس روانہ تو راستے میں رات گئے تک فتح کے اجتماعی جشن نظارے دیکھے تھے لیکن اگلے روز زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ چانسلر کی طرف سے قیمتی انعامات کہ کوئی اعلان نہ ہوا، نہ مفت پلاٹس تقسیم کیے گئے۔ یہ ہی قومی خزانے کے منہ کھولے گئے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سمجھ آئی ہے کہ یہاں جذبات کی گنجائش نہیں نہ ہی مان مانی کی اجازت ہے۔ قلم کی ایک ہی جنبش یا زبانی اعلان سے قومی دولت لٹانے کا کوئی تصور یہاں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے اندر بھوکا کوئی نہیں سوتا۔ نہ علاج کا کوئی غم ہے نہ تعلیم کی کوئی فکر ہے۔ سب کو یکساں میسر ہے۔ ہمارے ہاں حال ہی میں پاکستان سپر لیگ کرکٹ 2023 ٹورنامنٹ جو کہ پی ایس ایل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا اختتام ہوا ہے۔

یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیر اہتمام کھیلا جاتا ہے۔ میڈیا نیوز چینلز اور پرنٹ میڈیا میں اس کے بہت چرچے رہے۔ کھیل کی افادیت اور اس کی اہمیت سے بالکل انکار نہیں ہے۔ لیکن اس کے پس پردہ جس طرح کی مالی من مانیاں دیکھنے اور سننے کو ملیں وہ نہ صرف قابل اعتراض ہیں بلکہ ان سے سوسائٹی کے اندر موجود کھلے تضاد کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔ خبر کے مطابق سپر لیگ کی فاتح ٹیم کو 24 قیراط سونے اور 907 زرغون نگینوں سے بنی نئی ٹرافی کے علاوہ 12 کروڑ روپے کی انعامی رقم بھی ملی۔

جبکہ رنر اپ ٹیم کو چار کروڑ اسی لاکھ روپے ملے۔ اس موقع پر کھلاڑیوں کے لئے بیش قیمت تحائف کی جس طرح بارش کی گئی ہے اس کو دیکھ کر عقل بھی دم بخود ہے۔ ایک بڑے اخبار کی خبر کے مطابق لاہور قلندر کی انتظامیہ کی جانب سے دوسرے ایلیمنیٹر میں کامیابی پر کھلاڑیوں کو 2 قیمتی فونز اور 2 پلاٹس تحفے میں دیے ہیں۔ اسی طرح پلیئرز ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت بھی دو کھلاڑیوں کو قلندر سٹی میں پلاٹ تحائف میں دیے گئے۔ مفت پلاٹ لینے کی ہوس دیکھیں کہاں تک پہنچ چکی ہے اور اب منہ کھول کر فرمائش کرنا بھی معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کرنے والے ایک کھلاڑی نے دوسرے کھلاڑی کی پرفارمنس پر ایک کنال پلاٹ دینے کی سفارش ایک ٹویٹ میں کی ہے۔ ان شاہ خرچیوں سے ان تمام خبروں کی نفی ہوتی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کر رہا ہے یا معاشی دلدل میں پھنس گیا ہے۔ عجیب منافقت کی اور دکھائی جا رہی ہے۔ کھیل کے میدان میں یہ کھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ گزشتہ سال کے متاثرین سیلاب زدگان ابھی بھی برے حالوں میں ہیں، ان کے گھر آباد نہیں ہوئے کیونکہ حکومتوں کے پاس پیسے اور وسائل کی کمی ہے۔

ماہ رمضان سے قبل حکومت کی طرف سے مفت آٹے کی تقسیم نے اندر کی چھپی حقیقی غربت کو باہر نکال پھینکا ہے۔ آٹے کے مفت تھیلوں نے دو زندہ انسانوں کو نگل لیا۔ اس سے زیادہ عبرت ناک صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ کروڑوں کے انعامات کی شکل میں فضول خرچیوں سے معاشرتی و سماجی تقسیم کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔ گویا گھر کو آگ لگ رہی ہے گھر کے چراغ سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments